29اگست2024
2023 میں ہونے والی ساتویں مردم شماری کے اعدادوشمار پبلک کردئیے گئے ہیں. جن کے مطابق پاکستان میں غیر مسلم شہریوں کی تعداد 8771380 ہے ۔جس کی تفصیل یوں ہے ۔۔
ہندو جاتی 386729،مسیحی 3300788 ،شیڈول کاسٹ 1349487،احمدی 162684،سکھ 15998،پارسی 2348، اور دیگر 72346 ہیں۔دوسرا محکمہ جہاں ان مذہبی گروہوں کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے ۔۔وہاں پانچ میں بدھسٹ اور بہائی کمیونٹی بھی ہے ،یعنی وہ جہاں تک عام پاکستانی کو رسائی حاصل ہے ۔ ان کمیونٹیز کی تعداد سات ہے ۔وہاں شیڈول کاسٹ اور کیلاشی کمیونٹی غائب ہے ۔حکومت کو چاہیے کہ کم ازکم اپنے دونوں اداروں الیکشن کمیشن ،وزارت شماریات میں ان 9 کی 9 کمیونٹیز کا اندراج اپنے ریکارڈ میں رکھے ۔بلکہ اگر اور بھی کوئی مذہبی گروہ نادرا کے ریکارڈ میں رجسٹرڈ ہے ،تو اسے بھی اپنے ریکارڈ میں درج کرے ۔۔اس اختصاریئے میں ہم شیڈول کاسٹ ہندو آبادی کا جائزہ لیتے ہیں ۔ پہلی تین مردم شماریوں میں شیڈول کاسٹ آبادی بیس سال میں اوسطاً 29فیصد کے حساب سے بڑھی۔ جس حساب سے یہ اضافہ سالانہ 2.41 بنتا ہے ۔ چوتھی مردم شُماری 1981 میں شیڈول کاسٹ کو صفر دکھایا گیا۔ پانچویں مردم شُماری 17 سال بعد ہوئی 1998میں ہوئی ۔جس کا مطلب شیڈول کاسٹ کو دوبارہ 27 سال بعد مردم شُماری میں شامل کیا گیا اور اس مردم شماری میں شیڈول کاسٹ کی آبادی کو 3 لاکھ32 ہزار342 (332342) دکھایا گیا.جبکہ 1972 میں انکی آبادی 6لاکھ 30ہزار 3سو 69 (303369) تھی ۔یہ آبادی 27سال پہلے والی آبادی سے تقریباً 45 فیصد سے بھی کم تھی ۔اسکے بعد پاکستان کی متنازع ترین مردم شُماری 2017 میں ہوئی ۔ جب حکومت ن لیگ کی وزیراعظم نواز شریف ، وزیر شماریات کامران مائیکل ، چیئر مین اسٹینڈنگ کمیٹی برائے شماریات رمیش کمار ونکوانی تھے ۔یہ مردم شُماری 19 سال بعد ہوئی ۔اس میں شیڈول کاسٹ کی آبادی 155فیصد تھی ۔جو کہ سالانہ تقریباً 80فیصد بنتی ہے ۔
حالیہ ساتویں مردم شُماری میں شیڈول کاسٹ کی آبادی میں 6سال بعد 59 فیصد اضافہ ہو ا ہے جو کہ سالانہ تقریباً 10 فیصد بنتا ہے ۔اس وقت 2023 کی مردم شُماری کے مطابق شیڈول کاسٹ ہندو آبادی 1349489 ہے جبکہ اگر شیڈول کاسٹ کی مردم شُماری پہلی تین مردم شماریوں کی طرح تسلسل سے ہر دس سال بعد ہوتی تو تب بھی شیڈول کاسٹ ہندو آبادی اس وقت 2155417 ہوتی ۔ جبکہ یہ بات بھی طے ہے کہ پاکستانی اقلیتوں کی آبادی میں اگر تعداد کے اعتبار سے تینوں بڑے مذہبی گروہوں ہندو جاتی ،مسیحی اور شیڈول کاسٹ میں سے وقت کے ساتھ تیزی سے اضافہ ہونا چاہیے تو وہ شیڈول کاسٹ ہیں ۔جسکی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں ۔۔
ان میں سے بے تحاشا لوگ آج بھی خانہ بدوش ہیں ۔جو نہ مردم شُماری میں ہیں نہ نادرہ کے ریکارڈ میں ۔۔ان کی خواندگی اور پسماندگی کی شرح بھی باقی دونوں اقلیتی گروہوں مسیحیوں اور ہندو جاتی کے مقابلے میں زیادہ ہے ۔ اس لئے اس متوقع آبادی میں بھی کم ازکم 20فیصد کا اضافہ جوڑ لیں تو ان کی تعداد تقریباً 2587000 ہونی چاہیے، جبکہ پہلی تین مردم شماریوں میں وہ مجمو عی ہندو آبادی کا 69 فیصد تھے اس حساب سے شیڈول کاسٹ آبادی کو 3599879 ہونا چاہیے ۔ اب چند وجوہات کے شیڈول کاسٹ آبادی پاکستان شیڈول کاسٹ کی کئی سماجی تنظیموں کے تقریباً ایک دہائی سے مہم چلانے کے وہ نتائج کیوں سامنے نہیں آرہے۔؟ اور شیڈول کاسٹ ذاتوں سے تعلق والے مردم شُماری میں شیڈول کاسٹ کیوں نہیں لکھواتے؟
ایک سوال جو سب سے ضروری ہے کہ 1981 میں شیڈول کاسٹ ہندؤوں کو وزارت شماریات کے ریکارڈ سے کیوں ختم کیا گیا ؟ اور پھر دوبارا 1998 کی مردم شُماری میں کیسے شیڈول کاسٹ کا خانہ شامل ہوا ۔ ؟
1-ان دونوں سوالوں کے جواب مزید تحقیق طلب ہیں لیکن جو تھوڑی تحقیق میں نے کی ہے اسکے مطابق یہ چند حقائق سامنے آئے ہیں ۔
شیڈول سیاسی سماجی ورکروں سے بات چیت اور تاریخ کے اوراق سے یہ پتہ چلتا ہے۔۔ کہ 1951 میں وفاق پاکستان کے بڑے راہنماہ قائد اعظم کے ساتھی پاکستان کے پہلے وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل کے 50کی دہائی میں ہجرت کرنے کے بعد بھی شیڈول کاسٹ ایسوشن آف پاکستان کو دھچکا لگا لیکن مشرقی پاکستان کو وہ سیاسی طور پر خاصی متحرک تھی لیکن مشرقی پاکستان کے بعد بنگلادیش بننے کے بعد شیڈول کاسٹ ہندؤ سیاسی طور پر بلکل یتیم ہو گئے اس لئے بہت سے شیڈول کاسٹ سیاسی ورکر یہ الزام لگاتے ہیں کہ سلیکشن کے زریعے 1975 میں بننے والے ایم این اے پی کے شاہانی کے ترغیب دینے پر ریاستی اداروں نے یہ کام کیا ۔ لیکِن ضیاء الحق کے جداگانہ طریقہ انتخاب کے ذریعے 1985 میں پاکستان کی ساتویں قومی اسمبلی میں منتحب ہونے والے پارو مل کولہی اور گلجی میگھواڑ نے اس مسئلے کو قومی اسمبلی میں اٹھایا جسکی وجہ سے ریاستی اداروں کو احساس ہوا کہ ہم نے یکطرفہ کہانی سن کر شیڈول کاسٹ کی اجتماعی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔شیڈول کاسٹ سیاسی سماجی ورکر اپنی اس شناخت کو اس سے جڑے کوٹے یا دھرم کی بنیاد پر ہزاروں سال کے ذات پات کے نظام کے ردعمل میں اپنے لئے ایک قابل فخر شناخت سمجھتے ہیں ۔اس لئے 1998 میں ہونے والی مردم شُماری میں شیڈول کاسٹ کا خانہ تو ہمیں نظر آگیا لیکن اس دوران چار بار مزید جداگانہ طرزِ انتخابات کے نتیجے میں ہندؤ کونسل کے ہندؤ سماج کے پاکستان کی سیاست و ریاست میں اثر رسوخ نے مختلف حیلے بہانوں سے شیڈول کاسٹ کی آبادی کو کم دکھانا شروع کر دیا حالانکہ کے اگر ہندؤ جاتی سے تعلق رکھنے والے نمائندے سیاست دان کی بجائے برصغیر کے بڑے ہندو راہنماؤں کے نفش قدم پر چلتے ہوئے راہنما بن کر سوچتے تو یہ ان کے بچھڑے ہوئے بھائی انکی طاقت ہیں ۔۔۔ اور ان کے پسماندہ طبقات کی طویل المیعاد بہتری کے نیک نیتی سے بنائے ہوئے منصوبے پاکستانی معاشرے میں ہندؤ سماج کا ایک بہت ہی مثبت چہرہ پیش کر سکتے تھے ۔۔ انکا یہ عمل پاکستان کی مجموعی ہندؤ آبادی اور پاکستان کی ترقی و بقاء کے لئے بھی ایک احسن قدم ہوسکتاہے ۔۔ ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا گنتی میں شفافیت لا کر اپنے ناراض لوگوں کے دل جیتے جاسکتے ہیں۔ اور اس دارڑ کو بھرا جاسکتا ہے ۔جو اس کاغذی نسل کشی کی کوشش سے مزید گہری ہوئی ہے ۔
2- ہندؤ جاتی سے تعلق رکھنے والے ان افراد نے جنہوں نے تقریباً 24سال سے ہندوؤں کی سیاست پر قبضہ کیا ہؤا ہے ۔ وہ مردم شُماری سے پہلے یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ اگر آپ نے شیڈول کاسٹ لکھوایا تو آپ ہندؤ دھرم سے خارج ہو جائیں گے ۔۔
3-شیڈول کاسٹ ہندؤوں میں تعلق رکھنے والے وہ قبائل جنھوں نے تعلیمی معاشی و معاشرتی ترقی کرلی ہے وہ اس ذاتوں کو اپنے قبیلے سے نتھی کرنے میں شرم محسوس کرتے ہیں ۔۔
4.-جو پڑھ لکھ کر صاحب حیثیت ہوجاتا ہے ۔۔وہ اپنی اس شناخت کو اون نہیں کرتا ۔ ان کے حقوق کے لئے کوشاں افراد میں وہ استعداد ہی نہیں جو ایسے کاموں کے لئے درکار ہے ۔۔لہذا مسائل منظم ومدلل طریقے سے متعلقہ اتھارٹیز تک پہنچ نہیں پاتے ۔ زیادہ تر ان کے حقوق کے لئے کوشاں افراد کی نظر ذاتی مفادات پر ہوتی ہے۔
5- شیڈول کاسٹ کے چند آزاد منش انسانوں کو چھوڑ کر زیادہ تر سیاسی سماجی ورکر این جی اوز کے لئے کام کرتے ہیں ۔لہذا وہ اپنے لوگوں کو وہ ہی آگاہی دیتے ہیں جو فنڈنگ والا کہتا ہے ۔
6-موجودہ اقلیتی انتحاہی نظام ایسا ہے ۔کہ اقلیتی سیاسی ورکر چاہے وہ سینیٹر ،ایم این اے ، ایم پی اے یا ان مراعات والی نمائندگی کا امیدوار وہ سہمے رہتے ہیں۔ کہ نجانے کس بات سے فہرست میں نام ڈالنے والی شخصیت ناراض ہو جائے ۔۔
اس لئے وہ ایسے کسی معاملے کو چھیڑتے ہی نہیں جس میں انکی پارٹی سے زیادہ انکے لوگوں کا مفاد ہو ورنہ اس وقت ان کی کمیونٹی میں سے سینٹرز ،ایم پی ایز ہیں اور ایم این اے کے امیدواروں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں ۔
نچوڑ ریاست اور ان کے بچھڑے ہوئے بھائیوں کو ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ان بھائی بن کر سوچیں۔۔یہ آپکی طاقت ہیں ان کی کاغذی نسل کشی کی بجائے ان کا سہارا بنے ۔۔ پانچ جداگانہ طریقہ انتحاب کے زریعے ہونے والے الیکشن گواہ ہیں کہ وہ ووٹ آپکو ہی دیتے ہیں 40میں سے 34 بار انھوں نے آپ کو ووٹ دیئے ہیں ۔۔ریاست کو اپنے ان پسے ہوئے پسماندہ بچوں کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے ۔۔ ریاست کو چایئے نادرہ کے ریکارڈ سے جن ناموں میں سے فیملی ٹری میں کسی کے پردادا کے نام کے ساتھ بھی ان 40ذاتوں میں سے کوئی نام شامل ہے ۔۔اسے ان کی گنتی میں ڈال دے۔ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں شیڈول کاسٹ کے خانے کا اضافہ کریں ۔
ان چالیس ذاتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے تعلق والے ترقی یافتہ پڑھے لکھے لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ اگر نہیں چاہتے ،کہ انھیں اس معاشی ،معاشرتی ، تعلیمی طور ہر پسے طبقات سے گنا جائے تو وہ حکومت کو حلف نامہ دے دیں کہ ہماری مالی تہذیبی ،تعلیی حیثیت ایسی ہوگئی ہے کہ مُجھے ان پسماندہ طبقات میں نہ گنا جائے ۔۔ گورے نے پسماندہ اور دھرم کے نام پر انسانوں کی بھلائی کے لئے ایک کوٹہ متعارف کروایا تھا ۔۔شائد اس میں کوئی ایسا نظام بھی انڈیا میں رائج ہے کہ جو پسماندگی کی اس لائن کو کراس کر جاتاہے ہے۔ وہ ان رعایت کا حق دار نہیں رہتا ۔۔ویسے تو خیر سے ریاست پاکستان نے شائد وہ کوٹہ کبھی ان ذاتوں سے تعلق رکھنے والوں کو دیا ہی نہیں ۔۔۔ نہ ہی ان میں سے کسی نے اس کوٹے کے لئے کوشش کی حالانکہ کھٹو مل جیسے کئی سینٹرز اور ایم این بھی رہے ۔۔لیکِن یاد رہے برّصغیر میں تبدیلی ذات کا کوئی طریقہ نہیں ہے ۔ہاں یہ بات یاد رہے۔ کہ گورے نے ذات پات کے نظام کی بدولت پسماندہ رہ جانے والے لوگوں کو ذلتیں سہتے ہوئے لوگوں کی بھلائی کے لئے یہ معاشرتی ریفارمز کا ایک پروگرام متعارف کروایا تھا ۔جسکی کی وجہ سے کروڑوں لوگوں کی زندگیاں بدل گئی ۔ دھرم میں ذات پات کا اور معاملہ ہے ۔۔لیکن اس شناخت کی بدولت پسماندہ رہ جانے والے ہر انسان کا تعلق ان حقیر پیشوں سے نہیں ہے ۔۔ امبیدکر کو اسکالر شپ دینے والا راجہ بھی دلت سماج سے تعلق رکھتا تھا۔ میں چند دن پہلے ایک خؤد ساختہ این جی اوز پاس اسکالر کی بات سن کر حیران رہ گیا اس بیچارے کے خیال میں شیڈول کاسٹ سے تعلق رکھنے والی برصغیر کی ہزاروں اور پاکستان کی 40 ذاتوں کا مطلب چوڑے چمار ہی ہے جبکہ یہ ان میں سے والمیکیوں کی آدھ ذات ضرور ہے ۔لیکن اندرون سندھ اور پنجاب کے شیڈول کاسٹ ذاتوں میں 100فیصد کسان اور کھیت مزدور ہیں ۔انھی میں سے ڈاکٹر انجینئر ،وکیل استاد سی ایس ایس افسر غرض ہر شعبے میں لوگ شامل ہوئے ہیں ۔ آخر میں ریاست پاکستان کے ذمہ داروں سے سادہ سا مشورہ ہے ۔۔ ان کروڑ سوا کروڑ لوگوں کی گنتی میں شفافیت آپ کو بڑی نیک نامی دلوا سکتی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں