سیلون کے ساحل ۔ہند کے میدان( باب نمبر3(الف)/ لاہورسے سری لنکا جانے کی روداد)-سلمیٰ اعوان

کینڈی

julia rana solicitors london

‘‘مسٹرجسٹنن پریرا Justinian Paryra
حددرجہ مودبانہ اور مسکین سے خدوخال والے جس شخص نے نیم ایستادہ سا ہمیں تعظیم دیتے ہوئے یہ تعارفی جملہ بولا تھا۔سچی بات ہے اُسکا اتنا کہنا ہی کافی تھا۔میں تو پل نہیں لگا تھا ایشائے کوچک پہنچ گئی تھی جہاں وہ قسطنطنیہ کا جیالا سات فٹا نیلی کانچ کی گولیوں جیسی آنکھوں، سنہری پٹوں، جنوں جیسے ہاتھ پاؤں اور لشکارے مارتے نئے نکور تانبے جیسی رنگت والاجسٹنن ات میدان میں رتھ ڈورکے تماشوں میں اُلجھا ہوا تھا۔
ہائے یہ ہم جنوبی ایشیا کے لوگ، احساس کمتری کے پالے لوگ، نام بھی کیسے چُن چُن کر رکھتے ہیں۔اب یہ بیچارہ ڈھائی پسلی کا جسٹنن جسے میری جیسی عورت اپنے کلاوے میں بھر کر بھینچے تو پلاسٹک کے کھلونے کی طرح پچک جائے۔ڈھڈو رنگا اور آنکھیں بھی اسی کی طرح اوپر ہی دھری ہوئیں۔
آپکا ڈرائیور +گائیڈ۔’’
بڑی ڈرامائی سی کیفیت میں گھری کھڑی تھی۔قامت میں مجھ ٹھگنی سے بھی پور چھوٹا ہی تھا۔ہائے ذرا سا بھی پکھ نہیں لگا تھا اُس حسن و وجاہت اور بانکپن کا۔
اب میں تو مصیبت میں پڑ گئی تھی نا۔نام لوں گی تو وہ جیالا خیالوں میں بھاگا دوڑاچلا آئے گا۔یہ ہم لوگ نام رکھتے ہوئے کچھ سوچتے کیوں نہیں؟ہم پاکستانیوں کے ساتھ بھی یہی المیہ ہے۔
ویسے میں بھی کیسی فضول اور منفی سوچ والی عورت ہوں۔ایک شریف سے انسان کو مقابلے کی سان پر چڑھا دیا ہے۔
دراصل پچھلے ڈیڑھ گھنٹہ سے میں مہرانساء کی بکواس سُنتے ہوئے اپنا خون جلانے میں جتی ہوئی تھی۔وہ میری جلد بازیوں پر نکتہ چیں تھی کہ رات پارٹی کے کہنے پر فوراً ڈالروں میں ادائیگی کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔سوچ سمجھ کر آرام سے کرتے ۔کوئی بازو بیلنے میں آیا ہوا تھا۔
میں بھی ایک نمبر کی آپ پُھدری ہوں۔رات مہرانساء کی اس بات کو پرکاہ برابر اہمیت نہیں دی تھی۔میرے خیال کے مطابق پردیس میں آپ کو اعتماد کرنا پڑتا ہے۔زیادہ ہوشیاریاں،چوتیاں چلاکیاں اور اسمارٹیاں کبھی کبھی کیا اکثر نقصان دہ ہی ثابت ہوتی ہیں۔سیدھے سیدھے چلو۔اگر کوئی چکر چلائے گا تو خود ہی بھگتے گابھی۔
اس وقت جب ہم چڑیوں کی چہچاہٹوں میں ناشتے سے فارغ ہوکر انتظار میں بیٹھے ساعتیں گنتے تھے۔مہرانساء نے اپنا غبار نکالنا شروع کردیا تھا۔
‘‘ہاں تو بھئی کہاں ہے وہ تمہاری گاڑی اور ڈرائیور؟’’
چلو شکر وہ تھوڑی دیر بعد ہی وارد ہوگیا تھا۔
ایک بار کی پھر گہری نظر نے مجھے اُسکے سر پر جمے بے حد گھنے کچھڑی بالوں کی طرف متوجہ کیا تھا جو حددرجہ نفاست سے سجے سنورے تھے۔
گاڑی سوزوکی ڈبہ تھا۔ویسے عمدہ حالت میں نظر آتی تھی۔ بیٹھنے کے ساتھ ہی اُس نے کہا تھا۔
‘‘میری بیوی آپ لوگوں سے ملنا چاہتی ہے۔آدھ گھنٹہ آپ لوگوں کو نکالنا ہوگا۔
بل کھاتی سڑکوں پر اگر گرجے گھر تھے تو مسجدیں بھی تھیں۔میری گاما روڈ Mirrigama Road پر مسٹرجسٹنن کا چھوٹا سا گھر گویا جنت کا ٹکڑا تھا۔گیٹ سے ہی پھول بوٹوں کی جو لام ڈوری شروع ہوئی تو سلسلہ کہیں تھمنے میں نہ آرہا تھا۔بیڈ روم چھوڑ کچن تک میں پھلواری نے بہار کا سا سماں باندھ رکھا تھا۔
جوتے تو ہم نے صاحب خانہ کی تقلید میں باہر ہی اُتار دئیے تھے۔ گھر والی مسز پریرا دُبلی پتلی چار شادی شدہ بچوں کی ماں ہی نہیں لگتی تھی۔بال اتنے گھنے اور لانبے تھے کہ چوٹی گھٹنوں کو چھوتی تھی۔سوال جواب تو بالوں کو سنبھالنے کے سلسلے میں ہی زیادہ ہوئے۔
‘‘یہ انہیں بہت پسند ہیں۔’’ٹھیٹ روایتی محبت کی ماری فضول قسم کی اداؤں کی نمائش کرتی عورتوں جیسا انداز ہی تھاجس سے شوہر کو دیکھا جارہا تھا۔پیار و محبت کے ایسے چپڑ قنایتے رنگوں سے مجھے ہمیشہ چڑ رہی ہے۔اس لئیے فی الفور موضوع بدل دیا۔
کچن جدت اور قدامت کا خوبصورت امتزاج لئیے ہوئے تھا۔ہانڈیاں ،چاول پھٹکنے کے سوپ دیواروں پر ٹنگے تھے۔چھوٹی چھوٹی مٹی کی کنالیاں بھی تھیں۔واہ کیا بات ہے ۔ایک کونے میں لٹکتے مکرامے میں رکھے بڑے سے پیالے میں پیلی سوکھی چھلیاں رکھی ہوئی تھیں۔پُوچھنے پر بتا یا تھا کہ اُبال کر کھاتے ہیں۔
تواضع انناس کے رسیلے میٹھے قتلوں سے ہوئی۔قتلے کیا تھے جیسے شہد اور خوشبو میں گوندھ کر بنائے گئے ہوں۔
‘‘واہ سبحان اللہ’’ ہر قتلے کو منہ میں رکھتے ہوئے ورد ہوتا۔آخر کار مصنوعی شرم کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کہا۔
‘‘آپ کی بیوی اِسے ناپسند کرے یا پسند۔ہم نے بقیہ قتلے چھوڑ کر نہیں جانے۔پیک کروا دیں۔’’
شوہر نے ہنستے ہوئے بیوی کو ہماری بات پہنچائی۔خدا کا شکر کہ اس نے خوش دلی سے انہیں شاپر میں ڈال کر ہمارے حوالے کر دئیے۔
جب باہر نکلے موسم ابرآلود ہورہا تھا۔‘‘ارے’’ خوشی سے کلکاری سی ماری۔
دائیں بائیں کہیں پستہ قامت سرسبز ڈھلانی پہاڑیاں،کہیں سبزے سے گندھے میدانوں کے عین درمیان سے گزرتی لشکارے مارتی سیاہ کولتار کی سڑک کچھ ایسے ہی دکھتی تھی کہ جیسے تیز دھار کی قینچی پکڑے ایک ماہر ہاتھ سرسراتے سبز ریشمی تھانوں کو عین بیچ سے کتر کتر کرتا دائیں بائیں دو ٹکڑوں میں گراتا اور بچھاتا چلاجائے۔آسمان نے بھی آناً فاناً ہی کنچیلی بدلی تھی۔ فطرت جیسے جُھک جُھک کر بادلوں کی صورت زمین کو خراج تحسین پیش کرتی ہو۔
کیلوں کے جھنڈ ،تاڑ ناریل کے بلندو بالا درختوں کے دائروں میں گھرے گھر اور کھیتوں میں کام کرتی عورتیں پرانے بچھڑ جانے والے دیس کی کہیں میٹھی،کہیں بے حد کڑوی اور دکھی یادوں میں لے گئی تھیں۔مجھے یاد آیا تھا۔پوربو پاکستان میرا پُوربو پاکستان ایسے ہی دلآویز منظروں کا حامل اور ایسی ہی خوبصورتیوں کا عکاس تھا۔
بڑے بڑے قطعات کی صورت لئیے آڑھے ترچھے کھیتوں میں دھان کی فصل کٹنے کیلئے تیار کھڑی تھی۔سونے رنگ کا ایک بہتا ہواسیلاب کتنا خوبصورت لگتا تھا۔ہرے بھرے درختوں کے جھنڈ جیسے پاسبانوں کی طرح میلوں تک پھیلتے چلے جاتے تھے۔
پھر ایک مختصر سا پڑاؤ ہوا۔ایک چھوٹا سا ہوٹل،ایک چھوٹا سا گھر روہنی شپلا دا کا جسکے آنگن میں گھر کی بوڑھی عورت دات پر ساگ کاٹتی تھی۔بہو لکمینی آنگن میں کُھدے کنویں سے پانی نکالتی تھی۔بہو کا چہرہ اس کی نمی میں بھیگی آنکھیں کچھ افسانہ سُنا رہی تھیں۔کچھ جاننے کی کُھد بد پاس لے گئی۔اشاروں کی زبان نے ظالم سماج کو پل جھپکتے میں عیاں کردیا تھا۔وہی ساس کا رونااورشوہر کی مارکٹائی ۔ساری کہانی سمجھ آگئی تھی۔بچہ نہیں تھا۔چار سال شادی کو ہوگئے تھے۔شوہر بھی لائی لگ سا تھا۔شاید ابھی کچھ اور اِس تمثیلی کہانی سے جانتی کہ ساس ساگ دھونے یا ٹوہ لینے چلی آئی تھی۔
چائے مزے کی تھی۔گھرانہ بدھ تھا۔ہمارا گائیڈ بھی پیدائشی اعتبار سے اگر بدھ تھا تو سیاسی طور پر بھی اسی دین کی عظمت اور غلبے کا حامی تھا۔یوں خاصا انسان دوست دِکھتا تھا۔
پھر ایک بڑی دلچسپ سی با ت ہوئی۔ گاڑی میں بیٹھنے کے ساتھ ہی مسٹر جسٹنن نے ریکارڈپلئیر پر ہمیں سنہالی گیت سُنانے کی پیشکش کی۔ ہنستے ہوئے میں نے کہا۔
‘‘اس کا فائدہ؟ یہ تو بھینس کے آگے بین بجانے والی بات ہوگی۔ ہم نے یہ زبان کبھی سُنی ہی نہیں۔’’
‘‘مطلب میں آپ کو سمجھاؤں گا ۔ میری خواہش ہے کہ آپ کم از کم ہمارے شاعروں کے بارے تو جانیں کہ وہ کیا کچھ لکھ رہے ہیں اور کیسا لکھ رہے ہیں؟ آواز اور موسیقی بھی بہت کچھ بتائے گی۔’’
با ت تو سولہ آنے درست تھی۔ یہ خواہش تو ہماری جانب سے ہونی چاہیے تھی۔ چلئے مسٹر جسٹنن کو ہی خیال آ گیا۔ اب بٹن دبے تو ایک مردانہ آواز گونجی۔ نامانوس سے بول۔ تاہم اتنا ضرور تھا کہ آواز خوبصورت تھی۔ جب پورا گانا سُن بیٹھے تو اب مطلب جاننے کی باری آئی۔ اور جب مطلب سمجھا تو بے اختیار داد دی اور پورے گیت کو دوبارہ سُنا۔واقعی موسیقی بھی اثر انگیز تھی۔ اب ذرا شاعری کی خیال آفرینی بھی دیکھیئے۔
کیونکہ کل کبھی میری نہیں ہوگی
اور کل ایک خواب کی طرح گزر گیا
لیکن آج میرے پاس ہے
اور تو مجھے اپنی رحمتوں سے نواز دے
کل تو کبھی کسی سے وعدہ نہیں کرتا
اور کل کے وعدے ایمان کے ساتھ رخصت ہوئے
آج میں ہوں
اور مجھ پر تمہاری خدائی روشنی چمکے
میرے خدا میں جانتا ہوں
آنے والا کل ایسا نہیں ہوگا
جیسا کہ میں سوچتا ہوں
اور کل گزر گیا ہے
لیکن آج کے لئے میں تیری پنا ہ چاہتا ہوں
بہت خوبصورت کلام بہت خوبصورت آواز اور شاعر کا نام روی ساتسومRavi Sathasivam۔
Kegauaقصبے کی خوبصورتی اور اسکی پور پو ر میں رچی بسی خوشحالی نے بڑا متاثر کیا۔یہیں ہم نے ربڑ کے جنگلات سے ربڑ بننے کے مراحل سُنے اور تھوڑے بہت دیکھے بھی۔
Pinnawala پینا والا میں ایک تو موٹی موٹی جرمن عورتوں سے تُو تُو مَیں مَیں ہوئی۔کمبختیں باتھ روموں کے سامنے یوں قطار در قطار کھڑی تھیں کہ جیسے یہ ملک اور اس کے ٹوائلٹ انکی جاگیریں ہوں۔کوئی پرتگالی ،کوئی ڈچ،کوئی انگریزہوتیں تو چلو ہم بھی کوئی خیال کرتے کہ بھئی ہٹو ، بچوان سے، انہیں راستہ دو۔ پرانے آقاؤں کے بال بچے اپنے پرانے خادموں کی زمین پر انکے رنگ ڈھنگ اور خیر خبر کیلئے آئے ہیں۔مگر یہ موٹی ہٹلر کی پُروردہ ہتھنیاں۔ایک ڈھٹائی اوپر سے بے نیازی اور لاپروائی جیسے تاثر کو نمایاں کرتی مونڈھے مارنے کی گندی عادت ۔ببر شیرنیاں کسی کو اندر جانے ہی نہیں دے رہی تھیں۔ایک باہر اُس وقت نکلتی جب دوسری اندر قدم دھر لیتی۔
میں نے بھی جی داری سے کام لیا ۔ چلو صورت تو پنجاب کی نمائندہ نہ تھی ویسے آپس کی بات ہے۔میں تو لنکن والوں کی چچیری خلیری لگتی تھی۔تاہم پنجاب کی جٹی مٹیار کی دلیری کو بٹہ نہ لگنے دیا۔ایک کا پاؤں اندر اور دوسری کا باہر دونوں کے سینے جپھیاں ڈالنے میں ابھی مصروف ہی ہوئے تھے۔جب تیسری ‘‘باگڑ بلیوں تمہاری ایسی کی تیسی ’’کا نعرہ بلند کرتی شلوار کا الاسٹک نیچے کرتے کموڈ پر بیٹھ چکی تھی۔
پینا والاPinnawala ہاتھوں کے حوالے سے خصوصی شہرت کا حامل ہے۔کہہ لیجئیے یہ ہاتھیوں کا گھر ہے۔ریاست کے دئیے ہوئے لفظوں کے مطابق بے چاروں کا یتیم خانہ ہے۔ہاتھیوں کا شو بھی یہیں دیکھا۔پانچ سو کا ٹکٹ لیا۔ پیناوالا Pinnawala
یہاں تو ان کی ایک دُنیا آباد تھی۔اگر ماہا اویا Mahaoya دریا کے پانیوں میں انکی خرمستیوں کے سلسلے تھے کہ نصف دن کے بعد اُنکا دریا کے پانیوں میں آرام شروع ہوتا ہے تو وہیں کناروں پر لگی ریلنگ کے ساتھ ساتھ کھڑے ہزاروں شائقین کا مجمع لُطف اٹھانے اور تصویر کشی میں محوتھا۔
بڑے مزے کے نظارے تھے۔ماؤں ہتھنیوں کے ساتھ ان کے بالکوں کے چونچلے اور نخرے۔فطرت نے ممتا کے کیسے کیسے رُوپ دنیا میں اُتار دئیے ہیں۔اِن معصوموں کے باپ چچا بھی بڑے ترنگ میں تھے۔سونڈوں سے ایک دوسرے پر آب پاشی کررہے تھے۔کہیں محبت و پیار کے کھیل ،سونڈیں لہراتے ہوئے ایک دوسرے پر چڑھنے اور پیار کرنے کے انداز۔واہ مولا کیسی رنگ رنگیلی دُنیا پیدا کررکھی ہے تونے۔کٹاؤ دار جھیل میں بھی ایسے ہی منظر تھے۔
ہمارے گائیڈ کی دلچسپ باتوں نے اور مزہ دیا کہ ان کے نام بھی ہیں۔لُطف کی بات جوڑوں کے نام جیسے وجایاvijaya اور نیلاکماری،انوشا اور شیرانی ۔ایک جگہ اور بڑا دلچسپ منظر تھا۔بچوں کو دودھ بوتلوں سے پلایا جارہا تھا۔ان کی مائیں بھی دراصل ورکنگ عورتیں ہیں۔سیاحوں کو لُبھانے رجھانے کی ڈیوٹی بھی نوکری ہی ہے نا۔اب بچوں کو بھوک تو لگتی ہے۔
ہاتھیوں پر سواری کا شغل بھی ہورہا تھا۔گوری عورتوں اور بچوں کو تو آخر آئی ہوئی تھی۔ ان کے قہقے اور کیمروں سے ڈھیروں ڈھیر تصویریں اِس کا اظہار تھیں۔
آخر میں ایک منظر نے دل موہ لیا۔لُطف دوبالا چھوڑ سہ بالا ہوگیا۔یہ مہاوٹ کا گیت تھا گو ہمیں مطلق سمجھ نہ آئی۔مسٹر جسٹنن نے تھوڑا سا ترجمہ کیا مگر اس کی پاٹ دار آواز نے سماں باندھ دیا تھا۔
مسٹر جسٹنن نے ایک اور دلچسپ بات بتائی کہ شام میں ناریل کے چھلکے سے اِن کے جسموں کا مساج اور ان کی لُطف اندوزی کا بھی دیکھنے سے تعلق ہے۔یوں گھوڑوں ،بیلوں والے کام اِس پانیوں کے دیس میں اِن بیچاروں کو ہی کرنے پڑتے ہیں کہ کھیتی باڑی اور ہل جوتنے کی مشقت انہی کے مقدروں میں لکھی ہوئی ہے۔
ہوٹل بہت شاندار تھا۔آرٹ کا جیسے شاہکارہو ۔ یہاں دوکانداری بھی بڑے عُروج پر تھی۔ مقامی مصنوعات اور انہیں بیچتی عورتیں جو کمال کی فنکار تھیں۔چمڑے کے کشن،جوتے،پرس سبھی چیزیں خوبصورت تھیں پر سستی ہرگز نہ تھیں۔جب ڈالر یورو سامنے ہوں تو بیچارے ٹکوں میں بھاؤ تاؤ کرنے والے کِس گنتی شمار میں؟
کیگالا میں گم ہوگئی ۔اجنبی جگہ پر سجدے دینے کی خواہش کا بھلا ہو۔پہلی پھٹکار مسجد کے حالیوں موالیوں کی جانب سے ہوئی کہ دن جمعے کا تھا اور خطبہ زور و شور سے جاری تھا۔صحن میں ٹائلوں والے خوبصورت سے حوض سے وضو کرتے ہوئے آس پاس پھرتے لوگوں کی آنکھوں سے غیر دوستانہ سے جذبات کا چھلکاؤ کچھ کچھ ماحول کے سرد روےّے کی نشان دہی کرتا تھا مگر اللہ کی محبت میں سرشاری سے زیادہ ایک اچھی پاکستانی مسلمان خاتون کا تاثر نمایاں کرنے کی لگن میں آگے ہی آگے بڑھتی گئی
افخشمگین نگاہوں نے جیسے قہر برسایا۔چہرے پر بکھرے رعونت کے رنگوں نے دُور دفع ہوجاؤ۔ہماری نماز خراب کرنے کی تمہیں جرات کیسے ہوئی؟ جیسے بھرپور تاثرات کا واضح سگنل دیا ۔دو چار ہاتھ دھکیلتے ملحقہ کمرے میں لے گئے ۔ بڑی سُبکی محسوس ہوئی ۔بنیاد پرستوں کے کٹڑ پن نے روشن خیال مسلمانی کی خودنمائی کی کوشش کی ایسی تیسی پھیر دی تھی۔
سجدے تو دئیے مگر مزے کے منہ میں روڑ آگئے تھے۔
باہر نکلی۔نہ گاڑی ،نہ جسٹنن پریرا ،نہ مہرانساء ۔ بازار خوبصورت ضرور تھا۔پھل سبزیوں کی صاف سُتھری دکانیں ۔خریداری کرتے لوگ ۔ساڑھیوں میں لپٹی چھاتے کھولے عورتیں۔میری بھاگ دوڑ تو ہوئی ۔پر اندر کہیں بے چینی یا گبھراہٹ کا ہلکا سا شائبہ بھی نہ تھا۔شکر ہے موبائل ابھی آج کی طرح زندگی کا جزو نہیں بنے تھے کہ مس کالیں بندے کا جھوٹ اور اس کے بہانے بازیوں کے پول کھول دیں۔
اگر خدا لگتی کہوں تو حقیقت یہی ہے جیسے اکیلے گھومنے پھرنے،لوگوں سے باتیں کرنے اور کچھ حالات کے اندر اُترنے کے موقع کا ملنا غنیمت لگاتھا۔
میڈیکل سٹور کی ایک دُکان میں جاگُھسی۔ایک اُدھیڑ عمر کا مرد کاؤنٹر پر اور چار نوجوان لڑکے جن میں دو گاہک کو نپٹانے اور دو الماری کی صفائی ستھرائی میں لگے ہوئے تھے۔میں نے یکدم بات چیت کاپٹارہ کھولنے کی بجائے ڈسپرین مانگی۔اب اللہ جانے اس کا جزک نام انکی میڈیسن لغت میں کیا تھا؟کاؤنٹر پر بیٹھے مرد نے حیرت سے مجھے دیکھا۔میں نے انگریزی میں سردرد کا بتایا۔اُس نے اپنی زبان میں لڑکے سے کچھ کہا۔دوائی لینے اور پیسے دینے کے بعد تعارف کروایا۔
میں نے تو ابھی کچھ تذبذب کی سی حالت میں باالفاظ دیگر کہہ لیجئیے کچھ گومگو میں ہی سوال ان کی جانب لڑھکایا تھا۔وہاں تو جیسے بندہ بارود کے دہانے پر بیٹھا ہو والی کیفیت تھی۔پل جھپکتے میں ہی بڑے خاندانوں،بڑے لیڈروں کا پُننا(پھٹکارنا) شروع ہوگیا تھا۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply