2اپریل 2024
1975 اور 1977 میں بھٹو کا دیا ہوا موجودہ اقلیتی انتخابی نظام تھا،جسے ضیاء نے ختم کرکے سیاسی شودر اور معاشرتی اچھوت بنانے والا جداگانہ اقلیتی طریقہ انتخاب دیا ۔اس میں اپنے نمائندے چُننے کا حق جمہور کے پاس تھا۔اس میں قومی اسمبلی کی 4 نشستیں مسیحیوں ، 4 ہندوؤں، 1 قادیانیوں کے لئے اور ایک دیگر تمام مذہبی اقلیتوں کے لئے مخصوص تھی۔ لیکِن اس میں اقلیتی شہری نہ حلقے کے نمائندے کو ووٹ ڈال سکتے تھے،نہ جنرل الیکشن میں حصہ لے سکتے تھے۔۔ یعنی خالص سیاسی شودر اور معاشرتی اچھوت تھے، 1985سے 1997 تک سیاسی شودر اور معاشرتی اچھوت بنانے والے اس جداگانہ طریقہ اقلیتی انتخاب کے تحت پانچ بار 12 سال تک انتخابات ہوئے ۔کمال یہ ہے کہ کچھ مسیحی سیاسی ورکر آج پھر ناپاک شودر بننے والے اس نظام کے خواہشمند ہیں ۔اس کے بعد دوبار ہ قومی ووٹ 2002میں بحال ہوا،لیکِن بحال کروانے والے مذہبی افراد اور این جی اوز مقامی معروضی سیاسی حالات کا ادراک نہ کرسکے اور شودر پن ختم کرتے کرتے قومی ووٹ کے عوض جمہوری غلامی خرید لائے ۔۔مذہبی شناخت والی نمائندگی سیاسی اشرفیہ نے اپنے پاس رکھ لی، یعنی آسمان سے گرے اقلیتی شہری کھجور میں اٹک گئے۔ سیاسی شودر پن ختم کرکے جمہوری غلامی کا طوق 38 لوگوں کے گلے میں ڈال دیا گیا ۔آفرین ہے ایسی دانشور ریاستی اور سیاسی اشرفیہ پر جنہیں تقریبا ًایک کروڑ اقلیتوں کے نمائندوں کو جمہوری غلام بنا کر تسکین ملتی ہے ۔اور بے شک قابل رحم ہیں، پاکستانی اقلیتوں کے یہ سیاسی ورکر جو ان دونوں نظاموں پر ڈھول تاشے بجاتے ایم این ایز،ایم پی ایز بنتے ہیں اور ان کے حواری ان دونوں نظاموں کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں۔سب سے قابل ترس حالت ان کی ہے ۔جو اسے جمہوری غلامی دل سے سمجھتے ہیں۔ لیکن منہ سے بولے بغیر اس طوق کو گلوں میں ڈلوانے کی دوڑ میں بھی جٹے ہیں ۔۔۔لیکِن قابل تعریف ہیں وہ جو نظام میں رہتے ہوئے بھی کبھی کبھار اس پر آواز تو اُٹھاتے ہیں لیکن افسوس ہے،انکی اہلیت پر جو آواز تو اُٹھاتے ہیں لیکن انھیں کچھ پتہ نہیں اقلیتوں کے لئے بہتر کیا ہے ۔۔ ۔
جمہوری آقاؤں نے یہ دیا کہ چار کی جگہ پانچ مسیحی
اکرام مسیح گل
چوہدری ہارون قیصر
اسیہ ناصر
مشتاق وکٹر (مشتاق وکٹر نے شہباز بھٹی کی پارٹی کی طرف سے پیپلز پارٹی کی فہرست پر نشست حاصل کرکے ق لیگ جوائن کی جس پر شہباز بھٹی کی پارٹی نے بہت احتجاج کیا لیکن موصوف وزیر بنے بعد میں انسانی اسملنگ کے کیس میں چند دن گرفتار بھی رہے )
پرویز مسیح- ایک پارسی ۔ایم پی بھنڈراں ایک سکھ ۔گیان چند سنگھ (یہ ہندو بھی ہو سکتے ہیں)تین ہندؤ 1،کرشن بھیل۔2،رمیش لال ۔3، دیو داس بھرتی کرلئے ۔۔ آخر میں پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے سیاسی سماجی اور سیاسی رجحانات رکھنے والے ورکروں سے گزارش ہے کہ چاہے آپ کا روزگار محرومیوں کی سوداگری ،تیس سکوں والی صنعت یا جمہوری غلامی سے وابستہ ہے۔یا آپ جمہوری غلامی کے روزگار سے وابستہ ہونے کے خواہشمند ہیں ۔۔میں غم روزگار اور جذبہ خود نمائی کی بیماری کے مرض کی مجبوریاں سمجھتا ہوں ۔لیکن ان روزگاروں کے ساتھ بھی آپ حق بات کرسکتے ہیں۔آپکے پیشے یا آمدن پر فرق نہیں پڑے گا،اس لئے خدارا سچ بولیں ۔۔کیونکہ ماضی وحال کے حقائق وشواہد سے کشید کی گئی ہزاروں دلیلیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ اقلیتوں کا پاکستان کے معروضی حالات میں پاکستان کی اقلیتوں کی قومی و مذہبی شناخت بقاء وترقی کے تحریک شناخت کا دوہرے ووٹ کا مطالبہ و لالحہ عمل ہی حل ہے ۔۔بقول شہباز چوہان نہ بانجھ پن دیتا مخلوط طریقہ انتحاب، نہ ناپاک شودر بنانے والا جداگانہ طرزِ انتحاب ،نہ جمہوری غلامی دینے والا موجودہ سلیکش والا انتخاہی نظام بس ووٹ دوہرا ہمارا تجسّس کہ جس میں ہو مذہبی و قومی تشخص ۔یہ کہانیاں بقول امبیدکر لوگوں کو تعلیم دو،منظم کرو تاکہ وہ فوکس احتجاج کر سکیں (ایجوکییٹ ،ارگنائز اور ایجیٹیٹ) کرنے کے لئے ہیں.. ۔ صرفِ تفریح طبع کے لئے نہیں اٹھو اور کچھ نہیں کرسکتے تو خود سمجھ کر لوگوں کو باخبر کرو ۔ بااختیار وہ خود ہی ہو جائیں گے ۔۔
تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں