عام سے غریب آدمی کی اقتدار میں شرکت ناممکن جب تک یہ مگرمچھ بیٹھے ہیں ہماری ملک میں سچے اور سُچے سوشلسٹ نظام کی خواہش کی اوقات کیا؟اگر اِس نظام کے نافذ کرنے والے مخلص نہیں۔ڈھکے چھپے لفظوں میں نہیں بلکہ کُھل کھلا کر پربھا کرن جیسے لیڈر کو جسے اس نے اور اس جیسے بہتوں نے اپنا آئیڈیل مانا تھا۔جو غریبوں کی بات کرتا تھا۔ان کے حقوق کیلئے لڑتا تھا۔
پھر جیسے فضا میں گالیاں اُچھلیں۔
‘‘سالا خونی بن گیا ہے۔ہمیں حقوق تو کیا ملنے تھے۔تاملوں کا بیڑہ غرق کردیا۔مشتبہ بنا دیا ہمیں ۔کہیں پولیس ہم پر کڑی نظر رکھتی ہے،کہیں انٹیلی جنس والے گھسیٹتے پھرتے ہیں،کہیں وہ حرامزادی بیورو کریسی ہمارے لتے لیتی ہے۔ کاروبار کا الگ بیڑہ غرق ہورہا ہے۔اب دیکھو اس کا وہ چہیتا یار، اس کا دست راست ویانا گامورتھی مرلی دھن اُسے چھوڑ کر حکومت میں شامل ہوگیا ہے۔ایک دن یہ بھی سالا مارا جائے گا یا پکڑا جائے گا۔’’
وہ تامل ہندو تھا۔اس کا دکھ مجھے سمجھ آتا تھا۔مجھے تو اپنے ہی عکس جیسے آئینے میں نظر آئے تھے۔جی چاہا تھا کہوں کہ گبھرائیں نہیں ۔نظام بدلنے میں وقت لگتا ہے۔دنیا ئے اول کی تاریخ پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہیں یہاں تک آنے میں صدیاں لگی ہیں۔
مگر اندر نے کہا۔چپ کر وڈی انٹیلکچوئل۔
اجازت لی۔باہر نکلی۔چاروں اور نظریں دوڑائیں ۔کہیں کچھ نہ تھا۔اب میں نے امکانی پہلوؤں پر غور کرنا شروع کردیاکہ مجھے اب اِس شہر کے تھانے میں حاضری دینی ہے۔تبھی میں نے مسٹر جسٹنن کو دور سے پیدل آتے دیکھا۔میری طرح اس کی آنکھیں بھی چارو ں کھونٹ گھوم رہی تھیں۔
میں نے کچھ نرم نرم تھوڑے سے گرم گرم لفظوں میں اُسے کوسا۔ایسی ہی بوچھاڑ اُس کی جانب سے بھی ہوئی۔چلو شکر مزید خجل خواری سے بچت ہوگئی۔مہرانساء سے البتہ زور دار قسم کی جنگ ہوئی۔
‘‘آخر تم کہاں دفع ہوگئی تھیں؟بیچارے مسٹر جسٹنن ہپوہان(ہلکان) ہوگئے۔عجیب ہو تم بھی گدھے کے سر سے سینگوں کی طرح غائب ہوجاتی ہو۔’’
‘‘ میں نے کیا کہا ۔یہی نا۔میرا تو پاؤ بھر خون سڑگیا۔بلڈپریشر نے بھی شوٹ کرنا شروع کردیا۔بھلا میں نے کہاں جانا تھا؟یہیں تھی ۔اب اگر تمہاری آنکھوں میں بٹن فٹ ہیں تو میں کیا کروں؟’’
سڑک کے کنارے بڑے بڑے سلور کے دیگچوں میں اُبلے سٹے بیچتی عورتوں کی محنت کشی کی عادت اچھی لگی۔اپنے ملک کی ہٹی کٹیوں پر لعنت بھیجی جو اپنی جوانی کے چسکوں کے نمونے ڈھاکوں پر اٹھائے جگہ جگہ ہاتھ پھیلائے نظرآتی ہیں۔
چونکہ دوپہر اور رات کا کھانا پیکج میں شامل نہیں تھا۔اس لئیے Kadugannouaمیں نمک مرچ اور لیموں کے ساتھ یہ بھٹے اور ہتھ چُھٹ قسم کے دو کیلے فی کس کا لنچ ہمارے نزدیک کافی تھا۔انناس کے قتلوں نے سویٹ ڈش کا کام دیا۔
کیگالا کی جامع مسجد میں ملنے والا سبق کافی تھا۔میرے شوق سجدہ میں خاصی سرد مہری آگئی تھی کہ راہ میں نظر آنے والی مسجدوں کو دیکھا ضرور مگر اُتری نہیں۔یوں بھی مسٹر جسٹنن نے جلدی جلدی کا شور مچارکھا تھا۔کینڈی کے مشہور زمانہ ڈانس کا مخصوص وقت تھا۔ہاں البتہ کینڈی سے پہلے پیرا ڈیناPeradeniya کا خوبصورت شہر ہے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے پنڈی اسلام آباد ہو۔
اس کی دو چیزیں بڑی نمایاں تھیں۔ایک اس کا شہرہ آفاق باٹینکل گارڈن۔خدا گواہ ہے کیا لاجواب چیز تھی۔پتوں میں کتنے رنگ جھلکیاں مارتے تھے۔ہزاروں اقسام کے پودے،درختوں کے پتوں میں رنگوں کی بہار،جھاڑیوں پر کھلے پھول اور شگوفے۔جگہ جگہ پھولوں کی کیاریاں۔ مصالحے کے باغات ۔ہربل دوائیاں کیسے بنائی جاتی ہیں؟ طریقہ کار جانا۔صندل سے کیا کیا بن سکتا ہے؟زعفران کے پودے ۔
خیر زعفران کے پودے میں نے شندھور میں بہتیرے دیکھے تھے۔ لیکچر دینے والے بڑے ٹرینڈ لڑکے تھے۔ باغات اور کاروبار سب حکومت سے منظور شدہ تھے۔ سو روپے میں پاؤں کے مساج جیسے نعرے نے بڑا متاثر کیا۔گو آج کے کھاتے میں ابھی تک کوئی خاص مشقت تو بیچاروں نے نہیں جھیلی تھی پر سوچا چلو گذشتہ دنوں کا ہی کفارہ ادا کردیں۔اتنے تو بیبیسے ہیں ۔ نگمبوکی سڑکوں کو انہوں نے جیسے کوٹا وہ کچھ بیچارے یہی جانتے ہیں۔
ہم نے مساج کیا خاک کروانا تھا۔ہمارے تلووں کی گدگدیاں ہی ہمیں بے حال کرنے کیلئے کافی تھیں۔
دوسرا اہم واقعہ سڑک کے کنارے سفید براق ساڑھیوں اور پینٹ قمیضوں میں عورتوں مردوں کو دئیے جلاتے دیکھ کر رُک گئے۔دیوں کا یہ میلہ ایک ایسے شخص کی یاد میں تھاجو سری لنکا کا بہت بڑا بزنس مین ہی نہیں تھاایک بہت بڑا انسان بھی تھا۔جسکے کارخانوں اور فیکڑیوں میں کام کرتے لوگوں کو اس کی وفات کے بیس سال بعد بھی وہ تمام سہولتیں حاصل تھیں جو ملٹی نیشنل اداروں کے ملازموں کو بھی حاصل نہیں ہوتیں۔ وہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھاتھا۔تامل ٹائیگرز لبریشن اِس قتل کی ذمہ دار ہے۔مسٹر جسٹنن تو اِس معاملے میں بڑے واضح تھے۔بھتہ بہت مانگنے لگے تھے۔
وہ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک تھا۔مخیر بھی بہت تھا۔ہاں غلط باتوں اور غلط کاموں کو برداشت نہیں کرتا تھا۔تنقید تو ان پر کھلے عام کرتا تھا۔
اچھے کام خوشبو کی طرح ہوتے ہیں۔سدا مہکتے رہتے ہیں۔
گاڑی سے اُتر کر تصاویر بنائیں۔دعائے خیر کی ۔اِس دہشت گردی نے دُنیا میں کیسے کیسے ظلم کے باب رقم کئیے ہیں؟
تھوڑی دیر کیلئے اُس گروپ میں بیٹھے جو دائرے میں ہارمونیم پر گیت گارہا تھا۔خراج عقیدت کے جذبات میں گُندھا گیت ۔شام ہوگئی تھی۔جب کینڈی میں داخل ہوئے۔ہمارے لئیے کینڈی کرکٹ کے حوالے سے آئے دن کانوں میں پڑنے والااور ٹی وی کے ذریعے آنکھوں کے سامنے سے گزرنے والا نام ہے۔ بچوں کی گولیوں کے حوالے سے بھی بڑا مانوس سا ہے۔
سچ تو یہ تھا کہ شام کے جھٹٹپے میں شہر میں داخلہ اور اس کا طائرانہ سا نظارہ کسی طلسم کی طرح نظرآرہا تھا۔سرمئی سے آسمان کی چھت تلے ،ہریالیوں گھری، موتیا اور بھینی بھینی خوشبو سے لدی پھندی کینڈی کسی ماورائی سی دنیا کا پتہ دیتی تھی۔
شہر کا لینڈ مارک جھیل اور اسمیں جھانکتی عمارتوں کے عکس۔پل بھر کیلئے رُک کر اِس منظر کو آنکھوں میں بسایا تھا۔پرندوں کی چہچہاہٹوں اور فضا پر تیرے نیلگوں دھویں کے غبار سے منظروں کی دلرباعی آشکارہ ہوتی تھی۔
ابھی راستے میں سری لنکا کے مایہ ناز شاعر روی سایتسومRavi Sathasivam کاسنہالی گیت جس کا ترجمہ ہمارے گائیڈ نے کیا تھا ہمیں دوبارہ یاد آنے لگا تھا۔اپنے وطن کی کیسی خوبصورت عکاسی کی تھی اُسنے۔
مجھے اپنے ملک سے بہت پیار ہے
پہاڑوں کی چوٹی پر خدا آدم پیک پر بیٹھا ہوا ہے
وہ ہماری قوم پر رحمت کی دعائیں بھیج رہا ہے
نوازا ہوا ہمارا یہ ملک
دنیا کا باغ عدن ہے یہ
فطرت جب ہماری قوم کو گلے لگاتی ہے
تب زمین دنیا پر جنت بن جاتی ہے
واقعی جنت اور کیا ہوگی
ہم اب اپنے گائیڈ کو سُنتے تھے اور گاڑی سبک خرامی سے اوپر چڑھتی چلی جاتی تھی۔یہ حیرت انگیز جائے وقوع کا کلچر ل شہر جسے دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔سورج کی چمکتی کرنوں میں پل پل بدلتے رنگوں والا یہ جومہاولی Mahaveli دریا کے پیچ و خم میں لہروں کے ہلکوروں میں کِسی خواب کا سا گمان دیتا نظرآتا ہے۔
شہر اپنے حال کی طرح اپنے ماضی میں بھی اتنا ہی باوقار تھا۔Vimaladharmasurya نے 1592میں اسے بنایا۔ہاں ڈچ، پُرتگیزوں اور بعد میں انگریزوں کے قبضے نے بھی اسکی خوبصورتیوں اور اس کے حسن میں اضافے کئیے۔
دی ڈراپ ان ہوٹل The Drop Innخاصی چڑھائی پر تھا۔موڑ کٹتے تو چوٹی پر سجے بدھا کے سفید مجسمے نے لشکارے مارے۔ہوٹل کے ٹیرس پر رُک کر گردوپیش کو بہت لمحوں تک ساکت ہوکر دیکھا تھا۔ہماری طرح بہت سے لوگ بت بنے کھڑے اس وادی کینڈی کو سر سبز پہاڑوں سے گھری دیکھتے تھے۔
ہوٹل خوبصورت تھا۔دائیں بائیں راہداریاں ایک دوسرے کو کاٹتی پھرتی تھیں۔کمرے بھی اچھے تھے۔مگر کھانا کیسا بے سودا سا تھا۔دال سبزی کا ہی پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کونسی ہے؟
اب زہر مارنے والی بات ہی تھی۔
پر اُس روسی لڑکی آکسانا(Oksana )سے ملنا بھی اس دن کے بہت سے اچھے اور یادگار تجربات میں ایک دلچسپ اضافہ تھا۔وہ ہر سال ایک ہفتے کیلئے سری لنکا آتی تھی۔اپنی جلد کو براؤن کرنے،بیچ پر نہانے اور مزے لوٹنے۔
‘‘ارے بھئی اس ملک کی بڑی موج ہے۔نہ کوئی ویزا ،نہ کوئی اور جھنجٹ اور ہاں مہنگائی بھی نہیں ۔بس ٹکٹ کٹاؤ اور فطرت کے مزے لوٹو۔
واقعی ایسا ہی تھا۔اس کی بات سے میں نے اتفاق کیا۔
آکسانہ روسی مزاج کے قطعی برعکس تھی۔نرم گرم اور گھلنے ملنے والی۔میں نے پُوچھا کہ ساتھ کوئی بوائے فرینڈ ٹائپ چیز نہیں ہے۔اُسنے ہنستے ہوئے مونڈھے مارے اور بولی۔
کبھی کبھی اکیلے گھومنے پھرنے کا اپنا مزہ ہے۔دُم چھلّے کبھی کبھی زہر لگتے ہیں۔
میں نے دل میں کہا تھا ۔
‘‘ہائے کمبخت میرے جیسی۔’’
کینڈی کا کلچرل شو دیکھنے کیلئے نکلے۔آسمان پر چاند نہیں تھا۔ہاں تارے ضرور چمکتے تھے۔ پر رات اندھیری تھی اور شاہراؤں پر گو لائٹس روشن تھیں مگر ماحول بُقعہ نور نہیں تھا۔تاریکی سرسبز درختوں کو کیسی ڈراؤنی اور خوف زدہ صورتوں میں ایک کے بعد ایک پیش کرتی جارہی تھی۔ مینڈ ک اور شب کے چرند پرند اِس پہلے پہر میں ہی راگ الاپنے شروع ہوگئے تھے۔اِن کی یہ آوازیں میرے گاؤں کی بچپن کی آوازوں سے کتنی مختلف تھیں۔میں نے بے اختیار ہی خود سے کہا تھا۔
چھپڑوں کے کناروں پر بیٹھے ٹرٹراتے وہ پاکستانی ڈھڈو اور اِس رنگینی بھرے ماحول میں یہ لنکن، انکے یہ الاپ جیسے کہیں ڈرم بجتے ہوں یا کِسی مندر میں فلیوٹ بجایا جارہا ہو۔کہیں اونچے درختوں کی شاخوں میں جلتے بجھتے جگنوؤں کی دوڑیں جیسے شمعیں سی جلتی ہوں۔انوکھے سے طلسم سے بھری فضا جہاں سانس رکتی ہے اور جہاں خدا بہت قریب محسوس ہوتا ہے۔
Queen’s Hotelکوئینز ہوٹل کی عمارت بُدھا کے مندر ٹوتھ ریلک Tooth Relic کے پچھواڑے کی طرف تھی۔اسی لئیے محلوں والے بہت سے نظارے اُسکے چہرے مہرے اور وجود سے چھلکتے تھے۔
عمارت کا شاہانہ پن کم اور باوقارانہ کروّفر فی الفور آپ کو کہیں ماضی میں لے جاتا ہے۔سفیدیوں میں نہاتی الٹے ایل کی صورت اپنی بالکونیوں اور ماتھے پر سجی اپنی پُروقار سادگی کی عظمت کا پر تولئیے آپ کو ماضی کی کہانیاں سنانے کیلئے اپنے ساتھ چلنے کا کہتی ہے۔ ٹکٹ ایک ہزار سری لنکن روپے کا تھا اور ہمیں اپنی جیب سے لینا تھا۔اسی لئیے مسٹر جسٹنن کو تو ہم نے کھیل تماشے سے ہی باہر کردیا کہ بھلا اپنی چیزوں کو دیکھنے کا کیا لُطف؟
اُس نے فوراً دبے دبے سے لہجے میں کہا بھی۔آپ کے لئیے ساتھ ساتھ پس منظر سے آگاہی ضروری ہے۔ہم نے سُنی ان سُنی کردی تھی اور دل میں کہا تھا۔
‘‘ہٹاؤ یار یہاں زندگی کی سمجھ نہیں آئی۔اس پل بھر کے کھیل تماشے کو نہ بھی سمجھا تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی۔’’
اندر تل دھرنے کی جگہ نہ تھی والا محاورہ بولا جاسکتا تھا۔چیختے چنگھاڑتے شور مچاتے رنگ انوکھی اور نرالی وضع کے کاسٹیوم جو ہیرے جواہرات کی اپنے اوپر کثرت استعمال سے بتاتے تھے کہ سری لنکا ان کا گھر ہے۔فنکاروں کے چہرے اور بدن میک اپ اور نقش و نگاریوں کے کارن کیا کیا روپ دھارے ہوئے تھے۔کوئی آٹھ دس تو ڈانس ہی ہونگے۔ان میں جسم کی تیز ترین اشاری علامات کے ساتھ ساتھ ہاتھ پاؤں کی زوراوری، مار دھاڑ، جوڈو کراٹے ٹائپ اور بازیگری کے نسخے شامل تھے۔شاید اسی لئیے پر فارم کرنے والے سب کے سب مرد تھے کہ وہ ہی ایسے ماردھاڑ والے کرتبوں سے ایک سنسنی خیز کہانی دکھا سکتے ہیں۔
افسوس یہ تو ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ اب یہ سب چھوٹی عمر کے لڑکے اور لڑکیوں کو بھی سکھایا جاتا ہے۔گوروں کیلئے خصوصی طور پر لڑکیوں کے ڈانس والے ہال بک ہوتے ہیں۔ٹکٹ بھی خاصے مہنگے ہیں۔
سازوں میں بھی زیادہ زور ڈرمنگ پر ہی تھا۔سری لنکا میں کوئی چھبیس اقسا م کی تو ڈرم سازی ہوتی ہے۔اِن میں کہیں فلیوٹ،کہیں oboe اور کہیں دوسرے سازوں کی آمیزش سے بہت سے نئی اختراعات ہوئی ہیں۔

بعض پروگراموں سے پہلے کاغذ ہاتھوں میں تھمائے گئے۔چلیں یہ اچھا تھا کہ تھوڑی سی جانکاری ہوگئی۔بعض مذہبی رسومات جنکی ادائیگی جادوگر چڑیل ڈاکٹروں نے کی۔
سچی بات ہے دم سادھ کر یہ سب دیکھا تھا۔سمجھ نہ آنے کے باوجوداور لُطف بھی اٹھایا۔جھیل کے گردا گرد ایک چکر لگایا۔اندر سے نظاروں کی متمنی خواہشوں نے حسرت بھرے لہجے میں کہا تھا۔
‘‘کاش کہیں چاندنی رات ہوتی۔تب یہ سماں کیسا ہوتا۔’’
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں