مٹی کے پُتلے’مَنُو بھائی’/شکور پٹھان

” اوئے ہوئے ہوئے! ابے یہ زینت امان کیا کررہی ہے؟”۔۔۔۔منو بھائی کی آنکھ دوربین سے چپکی ہوئی تھی۔
“کیا کر رہی ہے؟ ” نواب کا ہاتھ بے تابانہ دوربین کی طرف بڑھا۔
” لے دیکھ لے” منو بھائی نے دوربین نواب کی طرف بڑھائی۔
نواب دوربین سے آنکھ لگائے سامنے نجانے کیا ڈھونڈ رہا تھا۔
یار وہ تو کچھ بھی نہیں کر رہی !
ابے کچھ تو کر رہی ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے۔
وہ تو سنجے خان سے بات کر رہی پے۔
تو ابے تو کیا سمجھا ڈانس کر رہی ہے؟
یہ تھے ہمارے منو بھائی۔
ہم شارجہ اسٹیڈیم میں بیٹھے کرکٹ میچ دیکھ رہے تھے۔ وی آئی پی اسٹینڈ میں بالی ووڈ کے فلمی ستارے، سابق کرکٹرز، دوبئی کے بڑے بڑے کاروباروں کے مالکان اور سٹہ باز بیٹھے ہوئے تھے۔
منو بھائی ایسے ہی چٹکلے چھوڑا کرتے تھے۔
ایک رات جب دوبئی میں دیرہ کی جانب کریک پر جہاں مال بردار کشتیاں کھڑی رہتی ہیں اور کراچی، بمبئی، بندر عباس اور جبوتی وغیرہ کیلئے کشتیوں پر مال لادا جاتا ہے، ہم ڈوریاں ڈالے مچھلیاں پکڑ رہے تھے۔ مجھے مچھلی پکڑنا نہیں آتی تھی لیکن میں بھی ایک ڈور ڈالے بیٹھا تھا۔ بہت دیر تک انگلی پر کوئی جنبش نہیں ہوئی تو میں نے ڈور کو ہلکا سا اپنی جانب کھینچنا چاہا۔ لیکن وہ تو سخت تنی ہوئی تھی۔ ذرا اور زور لگایا تو ڈور بالکل ہی تن گئی۔
یار منو بھائی ! یہ ڈور تو واپس ہی نہیں آرہی ؟
ہائیں!! منو بھائی نے پان سے بھرے ہوئے کلوں کے درمیان سے کہا۔
بابو بھائی ، کوئی کوئی مچھلی کانٹے کو لیکر بیٹھ جاتی ہے۔ ” منو بھائی نے بتایا۔
” یار منو بھائی یہ مچھلی ہے یا وہیل مچھلی۔ یہ ڈور تو ہل کے نہیں دے رہی۔”
منو بھائی نے اپنی ڈور کا ڈبہ کریک کی ریلنگ سے اٹکایا اور آکر میری ڈور کھینچی۔
” اوں ہوں ! ” منو بھائی کے پانوں سے بھرے گال پھڑ پھڑائے۔
یار بابو بھائی تم بھی ایک ہی چیز ہو
کیا ہوا منو بھائی۔
اماں یار تمہارا کانٹا جھاڑی میں اٹکا ہوا ہے۔
ھم گھر پہنچ کر مچھلیاں رات کے رات ہی تلتے کہ انہیں رکھنے کا انتظام نہ تھا اور نہ دن میں کوئی گھر پر ہوتا جو مچھلی پکاتا۔ منؤ بھائی گھر پہنچتے ہی مچھلی صاف کر، مسالہ لگا فورا تلنے بیٹھ جاتے۔ تازہ تلی ہوئی مچھلی، صبح کے ڈھائی تین بجے عجیب ہی مزہ دیتی۔
منو بھائی یہ مچھلی خود کبھی نہیں کھاتے۔ بس پکڑنے کے شوقین تھے۔
یہ سارے دوست نواب کے گھر کے نیچے بنے احاطہ میں پلائی ووڈ اور ٹین کی چادروں کی بنی کھولیوں میں سے ایک میں رہتے تھے۔ یہ ایک عجیب دنیا تھی اور یہاں کا بندو بست بھی عجیب تھا۔ اس احاطے میں تین الگ الگ کھولیاں تھیں جن میں پاکستانی اور ہندوستانی مزدور اور کاریگر رہتے تھے۔ ان میں بہت سے غیر قانونی تھے اور کئی تھے جو بے روزگار تھے۔
میں جو ایک فلیٹ میں تین اور لوگوں کے ساتھ رہتا تھا جن میں سے ایک بینک میں، دوسرا انشورنس کمپنی اور تیسرا ایک مقامی اخبار میں کام کرتا تھا۔ ہم کرائے، بجلی پانی کے بل اور کھانے کے اخراجات میں حصہ دار تھے۔ بینکر صاحب سختی سے ہر ایک چیز کا حساب کتاب رکھتے اور مہینے شروع ہوتے ہی سب کے ذمے واجب الادا رقم سے آگاہ کرتے۔ کھانا پکانے کی بھی باریاں طے تھیں اور اس معاملے میں کوئی عذر نہیں سنا جاتا۔ میرے تینوں ساتھی شادی شدہ اور مجھ سے عمر میں خاصے بڑے تھے۔ گھر پہنچ کر تینوں پھر باہر نہیں جاتے۔ میرا معاملہ البتہ دوسرا تھا۔ میرے بے شمار دوست تھے اور میرا زیادہ وقت گھر سے باہر گذرتا۔ ایک دن دفترمیں بہت دیر ہوگئی اور اس دن کھانا پکانے کی باری میری تھی۔ گھر پہنچا تو دو سب سے سینئیر صاحبان کے منہ بنے ہوئے تھے۔ میں نے باہر سے کھانا منگوانے کی پیشکش کی تو اور بھڑک اٹھے۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ جیسے تیسے کھانا بنا کر انہیں پیش کردیا۔ لیکن اس کے اگلے دن سے میں نے انہیں بتا دیا کہ میں کھانا ان کے ساتھ نہیں کھاؤں گا۔
لیکن یہ جو نواب کے گھر کے نیچے والے احاطے میں رہتے تھے، جن میں سے بہت سے غیر قانونی طور پر رہ رہے تھے اور کئی تھے جو بےروزگار تھے، یہ عجیب ہی لوگ تھے۔ انہیں کبھی حساب کتاب کرتے نہیں دیکھا۔ بے روزگار ساتھیوں کی فکر تو کرتے تھے لیکن ان سے کبھی کوئی سوال نہیں کرتا۔ نہ جانے یہ سارا بند وبست کیسے چلتا تھا۔ اور اپنی تمام تر مصیبتوں، فکروں اور پریشانیوں کے باوجود یہ سارے اپنے حال میں مگن رہتے، کمرے میں ہر وقت ہنسی مذاق اور ہلا گلا چلتا رہتا ۔ تاش کی بازی جمی ہوتی۔ کوئی اور دوست باہر سے آتا تو پہلا سوال ہوتا “چائےپئے گا؟”. سگریٹ کے پیکٹ کھلے ہوتے اور کوئی کسی کی اجازت نہ لیتا۔ یہ سارے کے سارے پھٹے حالوں اور پھٹی جیبوں والے دل کے بادشاہ تھے۔ من و تو کا کوئی چکر ہی نہیں تھا۔ سارے ایک سے دُکھی اور ایک سے مصیبت زدہ تھے۔ کسی کو اچھا کام مل جاتا، ترقی ہوجاتی، یا کسی کا ویزے وغیرہ کا مسئلہ حل ہوجاتا تو سارے ایسے خوش ہوتے جیسے یہ سب کچھ ان کے ساتھ ہوا ہے۔
میں زندگی کے یہ دو رخ اور یہ دو طرح کی دنیائیں دیکھتا چلا آرہا تھا اور زندگی مجھے بہت کچھ سکھا رہی تھی۔ ایک وہ زندگی تھی کہ جہاں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ناشکری تھی، شکائتیں تھیں بد گمانیاں تھی اور ایک وہ د نیا تھی کہ جہاں ہر طرح سے تہی د ست لیکن خوش باش اور بے غرض اور پر خلوص ، اپنے حال میں مست اور دوسروں کی خوشی میں خوش لوگ رہتے تھے۔
اور اسی کھولی میں منو بھائی بھی رہتے تھے۔ منو بھائی آرٹسٹ تھے اور ایک نیون سائن بنانے والی دکان پر کام کرتے تھے۔ پختہ سیاہ رنگ، بھاری تن و توش پان کے رسیا منو بھائی یاروں کے یار تھے۔ سارے جہاں کا درد اپنے جگر میں لئے پھرتے۔ جب دیکھو کسی نہ کسی دوست کے کسی مسئلے کیلئے بھاگ دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔
” ابے کل وہاں چلا جائیو، وقت پر پہنچ جائیو۔۔۔میں نے بات کی ہوئی ہے۔۔ اللہ نے چاہا تو تیرا کام ہوجائے گا۔”.
یہ کھولی یار دوستوں کا اڈہ تھی۔ میرا سارا وقت یہاں یا اس احاطے کے باہر نایف روڈ جو دیرہ دبئی کی مصروف ترین سڑک تھی، کے کنارے بنے دکانوں کے تھڑوں پر بنی ہماری چوپال پر گذرتا۔ چار چھ لڑکے ہمیشہ یہاں ڈیرہ جمائے بیٹھے رہتے۔ ہر تھوڑی دیر بعد کوئی نہ کوئی اپنی ڈیوٹی ختم کرکے ، گھر جاتے ہوئے یہاں سے گذرتے ہوئے کچھ دیر ٹھہر کر، گپ شپ کرتا، سامنے ملباری کے ہوٹل سے چائے آتی رہتی، ایک کے بعد دوسرا سگریٹ کا پیکٹ ختم ہوتا۔ ہم سارے زیادہ تر کرکٹ کے شوقین تھے۔ اکثر اسی کی بات ہورہی ہوتی۔ یہ کرکٹ ہی تھی جس نے ہم کراچی والوں کو پنجابیوں اور پٹھانوں سے جوڑا ہوا تھا۔ شارجہ میں میچ ہوتے تو سب ملکر میچ دیکھنے جاتے اور ہمارا اتنا بڑا گروپ دیکھ کر قریب بیٹھے ہوئے انڈینز وہاں سے کھسک جاتے۔ خیر یہ ایک اور ہی کہانی ہے جو آپ کو پھر کبھی سناؤں گا۔
لڑکے جب کام سے گھر پہنچتے تو اکثر و بیشتر کھانا تیار ملتا۔ منو بھائی کی دکان قریب ہی تھی اور وہ جب جی چاہتا گھر آکر جھانک جاتے۔ دکان کا بھی کوئی وقت نہیں تھا، رات گئے تک کام چلتا رہتا۔ منو بھائی کبھی گھر کبھی دکان پر نظر آتے۔
رمضان میں لڑکے کام سے آکر رات کی نیند پوری کرکے، منو بھائی کی آواز پر اٹھتے” ابے اٹھ جاؤ بے، روزہ کھلنے کا ٹیم ہوریا ہے”. ساتھ ہی ناک میں پکوڑوں اور روح افزا کی ملی جلی خوشبو آتی کہ لونڈوں کے اٹھنے سے پہلے ہی منو بھائی پکوڑے تل، شربت بنا، اپنا بغیر پانوں والا سوکھا سا منہ لئے بیٹھے ہوتے۔ جن کلوں میں ہمیشہ پان دبے ہوتے وہ اس سرخی کے بغیر بڑے عجیب لگتے۔
تراویح سے لیکر سحری تک پھڑ جمی ہوتی۔ سگریٹ چائے کے دور اور ایک دوسرے کی کھنچائی چلتی رہتی۔ سحری سے پہلے منو بھائی سحری پکا کر اور دسترخوان بچھا دیتے۔ کھانے کے بعد چائے کا دور چلتا اور ایک بحث چلتی جس کا مجھے آج تک نتیجہ نہیں ملا ، وہ یہ کہ رمضان کے اوقات کے کلنڈروں میں فجر کی آذان سے تقریباً دس منٹ پہلے کا ایک وقت بھی دیا جاتا جسے “امساک” کہتے ہیں۔ سگریٹ نہ پینے والوں کا خیال تھا کہ اس وقت کھانا پینا بند کر کے نیت کر لینی چاہئیے۔ سگریٹ کے شوقین کی رائے تھی کہ کرانچی میں اذان کے وقت تک کھایا پیا جاتا ہے یعنی ایک اور سگریٹ کا وقت اب بھی باقی ہے۔
یس سب چلتا اور ساتھ منو بھائی کی ڈانٹ ڈپٹ بھی چلتی رہتی ” ابے جلدی کرو بے، نماز کا وقت نکل ریا ہے” لڑکے نماز کیلئے نکل جاتے، خود منو بھائی کو کبھی نماز کیلئے آتے جاتے نہیں دیکھا۔ نہ کبھی کسی نے ان سے پوچھا۔
عید کے دن میں نماز سے لوٹتے ہوئے اسی ڈیرے پر پہنچتا، دوستوں سے گلے ملتا، منو بھائی کی بنائی ہوئی سویّاں کھاتا دوستوں سے گپ شپ کرکے، اپنے رشتہ داروں سے ملنے چلا جاتا جو بڑے عالیشان فلیٹوں میں رہتے۔ وہ کھانے کیلئے رکنے کا اصرار کرتے لیکن میرا جی تو وہیں اٹکا ہوتا جہاں بالے، نواب، راجا اور دوسرے دوست اور منو بھائی ہوتے۔
اور جیسا میں نے بتایا کہ منو بھائی سارے جہاں کی فکرلیئے ، کلوں میں پان دبائے جگالی کرتے اور لطیفے داغتے رہتے۔
جمعرات کا دن تھا اس دن میری چھٹی ہوتی تھی، باقی یار لوگ کام پر ہوتے۔ نایف روڈ سے گذرتے ہوئے سوچا کھولی میں جھانکتے چلو۔ دیکھا راجہ پلنگ پہ گم سم بیٹھا ہے، منو بھائی چولھے پر جھکے دیگی میں چمچ ہلا رہے ہیں۔
” ابے کیوں منہ لٹکائے بیٹھا ہے، کچھ تو بتا” ۔ منو بھائی راجہ کے برابر آ بیٹھے۔ راجہ بولا تو اس کی آواز رندھی ہوئی تھی جیسے گلے میں کچھ پھنسا ہوا ہے۔ پتہ چلا کہ اس کی چھوٹی بہن کا رشتہ پکا ہوگیا ہے اور شادی کی تاریخ بھی طے ہوگئی ہے۔ راجا بڑی مشکلوں سے حال ہی میں کام پر لگا تھا اور نہ تو اسے چھٹی ملتی نہ اس ہے پاس جانے کا کرایہ تھا، بہن کی شادی کیلئے کچھ بھیجنا تو بہت دور کی بات تھی۔ منو بھائی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو راجا ان کے سینے سے لگ گیا، نجانے کب سے دریا کو روک رکھا تھا۔ موتیوں کی جھڑی بکھری تو منو بھائی کی قمیص تر ہوتی چلی گئی۔
” چلا جائیو بے، ضرور چلا جائیو۔ اوپر والے نے چاہا تو اپنی بہن بڑی شان سے رخصت ہوگی۔ شاباش ، اٹھ جا، منہ دھو لے، ابے روتے نہیں ہیں۔ ”
منو بھائی نے نجانے کہاں سے راجہ کیلئے پیسوں کا بند وبست کیا، راجہ کو چھٹی تو نہ ملی لیکن اس کی بہن کے دھیج کیلئے معقول رقم کا انتظام ہوگیا تھا۔ اس کے دل کا بوجھ کسی حد تک کم ہوگیا۔ دردمند مل جائے تو درد بھی محسوس نہیں ہوتا۔ سارے دوست راجا کے ساتھ تھے اور سب کو بہن کی رخصتی کی یکساں فکر تھی۔
کراچی کی باتیں ہوں تو منو بھائی کا چہکنا دیکھنے لائق ہوتا تھا۔ رنچھور لائن، کھارادر، کیماڑی، گُرو مندر نہ جانے کہاں کہاں کے قصے سناتے۔ کھانے پینے کی کونسی چیز کہاں ملے گی، کونسا حکیم اور کونسا ڈاکٹر کہاں بیٹھتا ہے اور ایسے ہی کئی باتیں، کرانچی سے زیادہ خوبصورت شہر منو بھائی کے نزدیک دنیا میں کہیں نہیں تھا۔ یاد نہیں کہ منو بھائی کوکس نے اور کب چھٹی جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ ہر کوئی اپنے آپ میں مگن تھا کسی کو کبھی اس کا خیال ہی نہیں رہا نہ کسی نے کبھی پوچھا۔
اور اس دن جب میں وہاں پہنچا تو کمرے میں عجیب سا سناٹا چھا یا ہوا تھا۔ بالا، راجا، نواب، بابا اور منو بھائی سب موجود تھے۔ منو بھائی مجرموں کی طرح گھٹنوں میں سر دئیے بیٹھے تھے۔ باقی سب چپ چاپ بیٹھے جیسے کسی دوسرے کے بولنے کے منتظر تھے۔ میں سوالیہ نظروں سے ایک ایک کو تکتا رہا۔ نجانے کس نے اشارے سے مجھے منو بھائی کے برابر پڑے ہوئے ایک خط اور لفافے کی طرف اشارہ کیا۔ لفافہ کسی سریتا منوہر لال کی طرف سے منوہر لال کیلئےتھا۔ میں نے سوالیہ نظروں سے سب کے چہروں پر دیکھا۔
نواب نے تقریباً سرگوشی میں بتایا کہ یہ منو بھائی کیلئے ہے۔ یہ سب تو بعد میں پتہ چلا کہ منو بھائی کا اصل نام منوہر لال ہے۔ پینسٹھ کی جنگ کے بعد محلے والوں نے پریشان کیا تو ان کے ابا نے خاموشی سے اپنے گھر والوں کو لیا اور نہ جانے کیسے پہلے کاٹھیا واڑ اور وہاں سے راجستھان پہنچے، جو ان کا آبائی علاقہ تھا۔ جے پور میں آٹھ جماعت تک پڑھانے کے بعد انکے باپ نے انہیں پینٹنگ کا کام سیکھنے پر لگا دیا۔ ان کے ہاں بچپن میں شادی کا رواج تھا۔ بہت کم عمری میں شادی کرادی۔ گھر کا خرچ پورا کرنے کیلئے منو بھائی بمبئی چلے آئے کہ یہاں کام بہت ملتا تھا اور ایک دن دوبئی کی طرف نکل لئے۔ یہاں آکر کچھ ایسے چکروں میں پڑگئے کہ واپس جانا مشکل ہوگیا۔ وہ منو بھائی جنہیں سب کی لگی رہتی تھی، خود ان کے ساتھ کیا کچھ تھا ہم دوستوں کو اس کی بھنک بھی نہ لگنے دی۔ انہیں کچھ یاد تھا تو کراچی کی گلیاں یاد تھیں۔ ہندوستان سے میچ ہوتا تومنو بھائی پاکستانی ٹیم کیلئے گلے پھاڑنے والوں میں سب سے آگے ہوتے۔ انڈینز کی شان میں جو گلفشانیاں وہ کرتے وہ انہی کا خاصا تھی۔ اور تو اور ہمیں آج ہی پتہ چلا کہ ان کا نام منوہر لال ہےُ۔
بالا، نواب، راجا ، قمر، بابا سب نجانے کن خیالوں میں گم تھے، منو بھائی یوں سر جھکائے بیٹھے تھے جیسے آج ان کی چوری پکڑی گئی اور اب سزا کے منتظر ہیں۔
یکایک بالا اٹھا اور منو بھائی کے کاندھوں پر ہاتھ رکھا۔ منو بھائی مشین کی طرح اٹھ کھڑے ہوئے جیسے فیصلہ سننے کیلئے خود کو تیار کر رہے ہوں۔
بالا کی ٹھہری ہوئی اور صاف آواز ابھری۔۔۔” دیکھیں منو بھائی!!! آپ منوہر ہیں یا منور۔۔ہمارے لیئے صرف منو بھائی ہیں۔ ” اور ساتھ ہی ان سے لپٹ گیا۔ منو بھائی نجانے کون سا طوفان سینے میں دبائے بیٹھے تھے کہ بچوں کی طرح ہچکیاں لینے لگے۔ بالے نے آہستگی سے انہیں چارپائی پر بٹھایا۔ نواب نے آگے بڑھ کرا ن کے گلے میں ہاتھ ڈال دیا۔ راجہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ہاتھ چومنے لگا۔ مجھے سینے میں کچھ گھٹتا ہوا سا محسوس ہوا۔۔میں کھولی سے باہر آگیا۔
منو بھائی کی بیوی کا خط تھا جو بیمار تھی، لیکن منو بھائی کچھ ایسے پھنسے ہوئے تھے کہ جا نہیں سکتے تھے۔ لیکن اب ان کے پاس وقت نہیں تھا۔ چاہے سزا ہو یا کچھ بھی ہو۔ وہ پولیس کے پاس پیش ہوئے۔ نہ جانے کون سے قانون کے تحت ہوا، یا امیگریشن افسر کو ان پر رحم آگیاکہ صرف ایک دن کا جرمانہ یعنی سو درہم کے ساتھ انہیں دوبئی چھوڑنے کی اجازت مل گئی، شرط صرف یہ تھی کہ کوئی اپنا پاسپورٹ بطور ضمانت رکھوائے گا اور جب وہ دوبئی سے نکل جائیں گے تو پاسپورٹ واپس مل جائے گا۔ کسی دوست نے پاسپورٹ رکھو ایا اور منو بھائی چلے گئے۔
میری شادی ہوگئی۔ میں دوبئی کے ایک بہتر علاقے میں چلا گیا۔ فیملی کی وجہ سے نئے دوست بن گئے، بڑی محفلوں میں اٹھنا بیٹھنا ہونے لگا۔ یار دوستوں کی کھولی میں اب بھلا میں کیسے بیٹھتا۔ کبھی کبھار بالے اور نواب سے مل لیتا۔۔۔ کچھ دن منو بھائی کی خبر ملتی رہی پھر میں اپنی دنیا میں مگن ہوگیا اور وقت کی دھند میں سب کچھ گم ہوتا چلا گیا۔

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply