بیتی ہوئی یادیں ڈائری کی زبانی/عاصمہ حسن

زندگی خوبصورت رنگوں کے تانے بانے سے بنی ہوئی ہے ـ اتار’ چڑھاؤ’ مشکلیں’ پریشانیاں’ آسانیاں ‘ خوشیاں اور غم سب اس میں رنگ بھرتے ہیں ـ یہ نہ ہوں تو زندگی بے رنگ ہو جائے یا یکسانیات کا شکار ہو جائے ـ قدرت نے تمام ذائقوں کی آمیزش سے اس کو تخلیق کیا ہے ـ وقت گزرتا رہتا ہے اور اس بہتے ریلے میں ہم بہت سارے لوگوں سے ملتے ہیں ‘ نئے رشتے بناتے ہیں ‘پھر اس سفر میں کچھ رشتے کھو بھی جاتے ہیں ‘ کچھ بچھڑ جاتے ہیں’ وہیں ہمارے بہت ہی اپنے اور پیارے ہمیں چھوڑ کر ابدی نیند سو جاتے ہیں ـ
جب وقت گزر رہا ہوتا ہے یا ہم اسے جی رہے ہوتے ہیں تب احساس نہیں ہوتا لیکن جب وقت پَر لگا کر اُڑ جاتا ہے ـ بچپن’ جوانی اور پھر بڑھاپا آ جاتا ہے ـ اپنی زندگی کے قیمتی سال گزارنے کے بعد جب پیچھے مُڑ کر دیکھتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ وہ کتنے خوبصورت لمحات تھے ‘ وہ گھر ‘ وہ درودیوار’ وہ دن’ وہ پل ‘وہ بچپن کتنا حسین تھا جب ماں ‘ باپ کا سایہ سر پر تھا ‘ بہن بھائی ایک چھت کے نیچے ساتھ رہتے تھے ‘ لڑتے’ جھگڑتے تھے لیکن رشتوں میں پیار اور خلوص تھا’ کسی دوسرے کے منہ سے ایک دوسرے کے لیے کوئی غلط بات برداشت نہیں کر سکتے تھے ـ ہر طرف راوی سکون ہی سکون لکھتا تھا ـ کوئی گرم ہوا چھو کر نہ گزرتی تھی کیونکہ باپ کا سایہ سر پر تھا کوئی دن یا رات ایسی نہ ہوتی جب ماں کا مسکراتا خوبصورت چہرہ دیکھنے کو نہ ملتا ‘ کچھ بھی ہوتا تو اس کی بانہیں اپنے حصار میں لے لیتیں پھر دنیا کا ہر غم جیسے غائب ہو جاتا ـ ماں اپنے آنچل سے تمام موتی پونچھ لیتی تھی ـ
وقت کی اِس اُڑان میں بہت کچھ بدل جاتا ہے وہ گھنا سایہ چھِن جاتا ہے ‘ بہن بھائی سب بکھر جاتے ہیں کوئی روزگار کے سلسلے میں اور کوئی شادی کر کے پردیس چلا جاتا ہے ـ بس پھر اُن بیتے لمحوں کی یادیں اور خوشبو رہ جاتی ہے جو ہر دم ساتھ نبھاتی ہے ـ
ایسے میں پرانی تصویریں ہماری دوست بن جاتی ہیں جن کو دیکھ کر گزرا وقت’ رشتے’ بیتے پل پھر سے زندہ ہو جاتے ہیں اور یادیں ہمیں گھیر لیتی ہیں ـ ہر تصویر میں چھپی کئی کہانیاں ہوتی ہیں جن کو دیکھ کر بے اختیار مسکراہٹ لبوں پر بکھر جاتی ہے ـ میرے بچپن میں رول والا کیمرہ ہوتا تھا جس میں ایک فلم ڈلتی تھی جب اس کی تصاویر پوری ہو جاتیں تب اسے فوٹوگرافر کو دیتے تھے جو ہمیں ایک دو دن کا وقت دیتا اور پھر واش کر کے نیگیٹو کے ساتھ تصاویر دے دیتا ـ جب تک تصاویر ہاتھ میں نہ آ جاتیں ہمیں معلوم ہی نہ ہوتا کہ کیسی بنی ہیں کئی بار تو کافی لمبا انتظار کرنا پڑتا تھا کہ کب اس فلم کی تعداد پوری ہو اوراسے واش کرنے دیں اور اتنے انتظار کے بعد جب تصویر خراب آتی یا اچھی نہ آتی تو بہت افسوس ہوتا ـ اگر آج کی بات کریں تو ٹیکنالوجی اس قدر ترقی کر گئی ہے کہ ہر ایک کے پاس موبائل ہے’ جس سے جب چاہا جتنی چاہی تصاویر بنا لیں اور فوراً دیکھ لیا’ اگر اچھی نہیں لگی تو دوبارہ بنا لی اور بآسانی ڈیلیٹ کر دی۔ لیکن اس ڈیجیٹل دور کا ایک یہ نقصان ہوا کہ تصویریں ہارڈ فارم میں کم ہی ڈویلیپ ہوتی ہیں سافٹ فارم میں ان کو دیکھنے کا ہم جیسے اولڈ اسکول آف تھاٹ کے لوگوں کو مزہ نہیں دیتا ـ
بچپن کے دن ہوتے ہی بہت پیارے ہیں ـ اس دور کی چھوٹی چھوٹی شرارتیں ‘ باتیں ‘ سب اردگرد گھومتی اور رقص کرتی نظر آتی ہیں ـ تصاویر میں جو بچھڑ جاتے ہیں ان کو دیکھ کر دل اداس ہو جاتا ہے خاص طور پر والدین’ جن کو گلے لگانے کو بے اختیار دل مچلنے لگتا ہے ـ ہائے کاش وہ بیتا وقت واپس آ جائے جہاں گھر کے ہر کونے سے ماں اور باپ کی آوازیں سنائی دیں ‘ امی امی کی گردان ہو’ ہم ان کو اور ان کے لمس کو محسوس کر سکیں ـ
پرانی تصویروں کی طرح پرانی ڈائریاں جن میں گزرا ہر پل چھپا ہوتا ہے ‘ یہ کتنی پیاری اور عزیر ہوتی ہیں ـ نیلی’ کالی’ سبز اور میرون ڈائریاں جن میں کہانیاں ہوتی ہیں ‘ جزبات پروئے ہوئے ملتے ہیں ‘ احساسات اُترے ہوئے ہوتے ہیں ‘ کہیں آنسوؤں کے قطروں سے لفظ مٹ جاتے ہیں ‘کہیں وقت کی دھول کی وجہ سے تحریر مدہم پڑ جاتی ہے لیکن وہ صفحات ہمیں پھر سے ان لمحات میں لے جاتے ہیں جو ہمارے دل کے بہت قریب ہوتے ہیں ـ
مجھے بچپن سے ہی پڑھنے اور لکھنے کا شوق تھا کبھی کچھ پڑھتے ہوئے شعر پسند آگیا تو اسے لکھ لیا ‘ کبھی کوئی بات’ کہاوت ‘ کوئی لطیفہ لکھ لیتی تاکہ دوبارہ پڑھا جا سکے یا کہیں استعمال کیا جا سکے حتٰی کہ اپنی تقاریر بھی لکھتی تھی جو میں اپنے اسکول اور پھر کالج میں 14 اگست کے موقع پر اور مختلف مقابلوں میں کرتی تھی ـ ایک ڈائری الگ ہوتی تھی جس میں ‘ میں اپنے احساسات و جزبات لکھتی تھی ‘ کچھ ہو جاتا’ کوئی کچھ کہہ دیتا’ کوئی بات بری لگتی’ اپنے گولز ‘ کچھ کہی اَن کہی باتیں ‘ خواہشیں یا پھر خواب لکھا کرتی تھی وہ باتیں جو میں کسی سے نہیں کہہ سکتی تھی وہ سب اس ڈائری سے کہہ دیتی کیونکہ وہ میری دوست و رازداں تھی ـ
ڈائری لکھنے کی عادت مجھے امی سے ملی وہ ہر عام و خاص بات’ مواقع’ اہم تاریخیں وغیرہ’ تہوار’ کرنے کے کام تاکہ یاد رہیں اپنی ڈائری میں لکھا کرتی تھیں حتٰی کہ اخراجات وغیرہ لین دین کی بھی لسٹ ہوتی تھی ـ ان کو نعتیں پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا تو ان کی ڈائری خوبصورت نعتوں اور کلام سے بھری ہوتی ـ امی گھر پر منعقدہ میلاد کی محفلوں میں پڑھتی بھی تھیں ان کی آواز پر سوز تھی انتہائی خوب صورت جو دل میں اتر جائے ـ نا جانے ان کی لکھنے کی عادت کب اور کیسے مجھ میں آگئی اور پھر میری دونوں بیٹیوں میں بھی منتقل ہو گئی ـ اس کا احساس مجھے اس وقت ہوا جب چھوٹی بیٹی کو لکھنا آ گیا اور شومائی قسمت اسے معمولی سی ڈانٹ پڑی (بات اب یاد نہیں لیکن اس نے مائنڈ زیادہ کر لیا تھا) تو وہ فوراً اُٹھی اور اپنے کمرے میں چلی گئی ـ جب میں اس کو منانے کے لیے گئی تو دیکھا وہ ایک کونے میں بیٹھی ڈائری پر اپنے احساسات لکھ رہی تھی ـ یعنی پتہ ہی نہ چلا کب ڈائری اس کی دوست بن گئی ـ پھر ایک دن دونوں بہنوں میں لڑائی ہو رہی تھی جب میں نے معاملہ سلجھانے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ چھوٹی بہن نے بڑی بہن کی ڈائری اس کی الماری سے اٹھا لی ہے اور وہ اس کے سیکرٹس (راز کی باتیں ) نہ صرف باآواز بلند پڑھ رہی ہے بلکہ ہنس بھی رہی ہے جس سے بڑی بہن مزید چڑ رہی ہے (روسٹ ہو رہی ہے) ـ میرا ہنس ہنس کر برا حال تھا کیونکہ دونوں کے ڈائیلاگ ہی ایسے تھے کہ ڈائری بہت پرسنل ہوتی ہے ‘ اس کو ہاتھ نہیں لگانا چاہئیے’ نہ ہی پڑھنا اچھی بات ہے ـ ان کی تکرار سن کر میں ماضی میں چلی گئی ـ میری بھی اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ اسی طرح لڑائی ہوتی تھی کہ میری ڈائری کو ہاتھ کیوں لگایا ‘ امی کو کیوں بتایا ـ وقت اپنے آپ کو کیسے دہراتا ہے ہم سوچ بھی نہیں سکتے ـ
اگر اتفاق سے کوئی گم شدہ یا کھوئی ہوئی ڈائری مل جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی خزانہ مل گیا ہو ـ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا کہ ایک پرانی ڈائری مل گئی پھر میں نے اپنے بچوں کو بڑے فخر سے دکھائی کہ دیکھو میں ایسے لکھا کرتی تھی ـ بڑی بیٹی کے ہاتھ میری ایک ڈائری لگ گئی جس پر میں کھانا پکانے کی تراکیب لکھا کرتی تھی اس زمانے میں یوٹیوب نہیں ہوتا تھا تو مارنگ شو میری ساس دیکھا کرتی تھیں تب کوئی کوکنگ پروگرام لگ جاتا تو میں تراکیب نوٹ کر لیتی یا کسی رسالے’ میگزین میں پڑھتی تو لکھ لیتی اور پھر پکانے کی کوشش کرتی تھی اسی طرح کھانا پکانا سیکھا ـ پھر شادی سے پہلے ایک کوکنگ کورس بھی کیا تھا اس کی تراکیب کی ڈائری بھی بچوں کے ہاتھ لگ گئی ـ اپنی پرانی یادوں کو پھر سے جینے کا مزہ ہی الگ ہے ـ ہر صفحہ ایک الگ کہانی ہوتا ہے ‘ کئی لفظ مٹ جاتے ہیں ‘ سیاہی ماند پڑ جاتی ہے ‘ ڈائری کے اندر پڑے گلاب کے پھول مرجھا جاتے ہیں لیکن ان کی خوشبو ‘ مہک ان صفحات میں رچ بس جاتی ہے اور پھر کھینچ کر ہمیں انھی وادیوں میں لے جاتی ہے ـ سچ کہتے ہیں کہ یہ گم شدہ ڈائریاں بھی کتنی پیاری ہوتی ہیں کتنی یادیں’ کہانیاں اور کردار اپنے اندر سمائے ہوتی ہیں ـ اگر ان کی کتابی شکل میں اشاعت ہو تو بیسٹ بک سیلر کا ایوارڈ ان پرسنل ڈائریوں کو ہی جائے ـ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply