یہ تو ہرگز یاد نہیں کہ یہ لفظ پہلی دفعہ کس سِن و سال میں کان میں پڑا ، مگر یہ یقینی ہے کہ ہمارے حافظے میں یہ غیر مفہوم اور بھاری لفظ بچپن کی اس بالی عمر میں پڑا جب ابھی ہم الف بے سے بھی نا آشنا تھے۔۔یعنی جب کسی محفل نکاح میں شامل ہوئے تو چند سکہ بند الفاظ میں سے یہ بھی تھا ۔ کہہ سکتے ہیں کہ اصطلاحات کو بنا سمجھے ذہن میں محفوظ رکھنے اور سیکھنے کی ہماری پہلی درس گاہ محفل نکاح تھی ۔جہاں ہم نے قبول،نان ونفقہ ،مہر اورسکۂ رائج الوقت کا ذکر سنا۔ایک مدت تک اسے منتر سمجھتے رہے تاآں کہ ہمیں نان کا مطلب فارسی کی پہلی کتاب پڑھتے ہوئے معلوم ہوا۔نفقہ کا مفہوم کب واضح ہوا یاد نہیں البتہ گمان یہی ہے کہ فقہ کی کسی کتاب میں ابواب نکاح پڑھتے ہوئے ہوا ہوگا۔
احباب جانتے ہی ہوں گے کہ مدراس میں کتاب النکاح کی نوبت اس شیطانی عمرمیں آتی ہے جس عمر میں وہ پڑھنے سے زیادہ کرنے کی چیز ہوتی ہے اور طلباء کا دھیان نکاح کے مسائل سیکھنے سے زیادہ نکاح کے بعد کے مسائل میں الجھنے سے ہوتی۔
مگر کبھی اِس کے گھر والے تیار نہیں ،کبھی اُس کے ابا راضی نہیں ، یوں آئندہ نسل کے بہت بچے میدان خواب میں مقتول ہوتے ہیں۔۔
بات کہاں جاپڑی ۔۔ عرض کر رہا تھا سکۂ رائج الوقت محفل نکاح میں گوش گذار ہوا۔۔اور مفہوم جب ہم نے معاشیات کے مسائل کو سمجھنے کی سعی فرمائی تب واضح ہوا ۔
یعنی اگر آپ کےپاس علاء الدین خلجی کے عہد کا سکۂ موجود ہے تو وہ اگر چہ بھارت کی ایک مضبوط سابقہ حکومت کی طرف سے جاری کیا گیا حقیقی اور قیمتی سکہ ہے اس کی بازار میں قیمت بھی بہت زیادہ ہے مگر اس کے خریدار کم ہیں وہ عوام کی ضرورتوں کے لیے تبادلے کا ذریعہ بھی نہیں ہے۔اس کی جگہ میوزیم ہے۔۔یا آپ اسے اپنی ذاتی نمائش گاہ کی زینت بنائیے۔کیوں کہ اس کے رائج ہونے کا وقت ماضی میں تھا۔ ماضی کے” سکۂ رائج الوقت ” کی عصر حاضرمیں میں کوئی جگہ نہیں ۔۔
سکۂ رائج الوقت کی دوسری شرط یہ بھی ہے کہ اس کا مکان بھی وہی ہوجہاں کے لیے وہ رائج کیا گیا ہے۔۔پوری دنیا میں بہت سے سکے رائج ہیں جو اپنے اپنے مکان میں چلتے ہیں ، مکان کی تبدیلی سے وقت میں موجود ہونے کے بعد بھی سکۂ رائج الوقت نہیں رہتا۔
وہ سکۂ ابھی بھی کار آمد ہے مگر مخصوص مقامات پر۔
آپ درہم و دینار ، ریال و لیرا، پاؤنڈو روبل، فیرینک و مان، ین اور نگل ٹرم ،ڈالراور یورو کو ہر جگہ نہیں چلا سکتے ۔۔ان کے لیے زمان و مکان کی ہم آہنگی تلاش کرنی ہوگی یا وہ زر مبادلہ حاصل کرنا ہوگا جو آپ کے زمان ومکان کا سکۂ رائج الوقت ہو۔
پس اصحاب کہف کا سکہ قیمتی تھا ، ایک مدت پہلے وہی رائج الوقت تھا مگر مکان کی یکسانیت کے باوجود وہ اس وقت رائج الوقت نہ تھا جب وہ بازار میں وارد ہوئے تھے۔جب وہ سکۂ لے کر نکلے تھے تو رائج الوقت تھا۔جب پلٹ کر آئے ہیں جو احوال زمانہ بدل چکا تھا۔۔اور اسی سکے نے ان کی غمازی بھی کی تھی۔معلوم ہوا کہ جس بازار میں آپ کو پیش ہونا ہے آپ کی نقدی اس بازار کے مطابق ہونی چاہیے ۔سکہ اسی دھات کا ہوگا مگر پیش کش کا انداز بازار کے مطابق ہوگا،دھات کی کیمسٹری نہیں بدلی جائے گی مگر آکار شکل وصورت ضرور بدلی جائے گی۔وگرنہ آپ بازار میں کسی کو اپنی قیمتی دولت کا آشنا اور طلب گار نہ پائیں گے۔ دور کھڑا کوئی ماضی کا پرستار آپ کی آؤ بھگت تو کر سکتا ہے مگر آپ کے مال کا خریدار وہ بھی نہیں کہ وہ اس کے مطلب کی چیز نہیں ۔
جب آواز لگائی جاتی ہے کہ نصاب و نظام تعلیم کو تبدیل کیا جائے تو یہ ہرگز مطلوب نہیں ہوتا کہ کیمسٹری بدلی جائے حقیقت کو مبدل کردیا جائے ۔
گدھے کو نمک کی کان میں گرا کر نمک بنانے کی بات نہیں کی جاتی بس یہ عرض کیا جاتا ہے کہ پرانے وقتوں میں موٹی روٹی کا رواج تھا لوگ اسی انداز کو پسند کرتے تھے تو نانبائی اسی کا خیال رکھتا تھا ۔۔اب اسی آٹے سے وہ مختلف چیزیں بناتا ہے۔۔اٹا وہی ہے پکوان کا طریقہ اور طرز بدلا ہے۔۔
ہماری گزارش یہ ہے کہ آپ اسی دھات سے اپنے ٹکسال میں سکۂ رائج الوقت ڈھالیں ۔
نصاب و نظام کی تبدیلی بھی آپ کے اپنے ہاتھوں سے ہو۔۔
ابتدائی نظام و نصاب جو اس وقت مدرسوں میں رائج ہے وہ مسلمانوں کی بنیادی دینی ضرورت کے لیے بھی کافی نہیں ہے۔۔دنیاوی ضرورت کا کیا مذکور ہے۔۔
تو ابتدائی مرحلے کا ایک کارآمد نصاب ہونا ضروری ہے۔۔دارالعلوم ندوۃ العلماء ، جامعۃ الفاح، مدرستۃ الاصلاح کے علاوہ بہار مدرسہ بورڈ کے نصاب سامنے رکھا جاسکتا ہے۔۔یا ارباب حل وعقد ملک بھرکے ماہرینِ تعلیم سے مشاورت کریں اور اصحاب علم کی ایک نمائندہ کمیٹی کو نصاب تعلیم کی تیاری کا کام سونپیں۔۔
ابتدائی کے بعد ثانوی مرحلے کے لیے بھی نصابی ضرورتوں کے تحت کتابیں تیار کی جائیں۔۔
اب علیا مراحل کے لیے متقدمین علماء کی جو کتابیں داخل درس ہیں ان کی اس سر نو ایڈیٹنگ کی جائے۔اور اسے خوبصورت انداز میں شائع کیا جائے تاکہ پڑھنے والے پرانے طرز کی چھپائی سے جو دقت اٹھاتے ہے اس سے بچ سکیں۔
ذاتی دلچسپی سے بعض کتابیں اس طرز پر بعض لوگوں نے شائع بھی کی ہیں ۔ مگر ہماری ضرورت منظم پروجیکٹ کے تحت کام کی ہے۔

خلاصہ یہ ہے۔۔آپ اسی دھات سے نئے کھنکھناتے ہوئے رائج الوقت وقت سکے ڈھالیں۔
رائج الوقت اصحاب کہف بنیں۔۔ہمیں گوشہ نشیں اصحاب کہف کی نہیں دنیا میں پہلے ہوئے اصحاب کہف کی ضرورت ہے۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں