وہ جیل سے بھاگنا چاہتا ہے /محمد اسد شاہ

پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کو جماعت سے وابستہ رکھنے کے لیے جس بات کو عمران کی واحد خوبی بنا کر پیش کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ “وہ جیل سے کہیں بھاگا تو نہیں۔” میرے بہت سے صحافی دوست بھی اس حوالے سے بہت متاثر نظر آتے ہیں۔ بلکہ ایک معروف نیوز چینل کے تجزیہ کار نے تو مجھ سے یہ بھی کہا کہ عمران کو منشیات کا عادی بنا کر پیش کیا جاتا تھا، جیل جانے سے یہ تاثر غلط ثابت ہوا۔ کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر میں انھیں کوئی جواب نہیں دے سکتا تھا۔ البتہ میں یہ کہتا تھا کہ دنیا بھر کے تمام قوانین کو روند کر جو لوگ عمران کو جیل میں سرکاری خرچ پر 90 فٹ کا پورا رہائشی “مکان” تعمیر کروا کے، دنیا کی جدید ترین ورزش مشین اور اعلیٰ درجے کا فرنیچر مہیا کر سکتے ہیں، جیل میں روزانہ اس کے پسندیدہ اخبارات کا پلندہ، ٹی وی، قالین اور 30 کے قریب خدمت گار مہیا کر سکتے ہیں، روزانہ اس کی پسند کے مہنگے ترین نجی ریستورانوں سے ناشتہ منگوا کر دے سکتے ہیں، اس کی فرمائش کے مطابق دوپہر اور رات کے کھانوں اور مشروبات کی فراہمی کا حکم دے سکتے ہیں، روزانہ حکماً پچاس پچاس ملاقاتیں کروا سکتے ہیں، سیاست سے نااہل قرار دیئے جانے کے باوجود پوری پارٹی چلانے، ٹکٹوں کی تقسیم اور تمام سیاسی معاملات میں مکمل سہولیات فراہم کرنے کا “حکم” جاری کر سکتے ہیں، دنیا بھر کے قیدیوں کے برعکس اسے اس کی اپنی مرضی کے ملبوسات پہننے کی اجازت دلوا سکتے ہیں، اس لاڈلے ملزم کی فرمائشوں کی پوری فہرست پر جیل انتظامیہ کو اس کے ساتھ “مذاکرات” کرنے کا حکم دے سکتے ہیں، سماعت کے دوران بھری عدالت میں ملزم ہونے کے باوجود اسے صوفے پر بیٹھ کر ناشتہ کرنے، چائے پینے، اور صحافیوں کو انٹرویو دینے کی سہولیات فراہم کر سکتے ہیں، اسے عدالت میں جج کے سامنے ڈپٹی سپرٹینڈنٹ جیل کو ڈانٹنے کی اجازت دے سکتے ہیں  ۔۔ وہی لوگ جیل میں اسے منشیات اور موبائل فونز کیوں فراہم نہیں کرتے ہوں گے؟

میرے ان محترم تجزیہ کار دوست کے پاس میرے اس سوال کا جواب نہیں ہوتا تھا۔ گزشتہ دنوں جب اڈیالہ جیل سے سہولت کاروں کا پورا نیٹ ورک پکڑا گیا تو میرے ان دوست کا سارا وہم خود بخود دور ہو گیا۔ اسی معاملے میں مبشر لقمان صاحب بھی بہت ہوش ربا انکشافات کر چکے ہیں کہ گرفتاری کے وقت کسی ملزم کی جیبوں سے مخصوص سفوف کی پڑیاں برآمد ہوئیں اور کیسے اسے مہنگے غیر ملکی انجکشنز لگا لگا کر نشے کی عادت سے چھٹکارا دلوانے کی کوششیں کی گئیں۔ آئین شکن جنرل ایوب کے پوتے عمر ایوب نے گزشتہ دنوں جب قومی اسمبلی میں عمران کے لیے مزید در مزید رعایات کا مطالبہ کیا تو وفاقی وزیر پروفیسر احسن اقبال نے بہت دبنگ انداز میں انھیں لاجواب کیا۔ پروفیسر صاحب نے جب عمران کو حاصل موجودہ حیرت انگیز مراعات کی طرف ہلکا سا اشارہ کیا اور بتایا کہ دراصل حکومت سے عمران کے لیے مسلسل این آر او مانگا جا رہا ہے تو سنی اتحاد کونسل والوں کے پاس شور مچانے کے سوا کوئی جواب نہ تھا۔ سب سے زبردست جواب البتہ محمد حنیف عباسی صاحب کا تھا جنھوں نے جیل میں ایک لاڈلے قیدی کو کوکین اور منشیات کی فراہمی تک کی بات بھری اسمبلی میں بتا دی۔ اس پر شور مچانے والوں کی بولتی بند ہو گئی۔

جتنی سہولیات، تعیشات اور مراعات عمران کو جیل میں دلوائی گئی ہیں، ان کے ہوتے ہوئے کون بے وقوف ہو گا جو جیل سے نکلنا چاہے گا۔ اتنی مراعات اور عیاشیاں تو کروڑوں پاکستانیوں کو خود اپنے گھروں میں بھی حاصل نہیں۔ لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ موصوف پھر بھی جیل سے بھاگنے کی تگ و دو میں ہیں۔ آئے روز جلسوں اور ریلیوں کی تاریخیں دینا، اسمبلی میں شور شرابا، اور پھر تعلیمی اداروں میں طلبہ کو اکسا کر تحریک بپا کرنے کی سازشیں دراصل حکومت پر دباؤ ڈال کر این آر او لینے کی ہی کوششیں ہیں۔ ایک وزیر اعلیٰ کے منہ سے کھلم کھلا دھمکیاں دلوائی گئیں کہ اگر عمران کو جیل سے نہ نکلنے دیا گیا تو وہ اسلام آباد پر قبضہ کر کے خود عمران کو جیل سے نکالیں گے۔ ہر سماعت پر موصوف نہایت ڈھٹائی کے ساتھ ججز کے سامنے روتے ہیں کہ جیل میں فلاں مسائل ہیں اور فلاں مسائل ہیں۔ کبھی کمرے کی تنگی کا رونا اور کبھی قبض کی شکایت۔ حال آں کہ موصوف کو صرف کمرہ ہی نہیں، پورا رہائشی کمپاونڈ تعمیر کروا کے دلوایا گیا ہے اور وہ بھی فرنشڈ۔ پھر بھی وہ بھاگنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ غیر ملکی سرپرست بھی بہت بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں رائے عامہ بنائی جا رہی ہے، اور قراردادیں منظور کروائی جا رہی ہیں۔

شنید ہے کہ ہمارے ایک محبوب یورپی ملک کی خاتون سفیر بھی تمام سفارتی آداب بالائے طاق رکھ کر دن رات بھاگی پھر رہی ہیں اور پاکستانی اداروں پر دباؤ ڈال رہی ہیں کہ کسی جعلی طریقے سے ہی عمران کو جیل سے نکالیں کیوں کہ وہ ان سفیر صاحبہ کے ملک کی اسٹیبلشمنٹ کا محبوب ہے۔ کیوں؟ کوئی بتا سکتا ہے بھلا؟ کوئی سفیر اپنے ملک اور اسٹیبلشمنٹ کی واضح ہدایات کے بغیر ایسی حرکت نہیں کر سکتا۔

انھی سفیر صاحبہ نے چند ماہ قبل لاہور میں عمران کی حمایت میں کھلم کھلا سیاسی بیان جاری کیا اور پاکستانی سپریم کورٹ پر تنقید بھی کر دی۔ جس کے بعد چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ کے حکم پر سپریم کورٹ نے انھیں خط لکھ کر حقیقت بھی بتائی اور ساتھ یہ بھی یاد دلایا کہ وہ سفیر ہیں اور اپنی حدود میں رہیں۔ اب اسی ملک کی ایک یونیورسٹی کے چانسلر کی نشست پر عمران کو منتخب کروانے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ مقصد وہی کہ کسی طرح عمران کو جیل سے نکلوایا جائے۔ سازش یہ ہے کسی طرح اسے چانسلر بنوایا جائے، پھر عالمی سطح پر مقبولیت کا تاثر دیا جائے، اور پھر یونیورسٹی انتظامیہ، اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور خفیہ ادارے بعض دیگر مخصوص ممالک کے ساتھ مل کر پاکستان پر سفارتی دباؤ ڈالیں کہ عمران کو جیل سے نکالا جائے۔ وہ تو اللّٰہ بھلا کرے، اس یونیورسٹی کے طلباء و طالبات کا، کہ جنھیں تحقیق کی عادت ہے۔ انھوں نے دہشت گردوں کی حمایت سے لے کر توشہ خانہ چوری تک موصوف کی سیاست کا سارا ریکارڈ اٹھا کر یونیورسٹی انتظامیہ کی میز پر رکھ دیا ہے اور پوچھا ہے کہ کیا اب یونیورسٹی کے چانسلر کے امیدوار اس سطح کے لوگ ہوا کریں گے؟ حتیٰ کہ عمران کے اپنے محبوب اخبار نے بھی مجبور ہو کر ایسا لفظ لکھ دیا ہے جو عمران کے سرپرست ممالک کے سارے پروپیگنڈے پر غالب آ گیا ہے۔

julia rana solicitors

جو کہتے تھے “وہ اکیلا ہے”، وہ یاد رکھیں کہ وہ سب ممالک اس کے ساتھ ہیں جو سی پیک کے مخالف ہیں۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply