وفا کے تذکرے بس رہ گئے کتابوں میں
ستم تو یہ کہ کتابوں کا دور بھی نہ رہا
وطن عزیز میں ہر سو مہنگائی کا دور دورہ ہے عوام و خواص ضروریات زندگی تک محدود ہو چکے ہیں ایسے میں انسان کا کتاب سے رشتہ کمزور ہوتا چلا جا رہا ہے دوسری جانب انٹرنیٹ نے رفتہ رفتہ کتابوں کی جگہ لے لی ہے موبائل اور کمپیوٹر کے استعمال سے کتابوں کی اہمیت دن بدن کم ہوتی جارہی ہے۔
پچھلے دنوں مجھے ایک ردی خریدنے والے کباڑیے کی ریڑی پر بہت سی پرانی کتب نظر آئیں مجھے بڑی حیرت ہوئی ان کتب میں بہت سی نایاب اور عمدہ کتب شامل تھیں۔ کئی شعری مجموعے، نثر نگاری، سفر نامے، معلوماتی تحریریں، بچوں کی کہانیوں کی کتب اور طلبہ کے کورس دیکھ کر بے حد دکھ ہوا کہ ہمارا ادبی اثاثہ اب ردی کے بھاؤ بِک رہا ہے اور مزید دکھ یہ دیکھ کر ہوا کہ یہ کتب ہمارے شاعر اور ادیب حضرات نے اپنے قریبی دوستوں کو ہدیہ یا تحفہ دی ہوئی ہوتی ہیں، ان پر ان کے “بصد خلوص” کے لکھے لفظ دینے والوں کی محبت ظاہر کر رہے ہوتے ہیں جنہیں کھول کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا جاتا ، بیشتر صفحات آپس میں جڑے ہوتے ہیں کہا جاتا ہے کہ اگر تمھیں کوئی چیز چھپانی ہو تو کتابوں میں رکھ دینا، یہ نسل اب کتاب نہیں کھولتی اس لیے محفوظ رہے گی۔
اس سے قبل لاہور مال روڈ پر اتوار کے دن پرانی کتابوں کو فٹ پاتھ پر بکتے دیکھ چکا ہوں میں جب بھی لاہور جاتا ہوں وہاں سے کوئی نا کوئی نایاب کتاب کوڑی کے بھاؤ ہاتھ لگ ہی جاتی ہے۔ اگر آپ کتابوں کے شوقین ہیں تو آپکو سڑک کنارے ایسی ایسی کئی زمینی لائبریریاں لاہور مال روڈ اور انارکلی کے فٹ پاتھوں پر ہر اتوار باآسانی مل سکتی ہیں جہاں سے مفت برابر کتاب لیکر اسکے اوراق پلٹتے ہوئے کاغذ کی خوشبو سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی مطالعہ کی حس کو تسکین بھی پہنچاسکتے ہیں۔
اس مرتبہ اپنے شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہاں گیا تو حیرت ہوئی کہ پہلے کی طرح وہاں لوگوں کی بھیڑ اور رش نہ تھا ،شاید ہم چند بوڑھے لوگ دیکھ رہے تھے پوچھنے پر پتہ چلا کہ پرانی کتب فروشی کا کاروبار اس وقت بری طرح متاثر ہو چکا ہے ،اس کی وجہ مہنگائی اور حکومتی عدم توجہی کے ساتھ ساتھ موبائل فون اور انٹرنیٹ ہیں اور یہ سمارٹ فون کی ہی کارستانی ہے کہ پرانی کتابوں کے اتوار بازار بھی اب خریداروں سے خالی ہوتے جارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب یہ کتب ردی کے بھاؤ بک رہی ہیں لیکن دوسری جانب بڑے بڑے بک فیر منعقد ہورہے ہیں جہاں نہایت مہنگے داموں کتب شاید اس لیے خریدی جاتی ہیں کہ انہیں گھروں کے شیلف میں سجا کر اپنے آپ کو پڑھا لکھا ثابت کیا جا سکے۔
کتابوں کے مطالعہ کا شوق دم تور رہا ہے۔ اکثر لوگ نے اخبار اور رسائل پڑھنے چھوڑ دیے ہیں حالانکہ جو کتاب پڑھنے کا فائدہ ہے وہ آن لائن پڑھنے سے کبھی حاصل نہیں ہو سکتا لیکن نئی نسل شارٹ کٹ کی عادی ہو چکی ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں پچھتر فیصد طلبہ نے اپنے کورس کے علاوہ کوئی کتاب نہیں پڑھی اور صرف پانچ فیصد نوجوان ادبی دلچسپی رکھتے ہیں لیکن وہ بھی اپنا شوق انٹرنیٹ سے پورا کر لیتے ہیں۔ مشہور دانشور گوئٹے نے کہا تھا “بہت سے لوگوں کو یہ بات معلوم نہیں ہےکہ مطالعہ سیکھنا کتنا مشکل اور وقت طلب کام ہے میں نے اپنے اسی سال لگا دئیے لیکن پھر بھی یہ نہیں کہہ سکتا ہوں کہ میں صیح سمت کی جانب ہوں”۔
کہتے ہیں کہ مصر کے ایک بازار میں ایک کتب فروش اکثر اپنی دوکان کھلی چھوڑ کر چلا جاتا تھا ایک روز کسی نے پوچھا کہ میاں تجھے کتب چوری ہونے کا ڈر نہیں ہوتا؟ اس نے ہنس کر کہا بھائی چور کبھی مطالعہ نہیں کرتا اور جو مطالعہ کرتا ہے وہ کبھی چوری نہیں کرتا، کاش چوروں کو مطالعہ کا شوق ہوجائے۔
مجھے ایک دوست نے کہا تم اردو میں یہ طویل کالم کیوں لکھتے ہو؟ اردو میں یہ لکھنا، اور اردو میں بات کرنا، آپ کو رسماً فرسودہ اور پرانے دور سے تعلق رکھنے والا ظاہر کرتا ہے تو میں نے اسے جواب دیا اس لیے نہیں کہ میں انگریزی میں کالم نہیں لکھ سکتا بلکہ اس لیے لکھتا ہوں کہ مجھے لکھنے سے پہلے پڑھنا پڑتا ہے اور مجھے اپنی قومی زبان پر فخر ہے کوئی پڑھے یا نہ پڑھے میں لکھتا رہوں گا کیونکہ ایک چینی کہاوت ہے کہ “جب آدمی دس کتابیں پڑھتا ہے تو وہ دس ہزار میل کا سفر کرلیتا ہے “اور میں سمجھتا ہوں کہ میرے کالم میرے دوستوں اور ذہنی پسماندگی کا شکار لوگ آپ سے اس چیز کا انگریزی زبان میں اظہار بھی کرتے ہیں”اٹس ویری ڈیفیکل فار می تو ریڈ یور لنتھی اردو کالمز” اور وہی بات انگریزی زبان اور کسی انگریز لکھاری کا حوالہ دے کے لکھ دیں تو مستند اور معیاری مانتے اور اکثر انگریزوں کے کوٹس وغیرہ شیئر کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے۔
انگریزی زبان کی اہمیت سے بالکل انکار نہیں ہے۔۔ بہت ضروری ہے، انگلش لٹریچر، ایک بہترین لٹریچر ہے۔۔ پڑھنے کو بہت کچھ ہے اس میں، خوب صورت۔۔ لیکن “انگریزی زبان قابلیت کا معیار نہیں ہے” کتابیں پڑھیں، چاہے جس زبان میں بھی ہوں۔۔ ہر ایک کتاب سے آپ بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ ایک ا نگریزی کہاوت ہے کہ اگر آپ دنیا دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کا بہترین ذریعہ کتب بینی ہی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں