تحمل اختیار کریں/ساجد شاد

انسان مرد ہو یا عورت کبھی غلطیوں اور خامیوں سے مبرا نہیں ہو سکتا، اسی لئے ہم شادی کو ایک ڈیل پیکج کہتے ہیں جس میں اچھائیوں کے ساتھ کچھ کوتاہیوں کو بھی قبول کرنا ہوتا ہے لیکن منزل کے تعین کے بعد زندگی کے اس باہمی سفر میں ایک دوسرے کو بہتر ہونے میں مدد دی جاتی ہے رہنمائی کی جاتی ہے۔اپنی رفتار کو کبھی کم کرنا پڑے تو اپنے ہمسفر کو ساتھ لے کر آگے بڑھا جاتا ہے۔

ہمارا ماننا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان اپنی ذات کے متعلق لڑائی تقریباً نہیں ہوتی البتہ دوسروں کے دباؤ یا بہکاوے پر ہونے والی لڑائی کو زوردار اور پکا کرنے کیلئے ذاتی اعتراضات شامل کئے جاتے ہیں۔یہاں تک سب کچھ قابل اصلاح ہوتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ دونوں اپنی ذات اور اپنی طے شدہ منزل کو ترجیح دیں دونوں بیٹھیں اور تیسرے شخص کے مسائل پر جھگڑا نہ کریں اس کا حل نکالیں یا اسکے لئے رہنمائی کونسلنگ لیں۔

بدقسمتی سے جہاں ایسا نہیں ہوتا وہاں اَنا کی دیواریں اور ضد کے پہاڑ اونچے سے اونچے ہوتے جاتے ہیں پھر ایک وقت وہ آ جاتا ہے جہاں انکے درمیان موجود تعلق کی مضبوط ترین وجہ بچے بھی ان کو انا اور ضد چھوڑنے پر مجبور نہیں کر پاتے۔

شادی کا یہ ادارہ ٹوٹ جاتا ہے ، مرد اور عورت دونوں ہی متاثر ہوتے ہیں لیکن انکے پاس اپنی زندگی آگے بڑھانے کا موقع ہوتا ہے ، یہاں جلد فیصلہ ہی اچھا فیصلہ ہوتا ہے،جبکہ اس سارے معاملہ میں جس کی زندگی سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے وہ بچے ہیں ، ان سے ماں یا باپ میں سے ایک مستقل چھوٹ جاتا ہے اور دوسرا ان کی پرورش کرتے ہوئے انکی شخصیت کا مجروح پہلو درست نہیں کر پاتا۔

اب واپس آ جائیں۔۔
شادی کے ادارہ میں مرد کی ذمہ داری بہت اہم ہوتی ہے اور اگر کمبائنڈ فیملی ( مشترکہ خاندان) ہے تو اس صورت میں اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ایک طرف ماں اور بہنیں دوسری طرف بیوی، رشتوں میں مسائل ہوتے ہیں کسی کو غلط یا صحیح ثابت نہیں کرنا ہوتا۔

یہ مسائل حل کئے جاسکتے ہیں اگر یہ سوچ ہو اور یہ طے کر لیا جائے کہ رشتے ختم نہیں ہو سکتے مسائل ختم ہو سکتے ہیں۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ مرد گھر میں اپنی ماں کے احترام میں گھگھو گھوڑا بن جاتا ہے اگر بیوی سمجھدار ہو تو وہ کچھ مصلحت سے مشکل وقت گزار لیتی ہے۔
ایک عرصہ گزرنے کے بعد مرد کو اپنے بھائی بہنوں اور ماں باپ کے مقابلے میں اپنی بیوی بچوں کی اہمیت ضروریات اور اپنی ذمہ داریوں کا بالآخر احساس ہو جاتا ہے،لیکن کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔

دوسری طرف کے حالات بھی کچھ ایسے ہی ہیں، وہ گھرانے جو اپنے بیٹے کی شادی اس سوچ کے ساتھ کرتے ہیں کہ ہم ابے گھر میں ایک فرد کا اضافہ کر رہے ہیں وہ اس گھر کا ہماری طرح حصّہ ہوگی جس کی تمام تر ضروریات ہماری ذمہ داری ہوں گی۔ بہت سی دلہنیں اس گھر میں آ کر قدم قدم احساس دلانے لگتی ہے کہ گویا اس نے یہاں آ کر ان لوگوں پر احسان عظیم کیا ہے۔ وہ اپنے خاوند کی ذمہ داریوں اور مجبوریوں کی سمجھنے، اس میں معاون بننے کی بجائے اسے سب سے لاتعلق کرنے کے مشن پر جُت جاتی ہے۔ اس میں وٹس ایپ پر میکے کی لامتناہی اور لامحدود کالیں اپنا رنگ دکھاتی ہیں۔ دلہن سمجھتی ہے کہ میں دشمن کے مورچے میں ہوں اور یہ جنگی محاذ ہے۔

ایسے کئی گھر ہیں جہاں ساس بننے والی نے گذشتہ بیس سال سے سوچ رکھا ہوتا ہے کہ جو کچھ میرے ساتھ بطور بہو ہوا میں وہ اپنی بہو کے ساتھ نہیں ہونے دوں گی، ہم مل کر رہیں گی اور گھر چلائیں گی۔ لیکن بہو یہ سوچ کر آئی ہوتی ہے کہ اس  سے پہلے کہ  مجھ پر ظلم ہو میں ہی کنٹرول سنبھال لیتی ہوں، اور یوں گاڑی ہائی وے چھوڑ کر کچے پکے راستوں پر اتر جاتی ہے۔

علیحدگی طلاق کے بعد مرد ہو یا عورت دوسری شادی کی صورت میں عموماً انہیں نئے رشتے بناتے ہوئے بہت زیادہ سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں، اس وقت انہیں پرانا ہمسفر یاد آتا ہے اور اپنی غلطیوں پر ندامت بھی ہوتی ہے لیکن گیا وقت واپس نہیں آ سکتا۔

یقین جانیے لڑکا ہو یا لڑکی لڑائی کے وقت میں آپکے بہن بھائی ماں باپ آپ کے ساتھ ہیں وہ عموما ًآگ بجھنے نہیں دیتے لیکن علیحدگی کے بعد کی زندگی میں آپ اکیلے ہیں آپکو خود آگے بڑھنا ہے۔

آج یہ لکھنے کی ضرورت اس لئے آئی کہ گذشتہ کچھ عرصہ میں ازدواجی رشتوں کے مسائل میں اضافہ تیزرفتاری سے ہو رہا ہے، تو ضروری سمجھا کہ گذارش کی جائے جب آپ پڑھائی میں کوچنگ لیتے ہیں، بیماری میں ڈاکٹر سے دوا تجویز کرواتے ہیں تو باہمی اختلاف کی صورت میں بھی متعلقہ ماہر لوگوں سے رہنمائی لیا کریں۔
زندگی کے اہم ترین فیصلے غصے ضد اور انا کے تحت عجلت میں نہ کریں۔

julia rana solicitors london

رب کریم سب کو آسانیاں عطا فرمائیں آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply