اے اہل ایمان بس تم گواہ رہنا/زاہد سرفراز

دیکھو اے اولادِ آدم تم میں سے وہ لوگ جو دین کی اصل کو چھوڑ کر بے معنی مباحث میں الجھے رہتے ہیں جو رب کے احکامات کی عجیب و غریب تشریحات کرتے ہیں بے شک وہ ابلیس کے پیروکار اور تمھارے کھلے دشمن ہیں۔

جو لبرلز میں سے بھی ہیں اور تمھارے نام نہاد جدید سکالرز میں سے بھی ،جو تمھارے مولویوں میں سے بھی ہیں اور باطل دین اہل طریقت کے پیروکار بھی پیر فقیر بابے ٹھگ اور مزاروں والے وہ سب جنھوں نے تمھیں مختلف خرافات میں الجھا رکھا ہے، جو تمھیں دین کی اصل کی طرف نہیں آنے دیتے ،ان میں سے ہر ایک فرقے ہر گرو نے اپنا الگ سے ایک دین بنا رکھا ہے جس کی طرف یہ تمھیں بلاتے ہیں ،جن کا رب کے اصل دین سے کوئی تعلق نہیں ہے، بے شک یہ سب راستے گمراہی کے راستے ہیں تم ان سے بچتے رہنا تاکہ تمھیں اپنے مہربان رب کی رحمت حاصل ہو جائے

دین کی اصل کیا ہے، رب کی حاکمیت اسکے رول آف لاء کو قائم کرنا اسکی ملکیت کو تسلیم کرنا ،ارتکاز سرمایہ نہ کرنا اور اس دنیا میں موجود تمام جرائم کے خلاف برسر پیکار ہو جانا۔ یہ ہے اصل دین جس کو تم نے جہالت اور گمراہی کے پردوں میں انسانوں سے کہیں بہت دور چھپا رکھا ہے، یہی وہ راز ہے جس کو پا لینے سے اولاد آدم اپنے باپ آدم کی زمین پر کھوئی ہوئی جنت واپس حاصل کر سکتی ہے۔
اے لوگو کیا تم نے دیکھا نہیں کہ زمین پر اصل جھگڑا کیا ہے کیا یہ انسانی حاکمیت نہیں ہے کیا یہ ملکیت نہیں ہے کیا یہ ارتکاز سرمایہ نہیں ہے جس کے تحفظ کے لیے انسان نے اپنا الگ سے ایک آئین و قانون بنا رکھا ہے یہ وہی ہے جس کی طاقتور طبقات حاکمیت چاہتے ہیں اور تمھیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا ہے، یہ وہی ہے جس کی تشریح اور توثیق کے لیے تمھارا مُلاں دین سے دلیل تراش لاتا ہے کیا یہ آئین و قانون غلاظت کا یہ ڈھیر جس کی تم اطاعت کرتے ہو کیا تمھارے تمام مسائل کا اصل سبب یہی نہیں ہے؟

وہ آئین و قانون جو جرائم کو  سپورٹ کرتا ہے جس کے نزدیک قاتل اور مقتول برابر ہیں اور اگر تم میں سے کوئی قتل ہو جائے تو بار ثبوت بھی قاتل پر نہیں مقتول پر ہوتا ہے۔ مقتول نے یہ ثابت کرنا ہے کہ اسے فلاں شخص نے قتل کیا ،جب تم اس عدالت میں کھڑے ہوتے ہو کیا تمھیں اس سے انصاف ملنے کا یقین ہوتا ہے، نہیں !کیونکہ تمھیں بھی خوب معلوم ہے کہ یہ انصاف کی نہیں دھندہ کرنے کی جگہ ہے، انصاف کے نام پر یہاں محض دھندہ ہوتا ہے، یہاں انصاف صرف اسے ملتا ہے جو اسے خریدنے کی طاقت رکھتا ہے۔

پھر بتاؤ تو سہی تم اسکی اطاعت کیوں کرتے ہو ،تم اس آئین و قانون کے خلاف کیوں کھڑے نہیں ہوتے، تم رب کی حاکمیت اسکی حکمرانی اسکے رول آف لاء کے قیام کی جدو جہد کیوں نہیں کرتے
زمیں و آسماں اس جہاں میں اور اس سے باہر جو بھی کچھ موجود ہے جن و انسان ملائیکہ سمیت کیا یہ سب رب کی ملکیت نہیں ہیں ؟تو پھر زمین پر تمھاری ملکیت کا کیا جواز ہے؟ جو چیزیں رب نے تمھیں محض استعمال کے لیے دی ہیں جن کے تم مالک نہیں پھر تم انکے مالک کیسے بن جاتے ہو؟ رب نے تو تمھیں اس زمین کا منیجر خلیفہ یا منتظم کار بنایا تھا پھر بتاؤ تم رب کی ملکیت میں شراکت کا دعویٰ کیونکر کرسکتے ہو ،جو اصل شرک ہے، تم اسکی طرف توجہ نہیں کرتے مگر تم نے اپنی طرف سے ان گنت نظری شرک بنا رکھے ہیں جن کا کوئی عملی اطلاق ہی ممکن نہیں ہے۔

کیا اصل توحید یہ نہیں کہ اس پوری کائنات کا واحد تنہا مالک صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے ہمارا رب جس نے مکھی کے پَر برابر بھی کسی کو اس میں اپنا شریک نہیں بنایا مگر تم کہاں اس توحید کو مانتے ہو تم تو زمین پر موجود مختلف اشیاء کی ملکیت کے دعویدار ہو جسے درست ثابت کرنے کے لیے تم قانون وراثت اور رب کی طرف سے استعمال میں دی جانے والی چیزوں کو دلیل بنا کر پیش کرتے ہو کہ  دیکھو رب نے تمھیں بھی مالک بنایا ہے، ہر گز نہیں رب نے تمھیں کسی بھی چیز کا مالک نہیں بنایا تمھیں اشیاء کا صرف حق استعمال دیا ہے، جس میں دوسروں کا بھی اس نے حصہ رکھا ہے، جسے تم دینے کو تیار نہیں ہوتے، پاک ہے وہ رب اس شرک سے جو تم کرتے ہو۔

ذرا تصور کرو ایسے سماج کا جس میں کوئی انسان کسی بھی چیز کا مالک نہیں ہو گا بلکہ اسے صرف اشیاء کا حق استعمال حاصل ہو گا وہ خود کو نہیں بلکہ رب کو ہر چیز کا مالک مانے گا جو رب کی ملکیت کا امین ہو گا جسے یہ احساس ہو گا کہ رب کی جو بھی ملکیت بطور امانت اسکے پاس موجود ہے اسکا ایک دن اس سے حساب ہو گا کیا ایسا سماج جہاں رب کی ملکیت اور حاکمیت قائم ہو اسکا رول آف لاء قائم ہو جہاں جرائم کی شرح صفر ہو جائے کیا وہ ایک جنتی سماج نہیں ہوتا کیا ایسا سماج جہاں ارتکاز سرمایہ کو گناہ سمجھا جاتا ہے وہ بہتر ہے یا یہ سماج جہاں تم چوبیس گھنٹے ایک کے لاکھ اور لاکھ کے کھرب بنانے کی فکر میں لگے رہتے ہو یہ بہتر ہے جس کے لیے تم کسی کا بھی گلا کاٹنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہو کیا یہ سرمایہ دارانہ نظام یہ جمہوریت بہتر ہے جس میں جمہور کے نام پر تم سے تمھارے حقوق چھین کر تمھیں بے دست و پا کر دیا جاتا ہے یا رب کا دین اسکا نظام جس میں بے لاگ عدل کیا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تمھیں احتجاج اور دھرنوں کا راستہ دکھایا جاتا ہے جبکہ تم پر یہ لازم ہے  کہ تم اس ظلم اس نظام کے خلاف کھڑے ہو جاؤ اسکے خلاف جہاد کرو ظالم سے اپنے غصب شدہ حقوق چھین لو جیسے وہ تمھاری گھات میں رہتے ہیں تم بھی انکی گھات میں رہا کرو انکے خلاف برسر پیکار ہو جاؤ اس ملک کے آئین و قانون کو ہر گز تسلیم نہ کرو بلکہ رب کے آئین اسکے قانون کو تسلیم کرو اسے قائم کرنے کی جدو جہد کرو تم اس نظام کی اطاعت مت کرنا اسی میں تمھاری نجات ہے اور اسی میں تمھاری بقاء ورنہ تم جیسے اس جہاں میں رب کے عذاب کا شکار ہو مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے پر اس سے بھی کہیں زیادہ شدید ترین عذاب میں ڈال دیے جاؤ گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply