تودہ پارٹی اور ایرانی انقلاب (3)-عامر حسینی

پاکستانی لبرل دانشوروں کا ایک سیکشن ایسا بھی ہے جو ایران میں مذہبی پیشوائیت کے تحت ترقی پسند دانشوروں، طالب علموں اور مزدور قیادت کے قتل عام اور ان پر جبر کا ذمہ دار خود تودہ پارٹی کی قیادت کو ٹھہرانے سے بھی باز نہیں آتا۔ ان میں پیپلزپارٹی کے سوشل میڈیا پر حامیوں کی تعداد زیادہ ہے جو 1977ء میں فوجی آمریت کے مسلط ہونے کی ذمہ داری بھی بائیں بازو کے رہنماؤں اور کارکنوں پر ڈال دیتے ہیں جبکہ وہ اس معاملے میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے عوام سے زیادہ ریاستی جبر کی مشینری پر انحصار کرنے اور فوج ، ایف ایس ایف اور پولیس جیسے اداروں کو عوام کے خلاف استعمال کرنے کو یکسر چھپا جاتے ہیں۔ وہ بلوچستان میں فوجی آپریشن کا ملبہ بھی نیشنل عوام پارٹی پر ڈال دیتے ہیں۔ ابھی ایک روز پہلے انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے ایک رہنماء یاسر ارشاد نے ایک پوسٹ لگائی جو خود میرے نزدیک ایک ناقص اور Sweeping statement تھی جس میں انھوں نے لکھا کہ اگر مولوی اور لبرل کے درمیان انھیں انتخاب کرنا پڑا تو وہ مولوی کو ساتھ ملائیں گے ۔ وہ دراصل یہ کہنا چاہتے تھے کہ اگر ایک طرف مولانا برکت اللہ بھوپالی، مولانا عبید اللہ سندھی ، مولانا حسرت موہانی جیسے سوشلسٹ مولوی ہوں اور دوسری جانب نواز شریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو ، ایمل ولی خان جیسے لبرل ہوں تو وہ سوشلسٹ مولویوں کو ساتھ ملائیں گے لیکن ان کے بیان میں ابہام کے سبب نیچے کمنٹ میں پی پی پی کی نیولبرل سیاست کے سب سے بڑے سوشل میڈیائی وکیل نے لکھا کہ یاسر ارشاد کو ایران کی مثال سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے جہاں تودہ پارٹی نے ہزاروں ترقی پسند دانشور مروا ڈالے تھے ۔

حالانکہ یہ دانشور جو سبق یاسر ارشاد کو دینے کی کوشش کر رہے تھے وہ سبق تو خود پیپلزپارٹی نے 1972-1977 کے درمیان کبھی سیکھنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔ اس نے مولانا کوثر نیازی جیسے کئی پاکھنڈی مولوی اپنی حکومت میں اہم عہدوں پر بٹھادیے تھے اور اس دور میں مولویوں کو خوش کرنے کے لیے پاکستان کی تاریخ میں بدترین مذھبی پیشوائیت کو مضبوط کرنے والی آئینی ترامیم کیں اور قوانین بنائے تھے ۔ پیپلزپارٹی کے یہ دانشور آج جمہوری جدوجہد میں مزاحمتی کردار کی مخالفت کرتے ہوئے ایسی کسی بھی تحریک کے ملاؤں کے ہاتھوں ہائی جیک ہونے کا ڈر پیدا کرتے ہوئے یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ جنرل ضیاع الحق کے خلاف بحالی جمہوریت کی تحریک کے لیے بننے والے اتحاد میں انھوں نے مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی ، علامہ احسان الہی ظہیر کی جمعیت اہل حدیث کو بھی شامل کیا تھا- ماضی قریب میں پی ٹی آئی کے خلاف تحریک کے لیے بلاول بھٹو نے جو پی ڈی ایم بنایا اس میں جے یو آئی ایف شامل تھی ۔
تودہ پارٹی کے ترجمان محمد امیدوار نے میرے سوال کا جو جواب دیا، اس کا خلاصہ میں یہاں پیش کرتا ہوں:
تودہ پارٹی خمینی کے دور میں ترقی پسند دانشوروں، طلباء، اور مزدور رہنماؤں کی تطہیر (پرجز) کے لیے ذمہ دار نہیں تھی۔ درحقیقت، تودہ پارٹی خود ان تطہیرات کا شکار بنی۔
تطہیرات کا پس منظر 
1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد، آیت اللہ خمینی اور اسلامی دھڑوں نے تیزی سے اقتدار کو مضبوط کیا۔ ابتدائی طور پر، مختلف گروہوں—جن میں اسلام پسند، بائیں بازو کے حامی، قوم پرست، اور دیگر سیکولر دھڑے شامل تھے—نے شاہ کو معزول کرنے کے لیے اتحاد کیا تھا۔ لیکن جیسے ہی بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور اسلامی جمہوریہ قائم ہوئی، خمینی اور اس کے پیروکاروں نے مخالف دھڑوں، خاص طور پر بائیں بازو کی جماعتوں جیسے تودہ پارٹی اور دیگر مارکسسٹ گروپوں کو منظم طریقے سے ختم کرنا شروع کر دیا۔
خود جبر کا شکار 
بائیں بازو کا نشانہ بننا:  تودہ پارٹی، جس نے ابتدائی طور پر انقلاب اور خمینی کی حمایت کی تھی، جلد ہی نئی اسلامی حکومت کے لیے ایک خطرہ سمجھی جانے لگی۔ جب تھیوکریٹک حکومت نے اپنا کنٹرول مضبوط کیا، تو اس نے بائیں بازو کے گروپوں کے خلاف کارروائی شروع کی، انہیں نظریاتی مخالف سمجھتے ہوئے۔ اسلامی جمہوریہ نے کمیونزم یا سیکولر نظریات کے لیے کوئی رواداری نہیں دکھائی جو اس کی طاقت کو چیلنج کر سکتے تھے۔
تودہ پارٹی پر کریک ڈاؤن:  1980 کی دہائی کے اوائل تک، حکومت نے تودہ پارٹی اور دیگر بائیں بازو کی تنظیموں کے خلاف شدید کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ پارٹی کے بہت سے رہنماؤں اور ارکان کو گرفتار، قید، تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھانسی دے دی گئی۔ پارٹی کے ڈھانچے کو ختم کر دیا گیا، اور ایران کے اندر اس کا اثر و رسوخ ختم کر دیا گیا۔

تطہیرات کے لیے کون ذمہ دار تھا؟ 
ترقی پسند دانشوروں، طلباء اور مزدور رہنماؤں کی تطہیر اسلامی جمہوریہ نے کی، خاص طور پر انقلابی گارڈز (IRGC) اور حکومت کی سیکیورٹی فورسز نے۔ یہ تطہیرات خمینی کے وسیع تر منصوبے کا حصہ تھیں، جس کا مقصد اپنی حکمرانی کے لیے کسی بھی ممکنہ خطرے کو ختم کرنا تھا، چاہے وہ بائیں بازو کے حامی ہوں، سیکولر افراد ہوں، یا دیگر سیاسی دھڑے۔
ترقی پسند دانشور اور طلباء:  بہت سے دانشور اور طلباء جو بائیں بازو یا سیکولر تحریکوں میں سرگرم تھے، حکومت کی جبر کا نشانہ بنے۔ یونیورسٹیوں سے سیکولر اور ترقی پسند پروفیسروں کو نکال دیا گیا، اور سرگرم طلباء کو گرفتار یا جلاوطن کر دیا گیا۔
مزدور رہنما:  اسی طرح، مزدور رہنما جو بائیں بازو کے نظریات سے وابستہ تھے یا حکومت کے مزدوروں کی تحریکوں پر کنٹرول کی مزاحمت کرتے تھے، انہیں گرفتار، پھانسی دی گئی، یا زیر زمین جانے پر مجبور کیا گیا۔ اسلامی جمہوریہ کے تحت آزادانہ مزدوروں کی تنظیم سازی انتہائی خطرناک ہو گئی تھی، جو تمام سماجی تحریکوں کو اپنے کنٹرول میں لانا چاہتی تھی۔

نتیجہ
تودہ پارٹی کے بجائے، خود خمینی کی حکومت نے تطہیرات کا نشانہ بنایا۔ اسلامی جمہوریہ نے نہ صرف تودہ پارٹی کو بلکہ دیگر ترقی پسند اور بائیں بازو کے عناصر کو بھی نشانہ بنایا، انہیں تھیوکریٹک طاقت کے استحکام کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے۔ یہ وحشیانہ تطہیرات اختلاف رائے کو ختم کرنے اور اسلام پسند نظریے کے مکمل غلبے والی ریاست بنانے کی ایک وسیع مہم کا حصہ تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply