ریاست ماں کے دیگر بچے اور نسل کشی کے بے لذت گناہ/اعظم معراج

2023 میں ہونے والی ساتویں مردم شماری کے اعدادوشمار پبلک کردئیے گئے ہیں، جن کے مطابق پاکستان میں غیر مسلم شہریوں کی تعداد 8771380 ہے ۔جسکی تفصیل یوں ہے ۔۔

ہندو جاتی 386729مسیحی 3300788 شیڈول کاسٹ 1349487احمدی 162684سکھ 15998پارسی 2348 اور دیگر 72346 ہیں ۔ لفظ دیگر پڑھتے ہوئے شرم آتی ہے ۔اقلیتوں کے تہواروں اور 11 اگست پاکستانی اقلیتوں کے قومی دن پر ہمارے بہت سے آئینی عہدوں پر براجمان خواتین و حضرات اقلیتوں کی خیر خواہی میں جب زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں اور پھر جب یہ “دیگر” جیسے دیگر الفاظ بھی سرکاری کاغذوں میں بھی استعمال کرتے ہیں  اور اپنے ان بہن بھائیوں ،مقدس امانتوں کے خلاف پُرتشدد کارروائیاں کرنے والوں کے اعمال سے صرفِ نظر بھی کرتے ہیں ،تو دھرتی کے ان بچوں کو دکھ تو بہت ہوتا ہے۔ ریاست ماں ہوتی ہے  اور ماؤں کو تو میں نے پیدائشی معذور بچوں کو بھی غیر موجودگی میں بھی نام سے پکارتے دیکھا ہے، ہماری ریاست کی پتہ نہیں کیا مجبوری ہے کہ وہ اپنے 72 ہزار سے زیادہ بچوں کو دیگر کے نام سے اندراج کرتی ہے ،لیکن اس کے باوجود یہ بچے ،بہن بھائی، مقدس امانتیں، اور برابر کے شہری اس قول فعل کے تضادات پر ماں کی مجبوریوں، کمزوریوں اور اپنی بدنصیبی کی بدولت صرفِ نظر کرتے ہیں ۔ اوپر وزارت شماریات نے پانچ مذہبی گروہوں کے نام لکھے  ہیں ،جب کہ  الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار میں بہائی ،بدھسٹ فرقے کا بھی اندارج ہے  ۔ جب کہ  وہاں بھی کیلاشی غائب ہیں ۔۔ ممکن ہے ،پاکستان میں ان 9 مذہبی گروہوں کے علاوہ بھی کسی اور مذہب کے پیروکار بھی پاکستان میں بستے ہوں ۔ اسی طرح الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں شیڈول کاسٹ کا علیحدہ خانہ نہیں ہے ۔۔جبکہ اب 72 ہزار اپنے شہریوں کو دیگر کردینا بڑی زیادتی والی بات ہے۔

خیر 2017 کی مردم شُماری کے اعدادو  شمار کی طرح ہی یہ اعداد و شمار بھی مسیحیوں  اور شیڈول کاسٹ کے لئے انتہائی پریشان اور حیران کن ہیں۔مسیحیوں  کے ماضی کے اعداد و شمار بتاتے ہیں  کہ مسیحیوں کی تعداد 1951,1961,1972،1981کی مردم شماریوں کے مطابق بالترتیب 432705,,583884,,907861,,1310426 تھی۔یہ تعداد/آبادی ہر دس سال بعد اوسطاً 45فیصد بڑھتی رہی ۔اگر ماضی کی حکومتیں اپنے دیگر ضروری کاموں میں الجھ کر ہر دس سال بعد تسلسل سے مردم شُماری کرواتی رہتیں ،تو مسیحی آبادی اسی تناسب سے بڑھتی ۔۔تو تب 1991میں مسیحی آبادی 1900117 ہوتی ۔اگلے دس سال بعد 2001میں یہ تعداد 2755170ہو جاتی ۔2011میں یہ تعداد 3994997 ہو جاتی ۔2021 میں یہ تعداد 5792746 ہوتی ۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پہلی پانچ مردم شماریوں میں دو دفعہ مسیحی آبادی ہندوؤں کی مجموعی آبادی سے اوسطاً 21 ہزار زیادہ تھی۔ جب کہ تین دفعہ ہندو آبادی مسیحیوں سے اوسطاً 2 لاکھ سے زیادہ تھی, لیکن پانچویں مردم شماری 17 سال بعد ہونے اور پھر چھٹی مردم شُماری 19سال بعد ہونے سے کچھ مصوم لوگوں کو یہ موقع ملا ،کہ وہ اقلیتوں کی اس آبادی خصوصاً شیڈول کاسٹ، مسیحیوں اور ہندو جاتی میں خوفناک ردوبدل کرکے اپنی مرضی کے اعداد و شمار جاری کریں ۔

یہ بھی ایک تاریخی سچ ہے  کہ 2017میں چھٹی مردم شُماری کے وقت ن لیگ کی حکمرانی تھی، وزیر شماریات ایک مسیحی ن لیگی تھا ۔۔شماریات کی اسٹینڈنگ کمیٹی کا چیئر مین ہند و  ن لیگی تھا۔تب مسیحیوں  کی سب سے بڑی کاغذی نسل کشی کی گئی ۔اس کاغذی نسل کشی کے اثرات اب حالیہ ساتویں مردم شماری میں بھی نظر آرہے ہیں  ۔

2017 میں ہندو مسیحیوں سے 18 لاکھ زیادہ کئے گئے تھے۔ اور اب 2023 کی مردم شُماری میں مسیحیوں  سے 19لاکھ زیادہ ہیں ۔ حالیہ مردم شُماری 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق ہندو جاتی اور شیڈول کاسٹ ملا کر ہندوؤں کی مجموعی تعداد 5217216 ہے۔مسیحیوں کی تعداد 3300788 ہے  ۔یہ بات طے ہے کہ 1998 اور 2017 کے درمیان نہ تو مسیحیوں کی کوئی بڑی اجتماعی ہجرت ہوئی ہے ۔ نہ ہی خدا نخواستہ صرف مسیحیوں  کے لئے کوئی وبا پھیلی ہے  ،یا اجتماعی قتل وغارت ہوئی ہے ۔۔ بس یہ ہے کہ مسیحی سیاسی، سماجی اور خصوصاً مذہبی ورکروں/راہنماؤ ں کا ایسی فضول چیزوں کی طرف دھیان ذرا کم ہے ۔۔گو کہ وہ چاہیں  ،تو اس اجتماعی کاغذی نسل کشی کو چند دنوں میں پُپر امن طریقے سے صرفِ پریس کانفرنسوں میں آواز اٹھا کر درستی کروا سکتے ہیں ۔ اس سے چندہ، فنڈنگ اور خود نمائی بھی بڑی ہوگی، اس وقت اسمبلیوں میں بیٹھے چھ ایم پی ایز ،دو ایم این ایز ،اور ایک سینٹر چرچ آف پاکستان کے اور کاتھولک بشپ چند این جی اوز کے بیس تیس لوگ اکھٹے بیٹھ جاؤ۔یہ درستی ن لیگ اور اتحادیوں کی حکومت کر لے گی ۔ریاستی ،حکومتی اور دانشور اشرفیہ سے بھی گزارش ہے کہ مجموعی ہندو  تعداد کو کاغذوں میں زیادہ دکھانے سے اگر کچھ فائدہ ملک قوم کا ہوتا ہے  تو جتنا مرضی بڑھا لو لیکِن خدرار ا  ہمیں تو کم نہ کریں ۔۔ یہ بے لذت گناہ نہ کریں  ۔

اس سے حکومت و ریاست کمزور ہوتے ہیں جس نے بھی آپ کو یہ پٹی پڑھائی ہے وہ آپ کا دوست نہیں دشمن ہے  ۔ہم ہزاروں سال سے ادھر ہیں اور ادھر ہی رہیں  گے  ۔ کیونکہ اجتماعی ہجرت کا نہ موقع نہ ان خاک نشینوں کے پاس وسائل ۔اسکے علاوہ یہ دھرتی واسی اس متنوع تہذیب کے حامل معاشرے کا حسن ہیں۔ خدارا انھیں یوں دل برداشتہ نہ کرو ۔یہ بقول ڈاکٹر حسن منظر اس معاشرے کا نمک ہیں ۔

ایک دفعہ پھر ہلکی سی یاد دہانی ۔۔اس ملک کی اشرفیہ کے لئے!

julia rana solicitors

شفافیت شہری اور ریاست کے رشتے کو مضبوط کرتی ہے اور ابہام وشکوک اس رشتے کو کمزور کرکے ریاست کو بھی کمزور کرتے ہیں ۔ ان تقریباًنو دس مذہبی اقلیتوں کے اعدادوشمار بالکل شفاف پبلک کردیں یقین مانیں  ریاست، حکومت ملک وقوم کو بہت نیک نامی ملے گی ۔۔اہل علم سے گزارش ہے ، ان اعدادوشمار کے حساب کتاب میں کچھ غلطی ہو تو نشان دہی ضرور کریں  ۔

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply