ماں جی اور ابا جی پانچ دن ہمارے پاس رہے اور وہ پانچ دن ہماری تمام عمر کے یادگار ترین دن تھے۔ ایک دوپہر کو جب دھوپ بہت روپہلی اور شیرگرم سی تھی تو ابا جی ہماری کمر پر دوستانہ سا تھاپڑا مار کر بولے : ”یارا اپنے سگریٹ لے کر چھت پہ آ ، دُھپ تاپیں ذرا۔“ ہم نے کرسیاں اٹھائیں ، سگریٹ کی ڈبی اور ماچس سنبھالی اور چھت پہ جا پہنچے۔
ابا جی نشست نشیں ہو چکے تو ہم نے ایک سگریٹ انھیں دی ، دیا سلائی سے سلگوا کر دوسری اپنے لیے سلگائی اور دونوں باپ بیٹے نے دے کش پہ کش لگانے شروع کر دیے۔ کہنے لگے : ”زندگی کے کھیل میں کبھی کبھار کریز سے باہر نکل کر بھی کھیلنا پڑ جاتا ہے، اور تم اچھا کھیلے ہو۔ اس بچی کی قدر کرنا۔ یہ کبھی تمھیں دغا نہیں دے گی۔ دکھ سکھ میں کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گی۔ اس کی مستقل مزاجی اور استقلال پسندی نے مجھے تمہاری طرف سے بے فکر کر دیا ۔ اب تمھیں دو محاذوں پر بہ یک وقت لڑنا ہو گا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہر تعلق اور چیز اپنے معمول پر آ جاتی ہے۔ طغیانی اور طوفان کبھی دائم نہیں رہتے ، نارمل ہو جاتے ہیں۔ اچھا انسان وہی ہے جو اعتدال میں رہے ، خود احتسابی کرتا رہے۔ اپنی چادر سے باہر پاؤں نہ نکالے۔ تمناؤں اور ضرورتوں کو بے لگام نہ ہونے دے۔ میسر کی قدر کرے اور جو دسترس سے باہر ہے اس کی حسرت کو دل کا پتہ نہ بتاۓ۔ سن رہے ہو نا؟“ ہم نے فلٹر سے انگلیوں تک پہنچتی تپش کے خیال سے سگریٹ پھینکتے ہوۓ کہا : ”جی ابا جی ، سب کچھ دل پر کندہ ہوتا جا رہا ہے۔“
بات جاری رکھتے ہوۓ بولے : ”بیوی بھی کسی کے دل کا ٹکڑا اور آنکھ کا نور ہوتی ہے ، اسے رعایت دو ، ہزار بار غلطی کرے تو ایک ہزار ایک بار درگزر کرو۔ عورت ازل کی مہاجر ہے۔ ایک گھر اور کئی رشتوں کو ایک اور گھر اور کئی رشتوں کے لیے چھوڑتی ہے۔ اس کی ہجرت پھر بھی قبر تک ختم نہیں ہوتی۔ اسے اعتبار دو ، تکریم دو ۔۔۔ تو ساری عمر گھٹنوں سے لگ کے بیٹھے رہی گی۔ کبھی برا پکا کر دے تو بھی دل نہ توڑو ، نکتہ چینی اور تنقیص سے دل شکستہ ہو جاتا ہے۔ بہت اچھا پکا دے تو من بھاؤنا تحفہ دیدو۔ تمہاری ماں اور میرے ساتھ کو نصف صدی سے کچھ سال اوپر ہو چکے ، کبھی ہمارے گھر سے آواز ، گلی تو کیا پڑوس کی اکہری دیوار کے بھی پار نہیں پہنچی۔ سمجھ رہے ہو نا؟“
ہم نے دیکھا کہ ان کی سگریٹ ختم ہونے کو ہے تو ایک اور انھیں تھما دی جسے انھوں نے Chain کیا۔ ہم نے کہا : ”عالی مرتبت والد صاحب ! آج تو تلقین شاہ ہی بن گئے ہیں ، یہ دوسری بار ہے کہ میں ہی پسند ٹھہرا اور آپ والدین کی چھترچھایا تلے سب کچھ ہو گیا ، کیا اب تیسری بار میں صرف اپنی مرضی نہ کر لوں؟“
ابا حضور نے بغیر سوچے جھک کر اپنے دس نمبر کے روسی بوٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا تو ہم اتنی دیر میں سیڑھیوں پر تھے مگر سیڑھیوں سے ماں جی اور بیگم صاحبہ اوپر آ رہی تھیں تو ہم وہیں مسدود ہو کر رہ گئے ، اسی اثنا میں روسی بوٹ ہوا میں اڑتا ہوا آیا اور ہمارے سر پہ وَجا۔ اس تاریخی منظر کو دونوں محترم خواتین نے بخوبی دیکھا۔ ماں جی تو نہ بولیں البتہ ہماری بیگم نے فرمایا : ”بڑی عزت افزائی ہو رہی ہے ، ماشاءاللہ !“
اگلے دن ماں جی اور ابا جی نے اٹک سٹیشن سے کراچی کے لیے روانہ ہونا تھا۔ ہم انھیں رخصت کر کے تادیر دکھائی دیتی ریل کو دیکھتے رہے اور پھر بُجھا دل اور نم آنکھیں لیے واہ کینٹ پلٹ آۓ۔
مکان تو ہم نے اپنی دانست میں بہت مناسب لیا تھا مگر اس کی ایک خامی دسمبر اور جنوری کے جاڑے میں کھلی جب دھوپ نے اسے نظر انداز کر دیا البتہ تند برفیلی شمالی ہواؤں نے ہمہ وقت اپنی زد پر رکھ لیا تھا۔ ایک کمرے میں دو چارپائیاں موجود تھیں جنھیں ہم نے جوڑ کر ڈبل بیڈ کی شکل دے رکھی تھی مگر سونا ایک ہی کمبل میں اپنی اپنی چارپائی پہ ہوتا کہ درمیان کی دو پٹیاں حدِ فاصل بن جاتیں۔ نیا نیا بندھن تھا اور ذمہ داریاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ ہم صبح دفتر چلے جاتے اور وہ گھر بند ہو کر کبھی متوقع بچوں کے موزے ، ٹوپیاں اور سویٹر بُنتی رہتیں ، یا سارے گھر کو چمکانے میں مگن یا کھانا شانا پکا کر ٹائم کلنگ کرتیں۔ ہم مزید مصروفیت کی خاطر ایک سیامی بلی لے آۓ اور نرسری سے متنوع اقسام کے پھولدار اور کیکٹس خاندان کے پودے مع درجنوں گملوں کے خرید لیے۔ سہ پہر کو ہم گھر پہنچتے اور دن بھر کی جمع شدہ باتوں سے ایک دوسرے کا مغز کھپاتے۔ نمائشی لڑائی بھی ہوتی جس کا اختتام ہمیشہ ہماری فلمی نوعیت کی معافی اور استغفار پہ ہوتا۔ رات کا کھانا یا تو ہم مل جل کر خراب کرتے یا باہر جی ٹی روڈ کنارے کے کسی ڈرائیور ڈھابے کی منجیوں پر بیٹھ کر کھا لیتے۔
اور اگر کبھی رات کو ہمیں اپنی ادبی سرگرمی کا شوق چراتا تو شب کے ڈھائی تین بجے چپکے سے گرما گرم کافی یا چاۓ کا کپ ہمارے سامنے یوں آ موجود ہوتا جیسے براہ راست کوہ قاف سے چلا آیا ہو۔
آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہماری تحریری یا مطالعاتی محویت میں خلل پڑا ہو۔ بعض ادبا ء کو اکثر یہ شکوہ کرتے پایا کہ ان کی بیگمات کتابوں کو اپنی سوتن سمجھتی ہیں۔ ہم نے تو آج تک اپنی کسی کتاب پر گرد کا ذرہ تک نہیں دیکھا۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں