• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • لبرل بورژوازی و پیٹی بورژوازی سے میری نفرت کے اسباب/عامر حسینی

لبرل بورژوازی و پیٹی بورژوازی سے میری نفرت کے اسباب/عامر حسینی

ہم میں سے ہر کوئی اپنے تشکیلی دور Formative period میں کسی نا   کسی ایسی کتاب سے دوچار ہوتا ہے جو اسے بدل ڈالتی ہے اور اکثر و بیشتر ساری زندگی پر اس کے اثرات باقی رہتے ہیں – میں جب اپنے ابتدائی فکری تشکیلی دور پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ یہ کمیونسٹ مینی فیسٹو تھا جس نے مجھے بدل کر رکھ دیا تھا اور پھر میکسم گورکی کا ناول “ماں” تھا جس نے مجھے انقلاب سے رومان میں مبتلا کیا- میں کوئی دور ایسا نہیں پاتا جب میں نے مینی فیسٹو کی طرف رجوع نہ کیا ہو یا میں نے “ماں” ناول کی ورق گردانی نہ کی ہو –
مجھے یہ بھی اعتراف کرنا ہے کہ میں جیسے جیسے سماجی تبدیلی کو حرز جاں بناتا گیا ، ویسے ویسے مجھے بورژوازی /سرمایہ دار اور پیٹی بورژوازی/ درمیانے طبقے کے لبرل ازم سے شدید نفرت ہوتی چلی گئی – بعض اوقات اپنے اس انتہائی منفی اور نفرت انگیز احساس اور جذبے سے میں پریشان بھی ہوجایا کرتا تھا اور میں یہ جانچ کرنے لگتا کہ کہیں میری یہ نفرت ان دو طبقوں میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے تو نہیں حالانکہ میں خود ایک درمیانے طبقے کے تاجر خاندان سے تعلق رکھتا تھا- لیکن مجھے اس احساس سے اس وقت نجات مل گئی جب میں نے ولادیمیر الیچ اُلیانوف/لینن کی جیون ساتھی نادےژدا کاروپسکایا کی ان کے بارے میں لکھی یادداشتوں کا مطالعہ کیا جس میں انھوں نے ولادیمیر الیچ اُلیانوف سے اپنی پہلی ملاقات کا تفصیلی ذکر کیا جو سینٹ پیترس برگ میں بالشویک پارٹی کے ایک اجلاس کے دوران ہوئی تھی – اس اجلاس کے بعد دونوں دریائے وولگا کے کنارے ٹہل رہے تھے جہاں لینن نے تفصیل سے بتایا تھا کہ وہ کیوں لبرل بورژوازی و پیٹی بورژوازی سے نفرت کرتا ہے جنھوں نے اس کے بھائی کے پکڑے جانے اور پھر پھانسی لگ جانے پر ان سے قطع تعلق کرلیا تھا اور وہ دن اس کی ماں پر کتنے بھاری تھے –
نادےژدا کاروپسکایا لکھتی ہے کہ ولادیمیر الیچ اُلیانوف کی بورژوازی لبرل ازم سے نفرت کو ٹھوس علمی بنیادیں فراہم کرنے میں نرودوازم کے بانی کہلانے والے انقلابی ادیب اور کرانتی کاری نکولائی چرنیشکوسکی کے ناول “کیا کیا جائے؟
What is to be done
کا بڑا کردار تھا – نادےژدا کاروپسکایا کو ولادیمیر الیچ اُلیانوف نے بتایا تھا کہ اس ناول نے اسے مکمل بدل کر رکھ دیا اور یہ وہ کتاب تھی جس نے اسے لبرل ازم کے بارے میں غیر لچک دار بنایا اور اسے کبھی لبرل ازم پر اعتماد نہیں ہوا – وہ ساری زندگی اس کا شدید رد کرتا رہا – نکولائی چرنیشکوسکی وہ واحد کرانتی کاری ہے جس کا ذکر لینن کے 30 جلدوں پر مشتمل مجموعہ تصانیف میں 300 بار ذکر آتا ہے اور دونوں میں جو مشترکہ وصف تھا وہ لبرل ازم کی طرف دونوں کا سخت جارحانہ رویہ تھا – یہ اتفاق نہیں تھا کہ لینن نے 1902ء میں اپنی شاندار کتاب کا نام بھی ” کیا کیا جائے ” رکھا تھا – اور یہ وہ کتاب ہے جس کو سنٹرل جیل لاہور کی کال کوٹھڑی میں بند بھگت سنگھ نے جب پڑھا تو وہ قوم پرست ہندوستانی سے انقلابی مارکس وادی بن گیا تھا اور پھانسی سے ایک رات قبل اس نے جو آخری کتاب پڑھی تھی وہ لینن کی “ریاست اور انقلاب ” تھی جس پر اس کے لکھے نوٹس اس کی ہندوستانی بورژوازی سے شدید نفرت کو ظاہر کرتی ہے جن میں وہ ہندوستان کی حقیقی آزادی کے لیے واحد حل بالشویک انقلاب کو قرار دیتا ہے –
میں نے اب تک کہ اپنے سیاسی شعور کی پرداخت کے دوران لبرل بورژوازی اور پیٹی بورژوازی سیاست کی ننگی بے شرم منافقت کے جتنے مظاہرے دیکھے ہیں اس سے میری ان سے نفرت میں اور اضافہ ہوا ہے – یہ بزدل طبقات بار بار جس طرح سے بورژوازی جمہوری اقدار تک کو آمریت ، مذھبی رجعت پرستی کے سامنے قربان کرتے آئے ہیں اس کے لیے ان کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے – محنت کش طبقات اور مظلوم و مجبور و محکوم اقوام سے غداری سے تو کبھی باز ہی نہیں آتے –

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply