کئی احباب سائے کو برائی اور تاریکی کا مجسم سمجھتے ہیں اور اس سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں ، یہ بھیانک غلطی ہے، سایہ کوئی غیر وجود نہیں کہ اسے شر قرار دیتے ہوئے فاصلے پر رکھا جائے، سایہ آپ کے وجود کا قریب ترین حصہ ہے اس سے فرار کی کوشش خود سے دور بھاگنے جیسی ہے۔
سایہ کسی دم کی صورت قدم بہ قدم ہمارے ساتھ ہے حتیٰ کہ اس وقت بھی جب بادل چھائے ہوں ، یہ ہماری پیٹھ پیچھے ساتھ ساتھ چل رہا ہے، پیٹھ پیچھے ہونے کی وجہ سے اسے دیکھنا بھی ممکن نہیں ، لیکن یہ ہمارا عین عکس ہے۔
کسی مجرم کا سایہ نہایت نفیس اور ہمدرد ہو سکتا ہے، ایسے ہی کسی انتہائی شرمیلے اور سادہ انسان کا سایہ بھیانک اور خطرناک ہو سکتا ہے۔ دوسروں کو پسند آنے کی خواہش میں فرد جب اپنے حقیقی جزبات اور خیالات کو چھپاتا چلا جائے تو گویا کہ اندرونی اطمینان و سکون کو ختم کرنے کا نسخہ تیار کیا جا رہا ہے۔ نتیجے میں یہ اضطراب ، غضب اور چڑچڑاپن کسی جادوئی چھڑی سے بھگائے تو نہیں جا سکتے، یہ ایک جھنڈ کی صورت ہمارے سائے میں جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں، سایہ بھی بیوقوف نہیں کہ اس توانائی کو اپنے اندر سنبھال کر رکھے، وہ وقتاً فوقتاً ان جزبات کو باہر کی راہ دکھلاتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی اگر پیمانہ چھلک جائے تو یہ جزبات کسی دوسرے شخص پر گرج چمک کے ساتھ برسائے جاتے ہیں ۔
صرف خیر ہی شخصیت کا جزو نہیں، شر کا حصہ بھی اتنا ہی ہے، خیر اور شر مل کر ایک مکمل شخصیت تعمیر کرتے ہیں، شر سے انکار کی کوشش کی گئی تو سایہ پوری شخصیت پہ یوں حاوی ہو سکتا ہے کہ فرد سر کے بل آن گرے۔ جھٹلائے گئے جزبات متحد ہو کر شخصیت کے کونے کھدروں میں ایک علیحدہ زندگی جینا شروع کر دیتے ہیں، فرد اگر ان دھتکارے جزبات کے ساتھ مسلسل بے رغبتی یا کمینگی برتتا رہے تو ایک دن یہ شعور پہ غالب آکر اپنا انتقام ضرور لیتے ہیں، ایسے انتقام سے پناہ مانگنی چاہئے کہ فرد کیلئے اس میں صرف بربادی ہے۔
کارل یونگ سے پوچھا گیا کہ انسان اپنے سائے کو کیسے تلاش کرسکتا ہے؟
انہوں نے جواب دیا کہ تم اس اژدھے کو کیسے تلاش کر سکتے ہو جس نے تمہیں نگل لیا ہو ؟
واقعہ یہ ہے کہ ایسے اعلیٰ شعور افراد بہت کم ہیں جو اپنے سائے کو نگلے جانے سے پہلے پہچان لیں، ورنہ زیادہ تر دوسرے لوگ آپ کے سائے کو آپ سے پہلے دیکھ اور محسوس کر لیتے ہیں اور یہ جاننا کہ ” دوسرے جانتے ہیں ” وہ کڑوا گھونٹ ہے جسے پینا آسان نہیں۔
سماجی ضوابط اور اقدار نے فرد کی شخصیت کو سائے اور شعور میں ایسے تقسیم کیا کہ شعور کو مثبت اور سائے کو منفی جزو مان لیا گیا، نتیجے میں ہم اس سائے کو منفی مانتے ہوئے اسے مسلسل جھٹلانے اور دھتکارنے پہ تلے رہتے ہیں، تب تک کہ جب تک یہ ہمیں ہڑپ نہیں کر جاتا، پھر منہ میں انگلی ڈال کر حیران ہوتے ہیں کہ حاجی صاحب تو ایسے آدمی نہ تھے ۔
شجر ممنوعہ کے ساتھ ہی خیر اور شر ہمارا دائمی مقدر ٹھہرا، شخصیت دو حصوں، نوری اور ناری، میں بٹ گئی، سمجھدار قوموں نے اس باریکی کو خوب پہچانا کہ ثقافت اور تہذیب کی مدد سے نور اور نار کو اکٹھے لے کر چلنا ہے، کیونکہ یہی وہ اسلوب ہے جس کی مدد سے امن و امان، ترقی و خوشحالی ، انفرادی اور اجتماعی بھلائی کے ساتھ معاشرے کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے، البتہ ہمارے جیسے الٹوں قدموں چلنے والے نار کو نفرت اور نور کو اپنا اکلوتا وارث جتلانے پہ بضد ہیں حالانکہ ایسا کبھی بھی ممکن نہیں ، ایسی ہر کوشش کا نتیجہ متضاد آئے گا۔
زندگی کی کسی بڑی آزمائش یا بیماری میں پہلی دفعہ فرد کو یہ احساس دامن گیر ہوتا ہے کہ اصل سونا تو وہاں دفن ہے جہاں وہ مسلسل فاتحہ پڑھتا آیا ہے، یہی سایہ ہی دل کا حقیقی ہمسایہ ہے، یہی وجہ ہے کہ کڑی آزمائشوں سے گزرے افراد ہی گرو یا پیر کامل کا درجہ پاتے ہیں ۔
زندگی کا پہلا نصف ہم سائے کو پس پشت ڈالتے ہوئے قبیلے کی آنکھ کا تارا بننے کی کوشش میں گزار دیتے ہیں ، دوسرے نصف میں ہم شعور اور سائے کو یک جان کرنے کی جدوجہد میں تمامیت کی طرف پہلا قدم اٹھاتے ہیں کہ ذہنی بلوغت کی شروعات زندگی کے دوسرے نصف میں ہوتی ہے۔
سماج میں رہتے ہوئے نفسیاتی اعتدال کو ایک پینگ سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے، پینگ کی دائیں طرف کو ہم نوری خصوصیات اور بائیں طرف کو ناری خصوصیات سے تعبیر کر سکتے ہیں، ان دو متضاد خصوصیات میں توازن تب ہی برقرار رہے گا جب ہینگ توازن کے ساتھ آگے اور پیچھے حرکت کر رہی ہوگی، اگر سماج کی خوشنودی کیلئے پینگ کو دائیں طرف جھول دینے کی کوشش کی جائے گی تو یاد رہے کہ واپسی پر یہ پینگ بائیں طرف کو پھسلے گی، یوں ہر وہ چیز ناقص طریقے سے برہنہ ہوگی جسے چھپانے کی کوشش کی گئی یعنی سایہ ایک بھیانک طریقے سے آشکار ہوگا۔ مزاج اور رویہ اچانک بدلیں گے ایسے کہ جس کی کسی کو امید نہ تھی، اور اگر جھول ضرورت سے زیادہ ہوتو اب یہ پینگ آگے پیچھے جانے کی بجائے دائیں اور بائیں جھٹکے لینا شروع کر دے گی، اس اعتدال کے ٹوٹنے کو اضطراب اور ہیجان کہا جاتا ہے ۔
عمومی اکثریت پینگ کے ساتھ آگے پیچھے ہی جھولتی رہتی ہے جو کہ اچھی بات ہے، لیکن تخلیق کاری کیلئے پینگ کا جھول ضروری ہے ورنہ شجر ممنوعہ تک رسائی ممکن نہیں، رسائی کیلئے جونہی پینگ کو جھول دیا جائے گا ، تخلیقیت کے ساتھ بربادی بھی عیاں ہوگی، ایسے میں حیرانی نہ ہونی چاہئے کہ تخلیق کار مے و مینا کا جھکاؤ رکھتے ہیں جبکہ متقی مزاج میں تخلیق کا عنصر نسبتاً کم دیکھا گیا ہے ، کیونکہ جھول کے بغیر تخلیق کے شجر تک ہاتھ نہیں پہنچتا ۔
حرکت میں صرف برکت ہی نہیں، زحمت بھی ہے، تخلیق اور بربادی ساتھ ساتھ ہیں ،روشنی کی تخلیق اندھیرے کے بغیر ممکن نہیں، اسی لئے ہندومت میں تخلیق کا بھگوان براہما اور بربادی کا بھگوان شیوا دائیں بائیں بیٹھے ہیں جن کے درمیان اعتدال کیلئے وشنو موجود ہیں، اشارہ یہی ہے کہ تخلیق کیلئے سائے کو دھتکارنا ممکن نہیں ۔ ہماری منزل کاملیت نہیں بلکہ تمامیت ہونی چاہئے کہ یہی انسانیت کی معراج ہے ۔
سائے کی توانائی شعور سے کہیں زیادہ ہے، اس کا انحصار آپ پر ہے کہ آپ اس توانائی کو کیسے استعمال میں لاتے ہیں، کچھ عجب نہیں کہ طوطا عام طور مہذب الفاظ کی بجائے گالم گلوچ جلد سیکھ جاتا ہے کیونکہ یہ الفاظ آپ کے سائے کی توانائی کے ساتھ طوطے کی سماعت اور ذہن پہ پڑتے ہیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں