اک عرض سنیں مسیحا کی/شہزاد ملک

میڈیکل کی پڑھائی باقی شعبوں کی تعلیم کے مقابلے میں بہت مشکل بھی ہے اور طویل بھی پانچ سال کی اکیڈیمک تعلیم کے بعد ایک سال ہاؤس جاب کل ملا کر چھ سال کی تعلیم کے بعد اگر کوئی مزید آگے نہ پڑھنا چاہے تو دو راستے ہیں یا تو دیہی علاقوں کے ہیلتھ سینٹرز میں تعیناتی یا شہروں کے سرکاری یا پرائیویٹ ہسپتالوں میں بطور میڈیکل آفیسرز کام کریں اور ذیادہ سے ذیادہ پچپن سے ساٹھ ہزار تنخواہ وصول کریں اور ان پیسوں میں نہ جی سکیں نہ مر سکیں اپنی موٹر سائیکلوں میں مہنگا پٹرول ڈلوائیں دوران ڈیوٹی کچھ کھائیں اور ہر طرح کے مریضوں کی پوری مستعدی سے دیکھ بھال کریں لگاتار لمبی لمبی ڈیوٹیاں کریں اور اپنی زندگی اسی کسمپرسی میں گذاریں جب کہ ایک انجینئر چار سالہ تعلیم کے بعد سرکاری ملازمت ملے یا پرائیویٹ ابتدا میں ہی مناسب معاوضہ ملنے لگتا ہے
ڈاکٹر اگر اس حالت سے باہر نکلنا چاہیں تو انہیں چار سال کی بطور میڈیکل آفیسر ٹریننگ کے بعد ایک امتحان سے گذر کر اگلا درجہ حاصل کرنا ہوتا ہے تنخواہ یہاں بھی اتنی نہیں ہوتی کہ اچھی زندگی گذار سکیں اس کے لئے ان کے پاس دو راستے ہوتے ہیں یا تو اپنے آپ کو مشین بنا لیں اور سرکاری نوکری کے بعد پرائیویٹ ہسپتالوں میں گھنٹوں کے حساب سے اپنا وقت تقسیم کرتے ہوئے آدھی رات کو گھروں میں لوٹیں یا پھر غیر ملکوں کے کڑے امتحان پاس کرکے پیسہ کمانے ملک سے باہر چلے جائیں تاکہ اپنے بچوں کو اچھی زندگی دے سکیں اور ذیادہ تر ڈاکٹر یہی کرتے ہیں جو ملک میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں وہ کام کے دباؤ کی وجہ سے بہت جلد تھک جاتے ہیں لیکن مجبوراً کام کرنا پڑتا ہے
ان کے مقابلے میں ججوں بیوروکریسی اور بڑی بڑی کمپنیوں اور محکموں کے سربراہوں کو لاکھوں کے معاوضے اور اتنی ہی سہولتیں دی جاتی ہیں یہ بے انصافی نہیں تو کیا ہے ؟
اتنی محنت اور جان فشانی کے باوجود جس طبقے کے ساتھ اتنی بے انصافی ہورہی ہو وہ اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے کیا کرے کہا جاتا ہے کہ جج اور ڈاکٹر پر انسانی زندگی کی ذمہ داری ہوتی ہے ان دو شعبوں کے لوگوں کا براہ راست واسطہ انسانی جانوں سے ہوتا ہے انہیں اپنی ضروریات زندگی سے بے فکر ہونا چاہئیے تا کہ یہ پوری توجہ سے مقدمات کا فیصلہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق کریں اور ڈاکٹر ہیں تو پوری دلجمعی سے مریضوں کا علاج کرسکیں اس صورت میں تو دونوں کو ایک جتنا معاوضہ دیا جانا چاہئیے مگر اس لحاظ سے ان میں بعد المشرقین ہے انسانی جانوں سے تعلق رکھنے والے دونوں شعبوں کے درمیان اتنا فرق !
میرا یقین ہے کہ بیمار اور سسکتی انسانیت کا علاج کرنے والوں کو بھی ججوں اور بیوروکریسی کے اعلی عہدے داروں کے برابر تنخواہوں اور مراعات کا حق دار سمجھا جائے تو نہ تو یہ بیرون ملک اڑان بھریں اور نہ ہی پرائیویٹ پریکٹس میں مریضوں کی جیبیں خالی کریں
یہاں ایک ہسپتال پی کے ایل آئی نے ڈاکٹروں کو مناسب معاوضے دے کر امریکہ اور یورپ سے واپس بلایا تھا مگر ایک جج کو یہ گوارہ نہ ہوا اس نے اس ہسپتال کا وہ حال کیا کہ بے چارے ڈاکٹر دوبارہ واپس چلے گئے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply