سفرِ حیات-دوسری شادی کا قصّہ (7)-خالد قیوم تنولی

جس صبح ہم نے واپس آنا تھا اس رات سونے سے بہت پہلے طشتری میں مچھلی کا ایک ٹکڑا اور برفی کی تین ڈلیاں لیے کمرے میں آئیں تو  خوب  ہنسنے لگیں ، ہم ایچ بی چینل پر کوئی وار مووی دیکھ رہے تھے۔ توجہ ہٹا کر پوچھا : ”خیریت؟ لگتا ہے مچھلی جلا دی ۔۔۔ کیا نہیں؟“
”نہیں ۔۔۔ خالہ امی اور میری امی کی فون پر میں نے گپ شپ سنی ہے۔ دونوں کو تشویش ہے کہ شاخِ تمنا ابھی تک ہری کیوں نہیں ہوئی۔ ایک تو ان مائیوں کو نواسوں پوتوں سے کھیلنے کا بڑا شوق ہے۔“
ہم سنبھل کر بیٹھ گئے   ”یار ۔۔۔ ویسے میٹر آف فیکٹ ہے ، ہر مائی ساہوکار ہوتی ہے ، نفع سے زیادہ سُود کی حریص ۔۔۔ ایک وقت آۓ گا تم بھی ایسی ہی مہاجن ہو جاؤ گی۔ بچوں کے بچے یعنی اصل زر سے زیادہ تَر کی فکر کرتی پھرو گی۔ اس میں کانٹے تو نہیں ہیں؟“
”نہیں ۔۔۔ کومب لیس ہے۔“
گھر سے سٹیشن کے لیے وداع ہوتے سمے وہ اپنی ماں ، بہنوں اور بھابھی سے معانقوں میں مگن تھی تو ہم نے سسر صاحب کے دستِ شفیق کا محبت بھرا بوسہ لیا اور کہا ۔۔ ”ماموں ! آپ درحقیقت بہت مزے کے انسان ہیں ، بے شک ترنوٹ بناۓ رکھیں مگر مست ملنگ روح ہے آپ کی ، میں چاہوں گا کہ آئندہ ہم اس رشتے کے علاوہ دوست بھی ہوں  ۔ یہ سسر اور داماد کا تکلف ہمیں زیادہ اپیل نہیں کرتا۔ اپنا دوست سمجھ کر آپ دنیا کا ہر معاملہ مجھ سے  شیئر کرسکتے ہیں ، مگر میں کچھ وکھرا سا دوست ہوں ، جو کبھی کسی کے رعب میں نہیں آنے والا۔ “

دراصل اس مدعے کا ایک پس منظر تھا ، ہمارے ابا جان بہت نوعمری میں عملی زندگی کے خار زار میں اترے تھے تو اپنے تجربات زیست کی رُو سے ان کی ہر بات سنیارے کی ترازو سے تُل کر اتری ہوئی ہوتی تھی۔ اکثر کہا کرتے ، انسان کو کبھی وہ دعویٰ نہیں کرنا چاہیے جس کی دلیل نہ رکھتا ہو ، کبھی وہ گھمنڈ نہ کرے جس کی اوقات نہ رکھتا ہو ، کبھی اس کی نمائش نہ کرے جس کے مشروط وصف سے تہی ہو۔ کُرتے کے دامن پر ریا کار پیوند اور عارضی امارت کی اصلیت کبھی نہ کبھی عین چوراہے پر کھل جاتی ہے اور پھر بڑی سُبکی اٹھانا پڑتی ہے۔
جو کسی سے بمشکل مصافحہ کرتے تھے ، ہماری بے تکلف آفر دیکھ کر اسی ہمارے سسر گرامی نے ہمیں خود سے لپٹا لیا۔
(اپنی وفات تک انھوں نے بیش تر خاندانی معاملات کے متعلق بیسیوں بار بہت کھل کر ہم سے مشاورت اور تبادلہ خیال کیا۔)
کوئی بھی تعلق اگر ساز ہے تو اسے ہم آواز ہونا چاہیے۔

لاہور سے پنڈی تک ریل کے سفر میں ایک بار وہ ہمیں پہلے بغور دیکھے گی اور پھر بے اختیار ہنس پڑیں۔ ہم کچھ کنفیوز سے ہو گئے ۔ اس ادا کی اصل جاننا چاہی تو بولیں : ”پہلے خیال تھا کہ آپ نے خود پہ قلعی کرا رکھی ہے مگر اب یقین ہونے لگا آپ واقعی ملمع سے بے نیاز ہیں۔ یار انسان کو تھوڑا بہت تو اداکار ہونا چاہیے۔“
”تو کیا تم اداکار ہو؟“ ہم نے کھڑکی سے باہر دریاۓ جہلم کی گدلی موجوں کی طرف دیکھتے ہوۓ پوچھا۔
کھٹ میٹھی ٹافی کا ریپر اتارتے ہوۓ کہنے لگیں : ”اگر برا نہ مانیں تو کہوں ، ہاں ہوں میں کچھ کچھ اداکار ۔۔۔ میں نے اپنی محبت کی اُترن پہن رکھی ہے۔“
”تو اس میں قصور کس کا ہوا ، چراغ کو کب پتہ چلتا ہے کہ اندھیرا اس کے نیچے ہے  ۔ اندھیرا خود بتا دیتا تو کبھی اترن کی نوبت ہی نہ آتی۔ خانم جی ! ہماری تو اب تک کی ساری عمر کرنوں کے تعاقب بھی بیتی ہے  ۔ البتہ اب روح کو نروان مل چکا ہے۔ تم ہی نہیں دنیا کی ہر عورت اپنا ہر اثاثہ وار سکتی ہے ، مگر اپنی محبت کا شرک نہیں سہہ سکتی۔ تم بھی اپنے خدا کی مانند ہو۔“

Advertisements
julia rana solicitors

گھر پہنچ کر ہم دونوں نے اپنی روٹین کی سلوٹیں جھاڑیں اور مخصوص ڈگر پر آگئے۔ ہر صبح وہ زینے کی شروعات پر ہمیں دفتر کے لیے وداع کرتیں اور واپسی پر وہیں سواگت۔
ایک دن حسب معمول واپس آۓ تو دروازہ خلاف معمول کھلا ملا۔ اوپر اپنی خواب گاہ تک پہنچے ، انھیں پکارا مگر جواب ندارد۔ سنگار میز کے کونے پر سیفٹی پن کی ڈبی اور سینٹ کی شیشی کھلی پڑی ہے ، طلائی کنگن کی جوڑی فرش پر ، کرسی کی پشت پر سبز آنچل اڑا ہوا ہے ، ہماری ایک فوٹو اس کے پرس سے جھانک رہی ہے ۔۔ ہم نے اس منظر میں خود کو تفکر سے منجمد ہوتا محسوس کیا ۔  دفعتاً دھم سے جانے کس اوٹ سے نکلیں اور اسی لحظے میں جیسے سٹل کیا ہوا منظر چل پڑا۔ جان میں جان آ گئی ۔
”کیسی لگی میری اداکاری ؟“
ہم نے کہا : ”خوفناک ! جیسے  ہارر مووی ہو۔“
رات کو دسترخوان پر بیٹھے تو بتایا : ”جس طرح پہاڑوں کے سفر میں جی ابکاتا ہے ، ویسی ہی وائبز ہیں میری ، پانی کا گھونٹ بھی واپس آنے لگتا ہے۔“
ہمیں اس کیفیت کا پیشگی تجربہ تھا تو کہا : ”کل سویرے ہاسپٹل لیب چلیں گے۔“
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply