یہاں پارسائی حرام ہے/عبدالرحمٰن خان

یہ سوشل میڈیا ہے شیخ جی
یہاں پارسائی حرام ہے

یہاں تقریباً ہر بڑے ادارے میں ایک شرعیہ بورڈ ہوتا ہے جس کا کام ہوتا ہے یہ باور کرانا کہ کمپنی / ادارے کے تمام کام شرعی دائرے میں ہورہے ہیں یا نہیں۔ ہمارے ہاں بھی ہے، بورڈ کے سرپرست ایک دکتور ہیں، باشرع و خوش مزاج انسان ہیں اور اتفاق سے سالہا سال سے ان سے میرے اچھے مراسم بھی ہیں۔ ہماری ہی طرح وہ بھی اپنے کام کی اجرت لیتے ہیں اور سال کے اخیر میں ہماری ہی طرح اپنے بونس و تنخواہ میں اضافے کے لئے اپنے اوپر والوں سے گہار بھی لگاتے ہیں  اور ہاں، اپنے حق کے لیے ایسا کرنے پر نہ انکی دینداری میں فرق آتا ہے اور نہ ہی باقی ساتھیوں یا اوپر والوں کی نظر میں انکی شخصیت مخدوش ہوتی ہے  اور تقریباً یہی حال یہاں ہر دینی ادارے کا بھی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تو جناب جی!  آپ کو بھی کسی چھوٹے بڑے دینی کام پر اجرت لینے سے کسی نے بھی روکا نہیں ہے۔ آپ لیجیے اور اپنے معیار کے حساب سے خوب لیجیے، جیسے مساجد کی شہرت کے حساب سے سلیبریٹی خطباء جمعہ کی اجرت لیتے ہیں، جیسے جلسوں کے چھوٹے بڑے ہونے کے حساب سے سلیبریٹی مقررین تقریر کی اجرت لیتے ہیں، جیسے ڈاکٹر کنسلٹیشن فیس اور وکلاء پیروی چارج لیتے ہیں، بالکل ویسے ہی آپ دینی سوالات اور شرعی فتوؤں کی بھی اجرت لیجیے، جو فیس نہیں دینا چاہتا ہے اسے مت فتویٰ دیجیے، جو قیمت نہ ادا کرے اسے سوالات کے جواب مت بتائیے، جو آپ کے معیار کے مطابق نذرانہ نہ دے اس کا نکاح مت پڑھائیے، جو مناسب قیمت نہ  دے، اسکے جنازے میں آگے مت بڑھیے۔ ۔۔ کس میں ہمت ہے جو جبراً آپ کو منبر پر چڑھا دے، کس کی مجال ہے جو زبردستی آپ کو نکاح کا مائک تھما دے، کس میں جرات ہے جو جنازے کے لئے آپ کو آگے دھکا دے دے ۔ آپ کو کون مکلف بناتا ہے کہ بنا اجرت کوئی  دینی یا دنیاوی کام کریں، واللہ میں بھی نہیں کرتا، میں کیا میرے تمام دوست احباب بھی نہیں کرتے، اور ہمیں ایسا کرنے پر کوئی  مجبور بھی نہیں کرتا۔  ہاں اگر دل کرے تو جیسے کچھ شریف النفس ڈاکٹرز و وکلاء وغیرہ کرتے ہیں کہ دس مریضوں میں سے ایک بنا فیس دیکھ لیا، دس مقدمات میں سے ایک آدھ بنا فیس پیروی کرلی، آپ بھی چاہیں تو دس پندرہ نکاح میں سے ایک دو فری پڑھا دیں، ایک آدھ جلسوں میں کچھ کنسیشن دے دیں، درجنوں فتؤؤں میں سے ایک آدھ پر کچھ نہیں یا کچھ کم چارج کرلیں۔  یہ سب آپ کی اعلیٰ ظرفی ہوگی اور ایسا کرنے نہ کرنے پر آپ بلا شبہ آزاد ہیں ۔۔ بلکہ مناسب تو ہوگا کہ جیسے ہم اپنی صلاحیتوں کے حساب سے آۓ دن اپنے مالکان سے تنخواہوں میں اضافے کی بارگیننگ کرتے ہوۓ کام چھوڑنے کی دھمکی تک دے دیتے ہیں اور انہیں ہمیں روکنے کے لئے ہماری بات ماننی پڑتی ہے آپ بھی کچھ ایسا ہی کریں، اور کرنے والے ایسا کرتے بھی تو ہیں، ایک ادارے سے دوسرے ادارے، ایک سینٹر سے دوسرے سینٹر، ایک اسٹیٹ سے دوسرے اسٹیٹ  اور اس میں برائی  بھی تو کچھ نہیں کہ انسان اپنے اور اپنے بال بچوں کے لئے بہتر سے بہتر کی تگ و دو کرتا رہے ۔ آپ بھی خود کو برانڈ بنائیں، آپ بھی خود کا ریٹ کارڈ جاری کریں کہ اس سے کم پر ہم فلاں کام نہیں کریں گے، یقین جانیں جس طرح کم ہی سہی پر فٹ پاتھ سے دو چار سو کا پرس نہ لیکر کچھ خواتین لُوئی  وِٹوں کا پندرہ بیس لاکھ مہنگا بیگ خریدتی ہیں ویسے ہی جسے آپ کے پاس اپنے سوالات کا جواب منہ مانگی قیمت پر لینا ہوگا وہ جھک مار کر بھی ضرور لے گا۔ تھوڑا وقت لگے گا پر ایسا ہوگا ضرور۔ ۔ پہلے نہیں تھا پر آخر یہ ٹرینڈ جلسوں اور جمعوں میں تو ہو ہی چکا ہے نا  ۔  کوشش جاری رہی تو سوالوں اور فتؤؤں میں بھی ایک دن یہ رائج ہوگا  اور یقین جانیں ان سب میں بالکل کوئی  مضائقہ نہیں ہے۔ مجھے فقہی مسائل کا علم نہیں البتہ میری سمجھ کے مطابق اجرت لینے سے آپ کی نیتوں کے بقدر ثواب میں بھی کوئی  کمی نہ آۓ گی، ان شاء اللہ! ۔۔ پر ایک چھوٹا سا کام ضرور کیجئے کہ بار بار عوام کو کوستے ہوئے اجرت اجرت اور دین دین کی رٹ سوشل میڈیا پر مت لگائیے   کہ آخر یہ معاملات آپ اور آپ کے اللہ یا آپ اور آپکے کسٹمر / ادارے کے مالکان کے درمیان کے ہیں۔ آپ کی نیتوں میں خلوص ہے تو آپ کو اجر سائل کو فتوی دینے پر بھی ملے گا اور بیوی کو لقمہ دینے پر بھی، ہاں اجر کم زیادہ ضرور ہوسکتا ہے  تو صاحب! آپ اجرت لیں اور اجر بھی لیں، یا دونوں میں سے کوئی  ایک لیں، ہر دو صورتوں سے ہمیں یا کسی کو بھی کوئی  اعتراض نہیں، پر معاملات کو فریقین کے مابین ہی سِیمِت رکھیں، اجر والا اپنے اور اللہ کے مابین اور اجرت والا اپنے اور سائل/مالک کے مابین۔ ۔  کیونکہ سوشل میڈیا آخر سوشل میڈیا ہے جہاں ڈھیر سارے شرفاء کے علاوہ ہمارے اور فلانے بن فلانے جیسے کچھ بزرگ لونڈے لپاڑے بھی فالتو تاک میں بیٹھے رہتے ہیں، جنہیں دین دنیا سے لینا دینا کچھ نہیں ہے بس شگوفہ چھوٹتے ہی مزہ لینے آجاتے ہیں، کیونکہ یہ پڑھے لکھے تو ہیں نہیں پر اپنے آپ کو حبیب جالب جیسے سر پھروں کے قبیل سے مانتے ہیں!
مفلس جو اگر تن کی قبا بیچ رہا ہے
واعظ بھی تو منبر پہ دعا بیچ رہا ہے
دونوں کو ہے درپیش سوال اپنےشکم کا
ایک اپنی خودی، ایک خدا بیچ رہا ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply