• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • فیض حمید کیخلاف اوپن کورٹ میں ٹرائل کریں: عمران خان کا آرمی چیف سے مطالبہ

فیض حمید کیخلاف اوپن کورٹ میں ٹرائل کریں: عمران خان کا آرمی چیف سے مطالبہ

سابق وزیر اعظم عمران خان نے 190 ملین پاونڈ کے مقدمے کی سماعت کے بعد اڈیالہ جیل میں قائم احتساب عدالت میں موجود میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے مطالبہ کیا ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف ٹرائل اوپن کورٹ میں ہونا چاہیے۔

انھوں نے اپنی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو سب سے بڑی جماعت قرار دیتے ہوئے کہا کہ کیونکہ یہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ پر الزام کا معاملہ ہے اس لیے اس معاملے کو اوپن کورٹ میں چلایا جائے اور میڈیا کے نمائندوں کو بھی آنے کی اجازت دی جائے تاکہ پوری دنیا کو معلوم ہو کہ ہو کیا رہا ہے۔

بانی پی ٹی آئی عمران خان کا کہنا تھا کہ ’میرا جنرل فیض حمید سے تب تک ہی رابطہ تھا جب تک ڈی جی آئی ایس آئی تھے اس کے بعد سے ان سے میرا کوئی رابطہ نہیں ہے۔‘

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ’پاکستان میں جب کوئی ریٹائرڈ ہو جاتا ہے تو وہ ہیرو سے زیرو ہو جاتا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ان کے پاس اختیارات نہیں ہوتے، جس کے پاس اختیارات نہیں میں اس سے کیسے رابطہ رکھوں گا۔‘

کمرہ عدالت میں موجود صحافی رضوان قاضی کے مطابق سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’اس طرح اوپن عدالتی کارروائی سے بڑی بڑی باتیں سامنے آئیں گی نئی نئی چیزیں پتہ لگیں گی کیا ہوا ہے اور کیا ہو رہا ہے۔‘

بانی پی ٹی آئی نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران مزید کہا کہ ’گزشتہ برس مارچ میں اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس میں جس نے میری گرفتاری اور گھسیٹنے کے احکامات دیے وہی 9 مئی کا ذمہ دار ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ نو مئی نیشنل سکیورٹی کا مسئلہ نہیں بلکہ لوکل معاملہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ملک میں کیسی جمہوریت ہے جہاں پر ایک سابق وزیر اعظم کا مقدمہ ملٹری کورٹ میں چلایا جارہا ہے۔‘

عمران خان کا کہنا تھا کہ ’اڈیالہ جیل کے ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ کو اٹھایا لیا گیا اور ان کی اہلیہ اپنے خاوند کی بازیابی کے لیے عدالتوں کے چکر لگا رہی ہے۔‘

سابق وزیر اعظم نے دعوی کیا کہ ’مجھے پتہ ہے میری گرفتاری کا آرڈر کس نے دیا۔‘

سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں اڈیالہ جیل کے اہلکار کے مطابق صحافی نے سابق وزیر اعظم سے سوال کیا کہ آپ کی گرفتاری کا آرڈر کس نے دیا؟ جس کا عمران خان نے جواب دیا کہ ’گرفتاری کا حکم نمبر ون نے دیا ہے کون نمبر ون وہی جو بادشاہ ہے جو سپر کنگ ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’190 ملین پاؤنڈ کا معاملہ منی لانڈرنگ کا نہیں ہے۔‘ عمران خان نے کہا کہ ’برطانیہ میں حسن نواز کی پراپرٹی کی مالیت 9 ارب تھی بزنس ٹائیکون نے نو ارب روپے کی بجائے 18 ارب روپے میں خریدی جس پر برطانوی ایجنسی این سی اے تحقیقات کی تھی۔‘

کمرہ عدالت میں موجود ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ کی کے پی کی حکومت میں کرپشن کی بات چیت ہوئی آپ نے تحقیقات کا حکم دیا اب لوکل گورنمنٹ کے نمائندے آپ سے ملنے آئے ہیں کے پی کے کا وزیراعلیٰ ان سے نہیں ملتا ان کے پاس فنڈ اور اختیارات نہیں؟ جس پر عمران خان کا کہنا تھا کہ ’مجھے کسی سے ملنے نہیں دیا جاتا تو میں کیسے اس معاملے کو دیکھ سکتا ہوں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’مجھ سے تو علی آمین گنڈاپور کو بھی ملنے نہیں دیا جاتا ہفتے میں صرف چھ سیاست دانوں کو مجھے ملنے کی اجازت ہے میرے وکلا اندر آنے کے لیے گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں۔‘

دوسری جانب 190 ملین پاونڈ مقدمے کی سماعت 23 اگست تک ملتوی کردی گئی۔

julia rana solicitors

اس مقدمے کی سماعت عمران خان اور بشریٰ بی بی کے وکلاء کی عدم دستیابی کے باعث ملتوی کی گئی اور نیب کے تفتیشی آفسر میاں عمر ندیم پر آج بھی جرح نہ ہوسکی۔

 

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply