جوانی کی تنگدستی سے بری ذلت کوٸی بھی نہیں ہوتی ۔ تاہم یہ کبھی نہیں ہوا کہ ہمیں چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے لیے ترسنا پڑا ہو۔ ہر ماہ تنخواہ میں سے ہم کچھ مناسب رقم کراچی والے گھر کے لیے بھیج کر باقی ادھر والی بیگم کے حوالے کر دیتے تھے اور خود نچنت ہو کر بیٹھ جاتے۔ یہ تکنیک ہم نے والد کی نصیحت اور ماں جی کی انتظامی صلاحیت کو مدنظر رکھ کر اپناٸی۔ گھر کے تمام مالی امور ماں جی کو تفویض تھے۔ پتہ نہیں وہ کون سا اسمِ اعظم جانتی تھیں کہ جب بھی چھوٹی یا بڑی مالی ضرورت یا مصیبت پڑتی ، منٹوں میں حل کر دیا کرتیں۔ ہم نے کبھی نہیں سنا یا دیکھا کہ قرض کی نوبت آٸی ہو۔
اگر عورت سمجھدار اور ذمہ دار ہو تو اس سے بڑھ کر ماہر معشیت کوٸی نہیں ہو سکتا بصورت دیگر مرد کا دست طلب دراز ہی رہتا ھے۔
شادی کو پانچ ماہ ہو چکے تھے تو ہم نے سوچا کہیں حق تلفی نہ ہو ، اس لیے بیگم کو بتاۓ بغیر جی پی فنڈ سے ایک معقول رقم نکلوا کر ہنی مون کا پروگرام طے کر لیا حالانکہ بنیادی ضروریات زندگی کا فی الحال اچھا خاصا فقدان تھا۔ سن کر بہت سٹپٹاٸیں کہ کیا فاٸدہ ؟ ہم نے مگر کہا کہ عمر کے مہاجن سے جو چار دن مستعار مل ہی گۓ ہیں تو انھیں کسی ڈھنگ سے یادگار نہ بنا سکیں تو کیا فاٸدہ؟
ابتدا مری اور ٹھنڈیانی سے کی اور اختتام سوات اور کاغان پہ ہوا۔ یہ تمام مقامات پہلے بھی دیکھے بھالے تھے لیکن بیگم کی معیت میں جذباتی تاثرپزیری ہی اور تھی۔ پہلی بار علم ہوا کہ موصوفہ کی آواز بہت سریلی اور گھونگھریالی ھے اور یہ بھی کہ دنیا کے کسی بھی موضوع پر مباحثہ مطلوب ہو تو وہ پریمیٹیو کی طرح پراٸمری سطح کے سوال نہیں پوچھتیں بلکہ زندگی ، فرد اور کاٸنات کے بارے بہت مستحکم اور روشن نظریہ رکھتی ہیں۔ انانیت سے دور اور ہٹ دھرمی سے گریزاں۔ سراسر تسلیم و رضا کی تجسیم۔ پتہ نہیں آداب دختری تھے یا مکتبِ زیست کی کرامت۔
مرغزار (سوات) کے تاریخی سفید محل کے لان میں چاۓ پیتے ہوۓ ہم نے کہا : ”طشت از بام ہونے کے لیے کچھ حقاٸق اور عادات مخصوص مقامات کے محتاج ہوتے ہیں۔ اگر انسان ایک ہی دڑبے میں بند رہے تو انڈے کی معراج صرف مرغ بننے تک ہی محدود رہتی ھے۔ صد شکر کہ تم مان گٸیں ، اور سچ پوچھو تو ہمیں پہلی بار ادراک ہوا کہ طوفانی محبت منکوحہ سے بھی ہو سکتی ھے۔“ سُن کر پہلے بہت زور سے کھلکھلاٸیں اور پھر نوری نت کی نقل کرتے ہوۓ آواز کو قدرے بھاری کر کے بولیں : ”نِیواں رہ اوۓ بدماشا !“
گرمیاں آٸیں تو مکان کی دوسری خامی سامنے آٸی۔ دھوپ صبح پانج بجے غلبہ کرتی اور شام تک سر پہ سوار رہتی۔ ہوا نے بھی رُوٹ بدل لیا تھا۔ کمرے دہکتی بھٹیاں بن جاتے۔ ایک دن ہم دوپہر ایک بجے گھر پہنچے تو دیکھا وہ کرسی پہ بیٹھی ہیں اور پاٶں ، پانی سے بھری بالٹی میں ڈال رکھے ہیں۔ بالاٸی منزل پہ صحن کی عیاشی ہوتی بھی تو بیکار محض ، صرف پندرہ فٹ کا برآمدہ تھا اور آگے جالی نما دیوار جس کے روزنوں سے گلی کی رونقیں اور آوازیں اوپر تک باآسانی پہنچتی تھیں۔ ہم نے پوچھا : ”پانی ٹھنڈا ھے؟“ ہنس کر بولیں : ”الحَمْدُ ِلله ، ٹینکی کا پانی ھے ، ٹھنڈا کیوں ہو۔“ ہم الٹے قدم یہ کہتے ہوۓ سیڑھیاں اترے کہ ۔۔۔ ”ذرا صبر ، ابھی علاج کرتے ہیں۔“
اور برف کا ایک پنج سیرا بلاک لا کر بالٹی میں ڈال دیا۔ فریج کی ابھی بساط نہیں تھی تو کھانے پینے کی اشیا۶ جمع کرنے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ کھانا اتنا پکتا جو ایک ہی بار میں خلاص ہو سکے۔ تینوں کمروں کے چھت والے پنکھے نیچے لُو پھینک رہے تھے ۔ واحد جگہ جو قدرے ”برداشت ایبل“ تھی وہ زینے کے انجام پہ پانچ فٹ مربع کا فرشی ٹکڑا تھا جہاں دھوپ اور تپش کی رساٸی نہ تھی۔ ہم نے گھر بدلنے کا عندیہ دیا مگر ان کا کہنا تھا کہ ۔۔۔ ”میرا یہاں دل لگ گیا ھے۔ دو سہیلیاں بنا چکی ہوں۔ جی ٹی روڈ قریب ھے۔ آپ کے اور میرے عزیز و اقارب باآسانی پہنچ جاتے ہیں۔ روڈ سے پار جو مصنوعی جنگل ھے ، شام کو وہاں جلدی سے واک شاک کو جا سکتے ہیں۔ وہاں گلہریاں ہیں ، بہت سے پرندے ہیں اور رات میں جگنو اتنے زیادہ ہوتے ہیں ۔۔۔ اور پھر کینٹ کی روشن مال ھے۔ گراسی فٹ پاتھ اور قطعات ہیں۔ کہیں اور گۓ تو ضروری نہیں یہ سب کچھ ہو۔ کل گوردوارہ پنجہ صاحب (حسن ابدال) سے واپسی پر سڑک کنارے پکھی واسیوں کی جھگیاں دیکھی تھیں جن میں نہ پنکھے تھے اور نہ ٹھنڈے پانی کے کولر؟ ہماری کراۓ کی ہی سہی ، پکی چھت تو ھے۔ مجھے تو یہاں کوٸ مسٸلہ نہیں ، باقی آپ کی مرضی۔ آہستہ آہستہ ایک دن سب کچھ اپنا بھی ہو ہی جاۓ گا۔“
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں