ناقابل برداشت کہانیاں/آغر ندیم سحر

اخبار کے کوارٹر صفحے پر لگی جنسی زیادتی کی یہ دس خبریں، بنیادی طور پر اس معاشرے کی دس کہانیاں ہیں اور اگر آپ ان خبروں یا کہانیوں کی تہہ میں اتریں گے تو آپ کو ایسی مزید دس ہزار کہانیاں ملیں گے، یہی وہ کہانیاں ہیں جن پر منٹو صاحب نے جم کر لکھا، عدالت ان کو کہانیوں کو ناقابلِ برداشت کہتی تھی حالانکہ منٹو کی کہانیاں نہیں بلکہ منٹو کا معاشرہ ناقابل برداشت تھا۔

اخبار کے صفحے پر لگی یہ دس خبریں کتنی تلخ ہیں، دل دہلا دینے والی، سانگلہ ہل میں دو بچوں کی ماں سے(اغوا کے بعد) چودہ دن تک اجتماعی زیادتی، فیصل آباد میں پندرہ سال لڑکی سے منگیتر نے دوستوں کے ساتھ مل کر اجتماعی زیادتی کر ڈالی۔ راولپنڈی میں مالک مکان نے پندرہ سالہ لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا، لاہور میں نوکری کا جھانسہ دے کر خاتون سے جنسی زیادتی، دادو میں ذہنی معذور بچی سے مسجد کے مولوی کی زیادتی، چوہنگ میں ماں اور بچی سے اجتماعی زیادتی، پتوکی میں تیرہ سالہ بچے سے بدفعلی، مظفر گڑھ میں خاتون کو سرعام بے لباس کرکے ہوس کا نشانہ بنایا گیا، گوجرانوالہ میں شادی کا جھانسہ دے کر لڑکی سے زیادتی، ملتان میں دو بچوں سے مسجد کے مولوی کی بد فعلی، گجرات میں منگیتر کی لڑکی سے زیادتی۔ یہ ایک اخبار پر لگنے والی چند خبریں ہیں، آپ سروے کرکے دیکھ لیں۔

آپ کو ہر دوسری گلی میں ایسی کہانیاں ملیں گی، آپ کو ہر دوسرا گھر متاثر نظر آئے گا، آپ کو درجنوں ایسے خاندان ملیں گی جو جگ ہنسائی کے ڈر سے خاموش ہوں گے یا پھر طاقتور افراد کے خوف سے۔ ، اس کے بعد آپ فیصلہ کریں کہ کیا یہ ملک رہنے کے قابل ہے، کیا ہم اپنی مائوں، بہنوں یا بیٹیوں کے بارے میں اس مکروہ معاشرے پر بھروسہ کر سکتے ہیں؟ جس تیزی سے یہ معاشرہ پستی کی جانب بڑھ رہا ہے اور زیادتی کے کیسز میں جس شدت سے اضافہ ہو رہا ہے اس بارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں ہے۔

آج تک کوئی ایسی پالیسی یا قانون نہیں بنایا گیا جس پر عمل کرکے ہم اس گندگی سے بچ سکیں۔ زینب زیادتی کیس کے بعد پنجاب حکومت نے زینب الرٹ بل منظو کیا تھا، وہ بل بھی ردی کی کسی ٹوکری میں پڑا ہوگا۔ اگر اس بل پر ہی من و عن عمل کرلیا جاتا تو آج ایسی دل دہلا دینے والی خبروں سے جان چھوٹ جاتی۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق جنسی زیادتی کے کیسز صرف پانچ فیصد رپورٹ ہوتے ہیں، پچانوے فیصد یا تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے یا معاملہ رفع دفع ہو جاتا ہے، جو کیسز رپورٹ ہوتے ہیں ان میں بھی زیادہ تر شمالی پنجاب کے ہیں۔

جنوبی پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور سندھ، یہاں وڈیرا کلچر اس قدر طاقتور ہے کہ جنسی زیادتی تو کیا قتل تک کے کیسز رپورٹ نہیں ہوتے۔ اگر کوئی خاندان یہ ہمت کر بھی لے تو اس کا نام و نشان تک مٹا دیا جاتا ہے۔ ایسے میں جاگیردار کے سامنے کھڑا ہونے کی جرات کوئی کمزور آدمی نہیں کرتا۔

ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، کیا ہم نے آج تک ان وجوہات کے بارے سوچنے کی زحمت کی جنھوں نے اس معاشرے کو اس قدر آلودہ کر دیا ہے۔ اس قدر برہنہ کہ ہم خود کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ جس معاشرے میں نکاح مشکل ترین عمل بن جائے، اس معاشرے میں نکاح کی جگہ زنا لے لیتا ہے۔ ہماری اخلاقی پس ماندگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے بچوں کے معاملے میں بہت زیادہ حساس ہو چکے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہمارا بیٹا تب تک شادی کے قابل نہیں ہوگا جب تک کہ اس کی ماہانہ آمدنی لاکھ ڈیڑھ لاکھ نہیں ہوگی۔

ہم بیٹیوں کے معاملے میں بھی بہت زیادہ حساس ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بیٹی اس گھر میں جائے جہاں اسے ایک شاہانہ لائف اسٹائل ملے۔ بیٹی چاہے اپنے گھر میں دو وقت کی روٹی کو ترسی ہو مگر اس کی شادی کسی امیرزادے سے ہونی چاہیے۔ ، یہ حساسیت قطعاً بری شے نہیں مگر اس کے کچھ نقصانات بھی ہیں، سب سے بڑانقصا ن کہ وہ عمر جس میں جذبات کنٹرول سے باہر ہوتے ہیں، ہم بچوں کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں، یہ آزادی اور ہمارا اندھا اعتماد بہت ساری پریشاینوں کا باعث بنتا ہے۔ بیٹا، اس خوف سے شادی نہیں کرنا چاہتا کہ وہ اپنے گھریلو اخراجات پورے نہیں کر سکے گا، بیٹی اس خوف سے شادی نہیں کرنا چاہتی کہ جو ملے گا، وہ میری خواہشات پوری کر سکے گا یا نہیں، دونوں خود کو سیٹل کرنے کی دوڑ میں وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

ایسا معاشرہ جہاں بے روزگاری، افراتفری، لاقانونیت اور آمریت عروج پر ہے، ایسے واقعات معمول کی بات ہے، اندرونی و بیرونی انتشار نے ہماری نام نہاد جمہوریت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ اس لولی لنگڑی جمہوریت نے ہمارے ستتر برس ضائع کر دیے، نہ ہمارا معیارِ تعلیم بلند ہوا اور نہ ہی ہمارا اخلاقی معیار۔ اداروں کی آپس کی لڑائی اور سیاسی دانوں کی نااہلیوں نے اس نظام کی شکستگی اور برہنگی کو مزید واضح کر دیا ہے۔

julia rana solicitors

یہ انتشار ہی ایسی برائیوں کو جنم دے رہا ہے جس سے ایک مسلم معاشرے کی شناخت مجروح ہو رہی ہے۔ دو وقت کی روٹی کو ترستے یہ بھوکے لوگ کہاں جائیں، جرائم پیشہ نہ بنیں تو کیا بنیں؟ جنسی زیادتی کے کیسز میں یہ ہوش ربا اضافہ کیا ایوانوں میں بیٹھنے والوں کو نظر نہیں آ رہا، یقینا وہ سب جانتے ہیں مگر صرف اس لیے آنکھیں بند کر رکھی ہیں کہ ان کے خواب اور طرح کے ہیں۔ وہ اس معاشرے کی اصلاح نہیں چاہتے بلکہ یہاں سے ٹیکس چاہتے ہیں جس سے اپنی تجوریاں بھر سکیں، ان کے سوئس بینکوں کے اکائونٹس ہی ان کا بنیادی مقصد ہے۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply