سفرِ حیات-دوسری شادی کا قصّہ (6)-خالد قیوم تنولی

جنت مکانی سسر ہمارے بہت تنک مزاج تھے ، اور یہ مشاہدہ ہمیں شادی کی ہنگامہ خیزی کے دوران ہو چکا تھا۔ مقابل چاہے بڑے سے بڑا پھنے خان بیٹھا ہو ، تُو کہہ کر مخاطب ہوتے۔ کوئی بہت ہی شیریں لہجے میں ان سے بات کرنا چاہے تو موصوف سرد و سفاک خموشی اور روح تک کو چھید ڈالنے والی زہر خند نظر سے دیکھنے پر اکتفا کرتے۔ دونوں بیٹے ان سے یوں بِدکتے جیسے کوا غلیل سے۔ ساس (بڑی خالہ) ہماری ان سے ہمکلام ہونے کا شرف حاصل کرنے سے پیش تر خود پر کلمات الہی پڑھ کر پھونکتیں۔ گھر کے بڑے داماد جو ان کے بھانجے بھی تھے ، نہایت شریف و تابعدار مگر ماموں کے رعب داب کی وجہ سے ‘آل تُو جلال تُو’ کے وظیفے کو حرز جاں بناۓ رکھتے۔ ہم نے مگر بے تکلفی میں ان سے سیاسی  بحث چھیڑ دی اور وہ بھی ان کی مرغوب سیاسی جماعت پر کڑی تنقید کر کے۔ ان دنوں صدر مشرف کی مطلق العنانیت کا سورج نصف النہار پہ تھا اور ہم ٹھہرے استعمار و آمریت مخالف۔ بہت زور دار ٹاکرہ ہوا لیکن بیچ بیچ میں ہمارے مشترکہ قہقہے بھی بلند ہوتے رہے۔ سارا گھر ہم جماترے و سوہرے کو تعجب سے دیکھ رہا تھا۔ بے نتیجہ بحث کے اختتام پر انھوں نے ہمارے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور ہنستے ہوۓ کہا : ”لعنت بھیجو میاں و مشرف پر ، ہور سنا فیر کیہہ حال اے۔“
”ہم نے کہا : ”آپ کی لاڈلی نے ہماری موجیں بناٸی ہوئی ہیں۔“

بیٹی کو پیار سے دیکھ کر بولے : ”اپنی چھ اولادوں میں کبھی میں نے تفریق نہیں کی ، لیکن یہ سچ ہے کہ اس کے جانے سے وہ مولوی مدن والی بات نہیں رہی۔ ایہہ کوئی وکھری ای روح ہیگی اے۔ انج لگدا اے جیویں برکت ای اٹھ گئی  ہووے۔“ ہمیں لگا کہ ان کی آواز بھرا گئی ہے۔ کچھ توقف کے بعد وہ اس کے خصائل  پر تا دیر بولتے رہے۔ درمیانی وقفوں میں خوامخواہ کسی نہ کسی کو ڈانٹ بھی دیتے۔ وہ کسی بھی لمحے اپنی حاکمیت اور گرفت سے غافل رہنے کے قائل نہ تھے۔ کھانا دسترخوان پر سج چکا تھا تو گل بنے لگانے کو کہا ۔۔۔ ”میری اس یمنی عقیق کا بہت خیال رکھنا پتر ۔“ اگر نکاح کے فسخ اور خلق کے فساد کا خدشہ دامن گیر نہ ہوتا تو ہم کہنے والے تھے کہ فکر ای نہ کرو بزرگو ، جیسے آپ کی بیٹی ویسے ہی ہماری۔

رات کے کھانے کے بعد ہم دونوں جیون سانجھ چہار اطرافی گول برآمدے میں ٹہلنے کو نکلے تو بولیں : ”زندگی میں پہلی بار ابا کو کسی کے ساتھ یوں بے تکلفی سے بولتے دیکھا ، آپ نے تو پتھر موم کر لیا۔ میری تو حیرت ہی نہیں جا رہی۔“

ہم نے کہا : ”جن روحوں کی یوم الست میں ہی ایک دوسرے سے ذہنی ہم آہنگی ہو چکی ہو ، وہ دنیا میں بھی بیگانگی سے دور رہتے ہیں۔ ہم دونوں قدیمی شناسا ہیں۔ پرانے کُھنگر ہیں۔ آج کے واقعے کو فی الحال ٹریلر سمجھو۔فلم بہت دیر اور دور تک چلے گی۔“ اتنے میں باقی نفری بھی آ ملی تو موضوع ہی بدل گیا۔ ہنسی مذاق کا راؤنڈ رات گئے  تک جاری رہا۔

اگلے دن پوچھنے لگیں : ”داتا دربار چلیں گے ؟ بے شک آپ اندر نہ جانا ، میں نے ایک منت مانی تھی ، اس کا بوجھ اتارنا ہے۔“
ہم نے کہا : ”ہم نے کون سی رقم دبا رکھی ہے داتا صاحب کی کہ اندر نہیں جانا ، جائیں گے اور سیلوٹ بھی ماریں گے۔ کشف المحجوب پڑھ رکھی ہے، ان کی ، بھلے مانس اور مہان انسان تھے وہ۔ لیکن ایک شرط پر ۔۔۔“
”وہ کیا ۔۔۔ ؟“
”ہم بھی اپنے مرشد کے دوارے جائیں گے ، استاد دامن کے حجرے پر ، دہلیز چومنی ہے ۔ وہاں سے زیادہ دور تو نہیں۔ یہ نذر ہم نے بہت مدت سے مان رکھی ہے۔“
ایک ہفتہ ہمارا قیام رہا۔ کئی  سسرالی اقارب کی طرف سے دعوتیں ملیں مگر ہمیں انتظار حسین سے ملنا تھا ، احمد ندیم قاسمی کے چرن چھونے تھے ، مصور اسلم کمال کی دست بوسی کرنی تھی ، کہانی کار سمیع آہوجہ کے در دولت پر حاضری دینی تھی ، منو بھائی  کا شکوہ دور کرنا تھا، جسٹس جاوید اقبال سے شرف باریاب ہونا تھا۔ شاعر کامریڈ جاوید شاہین سے ان کے ادبی منصوبوں بارے جانکاری حاصل کرنی تھی۔ مارکسٹ ڈاکٹر لال خان اور ان کی اہلیہ کامریڈ صدف زہرہ کے ساتھ چاۓ کی پیالیوں میں طوفان اچھالنے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن شام ہونے سے پہلے ہم بہر صورت گلبرگ (اپنے سسرال) پہنچتے اور دن بھر کی روداد بیگم کو سناتے سناتے ریس کورس جا نکلتے۔ ایک بار واپسی پہ ہم انھیں پنجاب سول کلب کا ایک سرونٹ کواٹر دکھانے لے گئے ۔ آمنے سامنے چھ چھ کواٹرز کی دو قطاریں تھیں۔ تب ہماری مطلوبہ نشانی میں پتہ نہیں کون مقیم تھا مگر  1993 میں جب ہم اپنے گرائیں دوستوں محمد نواز (مرحوم) اور ملک بنارس خان کے ہاں دو مہینے مہمان رہے تو ان کے پڑوس میں ایک عیسائی  کنبہ رہتا تھا جن کی بیٹی کیتھرین سے عشق کا ہمارے دل میں پھوڑا نکل آیا تھا۔ وہ دن میں کچھ نہ کچھ بنا کر لاتی جسے محمد نواز اور بنارس تو ہاتھ بھی نہ لگاتے مگر ہم چٹخارے لے لے کر کھا جاتے۔ ہم نے بیگم کو بتایا کہ وہ اتنی دلیر تھی کہ دن دیہاڑے ہمارے مونڈھے پر جگری یاروں کی طرح بانہہ دھر کر پھرا کرتی اور اس کے گلے میں غلیل حمائل رہتی جس سے وہ ججوں کی کوٹھیوں کی کھڑکیوں کے نشانے لیا کرتی تھی ، ایک بار شاہ حسین کے مزار تک ڈالی کا قافلہ چلا تو ہم دونوں ہراول کے دھمالیوں میں پیش پیش تھے۔
بیگم عجب گومگو کی حالت میں کبھی ہمیں دیکھیں اور کبھی کوارٹر کے ادھ کھلے دروازے کو ۔۔۔
پتہ نہیں اب کیتھرین کہاں ہو گی ۔۔۔ ہو گی بھی یا نہیں ۔۔۔ !!!
گھر تک نہر کنارے ٹہلتے ٹہلتے ہم نے کہا :
”یہاں یہ گھر دکھانے اس لیے لاۓ کہ کل اگر تمھیں کسی اور وسیلے سے پتہ چلے تو تم بدگمان نہ ہوؤ ۔۔۔ اب ہمارے اجارے میں آ ہی چکی ہو تو جان لو کہ الف لیلیٰ و لیلیٰ ایک ہزار ایک کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ یہ تو پہلی کہانی تھی۔“ جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply