• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی 10اگست 1947 تا 24اکتوبر 1954/اعظم معراج

پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی 10اگست 1947 تا 24اکتوبر 1954/اعظم معراج

2 ستمبر 2024
“پاکستان کی پہلی کانسٹوینٹ( دستور ساز)اسمبلی میں جداگانہ طریقہ انتخاب کے ذریعے منتخب ہونے والے مذہبی اقلیتوں کی تعداد پہلے تو 14تھی۔جن میں سے 13کا تعلق مشرقی پاکستان(موجودہ بنگلادیش)سے تھا۔اور ایک ممبر اسمبلی کا تعلق پنجاب سے تھا۔ بعد میں 1949 تا 1954 اس اسمبلی میں تبدیلیاں کی گئی ، ایک پنجاب سے اور ایک کراچی سے دو اقلیتی ممبران کو مزید شامل کیا گیا ۔ یہ فہرست مندرجہ ذیل ناموں پر مشتمل ہے ۔۔پریم ہری بھرما،راج کمار چکرا ورتی،سارس چندرا،چھوٹو پڈھ یا یا ,اکشے کمار داس ،دھیرن دھرن ناتھ ،بھوپندرا کمار دتا .جندرا چندرا موجمدار . بھرت چندرا منڈل ۔ جوگںندرا ناتھ منڈل .دھنن جوئے رائے ،مودی بخیش چندا،ہرایندر کمار سر ،قوی کرور دتا گنگا سرن ( مغربی پنجاب) 1949 تا 1954 کی گئی تبدیلیاں ۔سیٹھ سکھ دیو کانچی ( کراچی) بھندرا پی ڈی (لاہور پنجاب) رلیا رانا ،( لاہور پنجاب)شک ہے۔ کہ یہ نام رلیا رام ہوگا اور یہ مسیحی تھے ۔ یہ یقیناً اس لئے شامل کیا گیا ہوگا کہ پنجاب سے وہ واحد ہندؤ ممبر قومی اسمبلی قوی کرور دتا گنگا سرن بھی ہجرت کر گیا ہوگا ۔کیونکہ 1947 کے بعد 50 کی دہائی تک بلکہ ساٹھ کی دہائی تک سرحدوں پر کشیدگی بڑھنے تک دونوں طرف سے ہجرت کا عمل جاری تھا ۔ مسیحیوں کی قومی اسمبلی میں غیر موجودگی کی وجہ یہ رہی ہوگی ،کہ مسیحی آبادی کی بہت بڑی اکثریت صرفِ پنجاب میں آباد تھی ۔اس لئے سکہ بند قسم کے سیاستدان پنجاب کی سیاست میں ہی متحرک تھے ۔۔ مسیحیوں  کے نمائندے رلیا رام جو کہ آزادی ہند کے بھی لاہور کے نمایاں راہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔ انھیں پنجاب کی اقلیتوں کی نمائندگی قومی اسمبلی میں بھی دکھانے کے لئے اس وقت کی ریاستی و حکومتی اشرفیہ نے شامل کیا ہوگا۔لیکن یہ طے ہے، کہ مسیحیوں کی سیاست کا محور و مرکز پنجاب ہی تھا  ۔۔

پاکستان کی شروع کی وفاقی سیاست پر بنگال سے تعلق والے شیڈول کاسٹ راہنماہ جوگندر ناتھ منڈل کی شیڈول کاسٹ فیڈریشن چھائی ہوئی تھی ۔ لیکن یہ کیسا المیہ ہے ،کہ جوگندر ناتھ منڈل کی توجہ بھی سندھ کی بہت بڑی شیڈول کاسٹ آبادی کی طرف توجہ نہ دے سکا۔اور نہ ہی چولستان کے پنجابی شیڈول کاسٹ ہندؤوں پر انکی نظر پڑی ۔۔جب کہ وہ ایک وفاقی حکومت کے پہلے وزیر قانون ہونے کہ ناتے ایک قومی راہنما تھے۔ پہلی اسمبلی کے دوران ہی وہ استعفیٰ  دے  کر ہندوستان ہجرت کرگئے ۔ دوسری قومی اسمبلی تک بنگال کی شیڈول کاسٹ فیڈریشن کی اسمبلی میں خاصی نمائندگی رہی، لیکن پھر شیڈول کاسٹ آہستہ آہستہ پاکستان کی قومی سیاست سے بالکل باہر ہو گئے ۔۔ سندھ کے شہری علاقوں ،دہی سندھ کے صحراؤں اور پنجاب کے چولستان کے ہندؤ دھرم کے بچھڑے ہوئے دھرتی کے بیٹوں کی یہ بڑی بدنصیبی رہی، کہ جب گاندھی جی انھیں ہریجن راؤ بھیم جی دلت آور گورے نے انکو شیڈول کاسٹ قرار دے کر ان کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر سماجی بھلائی فکری ، شعوری، تعلیمی، معاشی معاشرتی،ترقی و تہذیبی ترقی کی جو راہیں ہموار کرنے کی کوششیں کی ۔لیکن ہندؤ دھرم کے یہ بچھڑے ہوئے دھرتی واسی اس فکری انقلاب سے کوسوں دُور تھے ۔

اس لا علمی کی وجہ سے آج وہ اپنی اس شناخت کو قابل فخر سمجھنے کی بجائے تاریخ کے جبر اور ذات پات کے ہزاروں سال پرانے نظام کے زیرِ اثر کوئی انھیں اس شناخت کی بنیاد پر اجتماعی سیاسی ؤ سماجی معاشرتی جدو جہد کی طرف راغب کرے۔۔ تو یہ اسے اپنے آپ سے چھپنے کے مرض میں مبتلاء ہونے کی بنا پر قابلِ شرم گردانتے ہوئے اپنی لا علمی کی بنیاد پر اپنی اس شناخت سے انکاری ہیں ۔۔ جبکہ موجودہ اقلیتی انتخاہی نظام کی جمہوری غلامی والے حصے کی وجہ سے ان میں سے روٹی کے چکر سے ذرا سے سمجھدار لوگوں کی ساری توانائیاں نمائندگی کی ترجیحی فہرستوں میں نام ڈالوانے کی تگ دو میں صرف ہو جاتی ہیں ۔یا کسی چھوٹی موٹی این جی او کے ہتھے چڑھ کر مخصوص سمت میں چلنے کے کھوپے پہن کر اسی سمت میں عمر کا سفر تمام کرتے ہیں ۔

اس سلسلے میں شیڈول کاسٹ اور مسیحیوں کے سیاسی و سماجی ورکروں کا رؤیہ ایک سا ہی ہے، بس مسیحی شناخت کی بدولت یہ تعلیم یافتہ زیادہ ہیں اور مذہبی اداروں کے خاص تاریخی پس منظر کی وجہ سے مغربی و امریکی این جی اوز اور دیگر بھلائی کے اداروں تک ان کی رسائی زیادہ ہے۔ ایک اور بڑا فرق مسیحیوں کی مذہبی ورکروں کی بھی سماجی و سیاسی معاملات میں بڑی دلچسپی ہے ۔۔اور انھیں اپنی عالمی شناخت کی بدولت سرکار دربار میں رسائی بھی زیادہ ہے ۔۔اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان دونوں کمیونٹیز کی اکثریت کے قدیم نسلی تعلق کی بنا پر اکثریت کے رویئے ایک جیسے ہی ہیں۔۔بس فرق اتنا ہے کہ مسیحیوں کے تین طبقے جو کہ  بہت بڑی تعداد میں بہت بڑی مقدار میں کررہے ہیں ۔ شیڈول کاسٹ ہندؤوں کے دو طبقے بہت کم تعداد میں بہت چھوٹی مقدار میں کرنے کی کوشش کر رہےہیں ۔۔جس میں انفرادی ترقی و بقاء کا عنصر نمایاں ہے ۔ اس لئے اس ماڈل سے کبھی بھی اجتماعی بھلائی کی توقع نہیں رکھی جا سکتی ان کے بچھڑے   ہوئے بھائیوں میں سے زیادہ وسائل والے نظریاتی سیاست دانوں کی 1947 میں ہجرت کی وجہ سے باقی رہ جائے والے ساہو کاروں، دوکان داروں میں اس سیاسی افکار و اعمال کا شدید فقدان ہے ۔۔جو برصغیر میں انگریز کی آمد کے بعد سے ہندو  دھرم کی سیاست و عوامی بھلائی کے کاموں سے وابستہ شخصیات کا طرہ امتیاز تھا ۔۔

ان میں سے صرفِ ایک ایسی شخصیت نے ہجرت نہیں کی۔وہ تھے معروف کمیونسٹ سیاستدان و ادیب سوبھو گیان چندانی پاکستان کی سیاست کا المیہ کے کمیونسٹوں کی سیاست کو امریکی تسلط کے زیر اثر پاکسانی معاشرے میں شجر ممنوع قرار دے دیا گیا ۔۔اس لئے سوبھو کی سیاست سے بھی اسکی کمیونٹی کو فائدہ پہنچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.اس لئے ان کے بچھڑے ہوئے وسائل والے بھائی بھی صرف مفادات کی سیاست ہی کرتے ہیں۔انکے موجودہ سیاسی سماجی ورکروں سے گزارش ہے، کہ اپنے پیٹ اور بقاء کی جنگ کے ساتھ اپنی نوجوان نسلوں کی فکری راہنمائی حقائق کی بنیاد پر کریں۔اور اپنی ذات برادریوں کی سیاست سے اوپر اٹھ کر پاکستان کے معروضی حالات میں اپنے دلت سماج کے ساتھ ہندؤ دھرم میں اپنے بچھڑے ہوؤں کے ساتھ بھی ہم آہنگی پیدا کرکے انھیں احساس دلائیں ہم آپکے بچھڑے ہوئے بھائی ہیں ۔دونوں طرف سے دل بڑا کرکے کے وسائل اور تعداد کا امتزاج دونوں فریقین کو پاکستان کی سیاست میں پروقار مقام دلوا سکتا ہے ۔ نفرت اور حقارت کی یہ خلیج یوں ہی ختم کی جا سکتی ہے۔

julia rana solicitors london

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply