دو دہائیاں پہلے محترم فدا عدیل نے ایک مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا “سڑکوں پر پڑی جمہوریت”۔ اس وقت بھی یہ مضمون پشاور کی سڑکوں پر پھیلی غیر منظم اور غیر قانونی سرگرمیوں پر گہری تنقید تھا، اور آج بیس سال بعد بھی وہی صورت حال برقرار ہے۔ پشاور کی سڑکوں پر وہی جمہوریت آج بھی ویسے ہی موجود ہے، بلکہ اس میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حکومتیں بدلتی رہیں، نئے قوانین اور ضابطے متعارف ہوتے رہے، لیکن سڑکوں پر پڑی اس جمہوریت کو ختم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کبھی نہیں کی گئی۔
یہ جمہوریت، جو کہ ایک استعارہ ہے پہلے محدود علاقوں میں نظر آتی تھی، جیسے یونیورسٹی روڈ، بورڈ بازار، حیات آباد، فردوس، ہشت نگری، کارخانوں مارکیٹ، حاجی کیمپ اور کوہاٹ آڈہ۔ ۔لیکن اب یہ ہر بی آر ٹی اسٹیشن پر موجود ہے اور حکومت کا منہ چڑاتی ہے۔ یہ جمہوریت ہر حکومت کے چہرے پر ایک طمانچہ ہے، جو کہ اس کی ناکامی اور بے حسی کی علامت ہے۔
حکومتوں کا ردعمل ہمیشہ ایک جیسا رہا ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے نئے افسران جب اپنی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں، تو ان کا پہلا حکم اکثر ان کے خلاف کریک ڈاؤن کا ہوتا ہے۔ یہ کارروائیاں محض دکھاوے کے لیے کی جاتی ہیں تاکہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر دبنگ آفیسر کی واہ واہ ہو سکے۔ لیکن جب یہ ابتدائی دھاک بیٹھ جاتی ہے، تو دفتر میں چائے یا کافی پی جاتی ہے، اور ان جمہوری عناصر کو دوبارہ ان کی جگہ پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کچھ وقت کے بعد، وہی جمہوریت پھر سے سڑکوں پر آ جاتی ہے اور کہانی وہیں سے دوبارہ شروع ہو جاتی ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان سڑکوں پر پڑی جمہوریت نے نا صرف پشاور کی سڑکوں کو بدصورتی بخشی ہے بلکہ عوام کی زندگیوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ حکومت کی جانب سے اس مسئلے کے حل کے لیے کیے جانے والے اقدامات محض عارضی ہوتے ہیں، اور ان کا کوئی مستقل حل سامنے نہیں آ سکا ہے۔
حکومت اور ضلعی انتظامیہ کی بے حسی اس بات کا مظہر ہے کہ ہم نے جمہوریت کے اصل مقصد کو بھلا دیا ہے۔ جب جمہوریت سڑکوں پر پڑی ہوئی ہو، تو نا صرف عوام، بلکہ حکومت بھی اس کے نقصانات کا سامنا کرتی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اس مسئلے کا مستقل اور سنجیدہ حل نکالا جائے تاکہ ہم ایک منظم اور ترقی یافتہ معاشرت کی طرف بڑھ سکیں۔ جب تک اس جمہوریت کا خاتمہ نہیں ہوتا عوام کی زندگیوں میں بہتری کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں