ابن رشد مستغربین کی نظر میں/منصور ندیم

ابن رشد کی فکر تیرھویں صدی عیسوی سے، یعنی سنہء 1198 میں اس کی موت کے بعد مسلم دنیا میں فراموشی کی کھائی میں گر گئی۔ اور پورے عیسائی یورپ میں اس کی فکر بطور ایک عظیم روشنی مان لی گئی، ابن رشد کے مقالے آج بھی اٹلی کی پادوا، فرانس کی سوربون، انگلینڈ میں آکسفورڈ وغیرہ میں پڑھائے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ابن رشد کو اس وقت مرکزی اسلامی تحریک نے مسترد کر دیا تھا، اور ان کی کتابیں ان کی اپنی سرزمین پر مر گئی تھیں، جب کہ یورپ میں انہیں بڑی بے تابی سے قبول کیا گیا، ان کی کتب کے ترجمہ کئے گئے اور ان پر اپنا اگلا نشاۃ ثانیہ بنایا۔ اس سے پہلے مسلم دنیا نے ابن سینا کو بھلا دیا، جس کا اثر یورپ پر بہت زیادہ رہا تھا اور وہ وقت کے لحاظ سے ابن رشد سے بھی پہلے یورپ میں مقبول تھا۔ لیکن ابن رشد کو عربوں اور مسلمانوں نے اس وقت رد کر دیا تھا، انہوں نے ارسطو کی تعریف کو رد کر دیا، بلکہ تمام فلسفے کو رد کر دیا، اور یہاں تک کہ اسے کافر قرار دے دیا، یہ خیال کرتے ہوئے کہ “جو سمجھ میں آتا ہے وہ بدعت ہو جاتا ہے،” جیسا اس وقت ایک خاص بیانیہ تشکیل پاگیا تھا۔ مخصوص اپروچ والوں کا خیال تھا (اور شاید اب بھی ہے) کہ فلسفہ لوگوں کو خدا اور مذہب سے دور کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ پوری تاریخ میں بدقسمتی سے فقہاء (یہاں صرف ان کے فلسفے کے متعلق تصور پر بات کی جارہی ہے) نے اسے حقیر جانا اور اس سے منع کیا تھا۔

بس یہیں سے بدقسمتی کا آغاز ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے سولہویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک فکری، سائنسی اور فلسفیانہ جدیدیت کی تشکیل میں کوئی کردار ادا نہیں کیا، اور بالعموم ابتداء میں مسیحی اسکالرزنے مغرب میں گلیلیو کی تمام فتوحات کو بھی نظر انداز کیا۔ لیکن آنے والے وقت میں ڈیکارٹس، اسپینوزا، والٹیئر، کانٹ، ہیگل وغیرہ تک جنہوں نے فلسفے میں کام کیا، ان کی تحقیر اور حقارت تک کی گئی، مغربی فلاسفہ نے مذہب اسلام پر نہیں بلکہ جدیدت کے ضمن میں اپنے مذاہب پر سوال اٹھایا تھا، مگر مسلمانوں نے بھی یہی کام کیا اور ابن رشدنے  فکری فلسفے کو اسلامی دنیا میں ناکام بنانے کا بیڑا اٹھایا۔ جسے بعد میں لاطینی یورپی عیسائی دنیا نے اپنی شاندار کامیابی کی بنیاد بنایا۔ خود مسلمانوں نے ابن رشد کی سوچ کو نظر انداز کیا تو ہم مغربی فلاسفہ کو کیوں قصوروار ٹھہرائیں؟ غزالی کے زمانے سے ہی اگر انہوں نے ابن سینا کی فکر کو نظر انداز کر کے اسے کافر قرار دیا ہے تو ہم ان پر کیوں الزام تراشی کریں؟ یہی رویہ ارسطو کے بعد دوسرے استاد الفارابی کے بارے میں رہا، اور یہی معاملہ شاعری اور نثر کے ذہین و زرخیر شخصیت ابو العلاء المعری کے بارے میں رہا، اسے بھی کافر، بدعتی اور ملعون قرار دیا گیا۔ یہ واقعتاً ہمارے علمی منہج پر شرمناک اور خوفناک بات ہے، لیکن یہ حقیقت ہے۔ ایک طرف ہم مسلم سوسائٹیز کو سست اور جدید دنیا کے علوم میں کمزور مشرقی معاشروں کی طرح دیکھ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف فلسفے اور سائنس کے لیے ایک متحرک، فعال مغرب کا سامنا ہے؟ ہمیں یہ سوال پوچھنے کا حق ہے کہ فلسفہ تیرھویں صدی سے عرب اسلامی دنیا میں کیوں ناپید ہو گیا اور یورپی عیسائی دنیا میں دوبارہ زندہ کیوں ہوا؟

یونانی فلاسفہ کے بعد مسلم فلاسفہ نے بھی دنیا پر حکمرانی تو رکھی، لیکن آج کی صورتحال کا مشاہدہ کریں تو آج کی مسلم ریاستیں اس عروج پر نہیں، لیکن دوسری طرف مسلم فلاسفہ سے علوم کی منتقلی یورپی و مغربی معاشروں میں ایک دیرپا کامیابی کے ساتھ موجود ہے، ہم تیرھویں صدی سے شروع ہونے والے زوال کے اس طویل، تاریک دور میں کیوں داخل ہوئے، جہاں سے ہم ابھی تک نہیں نکلے، پھر بنیاد پرستی کی زبردست لہر کے پھلنے پھولنے کا رحجان بنا، یہ کون سی زوال پذیر سماجی قوتیں ہیں جنہوں نے ابن خلدون جیسے عظیم مفکر کو بھی فلسفے پر لعنت بھیج کر صرف تصوف میں دھنسایا، حتیٰ کہ مذہبی تنہائی اور جنونیت بھی؟

ہم سماجیات اور شہریت کے مطالعہ کے میدان میں ان کی ذہین اختراعات اور دریافتوں اور تہذیبوں کے ظہور، عروج اور زوال کی وجہ کے باوجود یہی دیکھتے ہیں۔ مسلمان تیرہویں صدی سے شروع ہو کر انیسویں صدی تک زوال کے طویل دور میں داخل ہو چکے ہیں، یعنی محمد علی اعظم کے دور اور رفاعہ رفیع الطحطاوی کے ہاتھوں عرب نشاۃ ثانیہ کے آغاز تک، اور بلکہ یہ تمام عظیم نشاۃ ثانیہ کا فلسفہ ہی نہیں جو اب مسلم دنیا میں ناپید ہو چکا ہے، بلکہ معتزلہ نے بھی سوچا تھا، اور یہ بات مشہور ہے کہ انہوں نے حنبلیوں کی مخالفت میں اسلام میں عقلیت پسند تحریک کی بنیاد رکھی تھی۔ اشعری، منتقلی کی تحریک، روایت، اور مذہبی شدت پسندی وغیرہ، یہ ایک حقیقت ہے۔ مسلم سوسائٹیز میں اہل فکر نے یورپیوں سے بہت پہلے Inquisition کا مشاہدہ کیا، اور یہ ہمیں صدیوں میں مسلم دنیا کے زوال کی وجہ بتاتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ فقہاء نے پورے اسلامی مغرب میں، یعنی اندلس اور مغرب میں تمام لوگوں پر جدید علوم کے ضمن میں بہت بڑا نظریاتی اور مذہبی جبر کیا، ابن رشد اپنی زندگی کے آخر میں ان کی جنونی نظریات کی دہشت گردی کا شکار ہوا۔ وہ ان کے جنون اور کم وسعتی، ان کے محدود افق، اور ان کی پسماندہ ذہنیت کا شکار ہوئے، انہوں نے ابن رشد کی فکر پر ناحق حملہ کیا۔ حالانکہ ابن رشد خود ایک عظیم فقہیہ کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے، یہاں تک کہ لوگ ابن رشد، دادا اور پوتے ابن رشد کے بارے میں بات کرتے ہیں، ان کے دادا بھی قرطبہ میں اعلی قاضی کے عہدے پر تھے، تاہم، وہ ان کے شر سے محفوظ نہیں رہا، مسئلہ یہی ہے کہ مسلم دانشور ہمارے موجودہ دور میں بھی اسی جنون کا شکار ہیں، اور یہاں تک کہ قتال اور فکری نظرئیے کی مخالفت پر فتوی و مناظرے کے شکار ہیں، قریب دنوں میں اس کی مثال مصر میں فراج فودا اور نجیب محفوظ کے ساتھ ہونے والے روئیے، یا جیسے دمشق یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر محمد الفادل اور اردنی روشن خیال دانشور ناہید حطار کے ساتھ ہوا. فہرست طویل ہے، مسلم دنیا میں اخوان یا طالبان جیسی تاریک تحریکوں کی دہشت گردی ہر ایک پر چھائی رہی ہے۔ اگر میں مسلم یا عرب انسانیت اور تہذیب کی یورپی فکر پر برتری کے بارے میں بات کروں ،یا اس سنہری ادوار کی برتری یا اس عہد کے عظیم مفکرین جیسے ابن رشد، ابن سینا، الفارابی، ابن باجہ، ابن الطفیل وغیرہ کی برتری کا تذکرہ کروں، خصوصاََ ان درجنوں دیگر، قرون وسطی کے فرانسیسی دانشوروں کے مقابلے میں، جب انہوں نے لاطینی زبان میں بڑی عربی تحریروں کا ترجمہ کیا تو درحقیقت یورپی ریشنالسٹ تحریک شروع ہوئی تھی۔ بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں ان کا قابل قدر کام دو انتہاؤں میں بھی ناقابل قبول ہے۔ ہمارے ہاں مذہبی شدت پسند گروپوں کے نزدیک بھی اس کی اہمیت نہیں ہے اور دوسرا وہ طبقہ جو بغیر مشورے کے شناختی اعتبار سے مسلمان ہی ہے اگر مغرب سے اس قدر متاثر ہیں کہ ان کی حیثیت مستغربین ہے، وہ مسلم فلاسفہ کے کسی کام کو کسی صورت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے یہ ان کی کم علمی ہے کہ وہ سارتر یا کانٹ کو جانتے ہیں، مگر ابو العلی المعری یا ابن طفیل کو نہیں جانتے۔ ایک طرف ان کا مکمل انکار موجود ہے اور دوسری طرف مذہبی شدت پسندوں کی طرف سے ان کی تحقیر ماضی میں بھی رہی اور آج بھی یہ رویہ ماضی کے کل سے مشابہت رکھتا ہے۔

یقیناً ہمارے آج کے کچھ مستغربین یہ بات فخر سے بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے سارتر، ڈیکارٹ یا کانٹ کو پڑھا ہے، یقیناً ان کا پڑھنا ایک آگاہی کا سفر ضرور ہے لیکن وہ اس فکر سے شدید متاثر بھی ہیں، مگر ایماندار نہیں ہیں، خود عظیم فرانسیسی مفکر ایٹین گلسن کہتا ہے کہ کس طرح سوربون کے پروفیسروں نے بہت ہی زرخیز اور بھرپور عرب فلسفیانہ ورثے سے استفادہ کیا، اس وقت، یورپ نے عیسائی قرون وسطی کے اندھیروں سے آہستہ آہستہ ابھرنا شروع کیا، اور ابھرنے کے لیے انہیں عرب اور مسلمان فلسفیوں کی حمایت کی ضرورت تھی، جب کہ اس وقت اس کے تمام مسلم مفکر ہمارے استاد ہیں، اس وقت فرانسیسی، اطالوی یا انگریز دانشور اس بات پر فخر کرتے تھے کہ وہ ابن رشد، الفارابی یا ابن سینا کو جانتے تھے۔ ، جس طرح ہم یا ہمارے مستغربین آج فخر کرتے ہیں کہ ہم ڈیکارٹ، کانٹ، یا ہیگل کو جانتے ہیں، حیرت یہ ہے کہ جنہیں پڑھ کر وہ سر دھنتے ہیں ان کے خود تسلیم شدہ اساتذہ کے متعلق ان کی ہمیت کو قبول نہیں کرنا چاہتے۔

ابن رشد کی فکر آج ہمیں کیا فائدہ پہنچاتی ہے؟ کیا یہ واقعی متعلقہ ہے یا پرانی ہوچکی ہے؟ اس کا جواب یقیناً مسلم دنیا میں ابن رشد کی فکر کو بحال کرنے سے ہمیں اخوان، خمینی، اور دیگر طالبان جیسے پیشرؤوں کے خلاف مسلسل جنگ لڑنے میں مدد ملتی ہے۔ اپنے وقت کے فقہاء نے یہ جنگ ان کی تنگ نظری سے مختلف بیان کی اور اس میدان میں اپنی فلسفیانہ صلاحیتوں کا بہترین استعمال کیا۔ جہاں تک اعتقادی، مذہبی، نظریاتی حدود سے باہر نکلنا ہے جو اپنے اندر بند ہے، حالانکہ یہ حدود یا نظریاتی فریم ورک ہے جس کے اندر مسلمان بغیر کسی استثناء کے قید ہیں۔ لیکن ان کے دور میں یہ ممکن نہ تھا۔ کیونکہ ابن رشد قرون وسطیٰ میں تھا اور اس زمانے میں اس چیز کے بارے میں سوچنا بھی ناممکن تھا، لیکن اس نے اپنی مشہور کتاب “فلسفیوں کی بے ربطی” میں موجود الغزالی کے مقالے کی تردید کرتے ہوئے مذہب کے تصور کو عقلی بنایا۔ انہوں نے اس کی تردید نہ صرف کتاب تہافتہ التہافتہ “The Incoherence of the Incoherence” کے ذریعے کی، بلکہ دوسری کتاب “میتھڈز آف ایویڈینس” کے ذریعے بھی کی۔ ابن رشد نے جو سب سے اہم چیز ہمیں دی وہ اسلامی دنیا میں فلسفہ اور عقلی فکر کے جواز کی شرط تھی،

حقیقتاً فلسفہ مذہب سے نہیں بلکہ صرف خالصیت پسندی اور غلط تصور سے متصادم ہے۔ فلسفہ صرف مذہب کے سخت اور غلط تصور سے متصادم ہوتا ہے۔ آج ہمارے لئے ابن رشد کی فکر صرف تاریخی اہمیت کی حامل ہو گئی ہے اور ہم اس سے آٹھ صدیوں سے جدا ہو گئے ہیں۔ اس کے علمی شاندار کام کی عظمت کے باوجود قدیم نشاتہ ثانیہ ہمارے قدیم فلسفیوں کی تمام فکر قرونِ وسطیٰ کی چھت کے نیچے واقع ہوئی تھی اور اب ہم جدید دور کی چھت کے نیچے رہتے ہیں، اس میں یقینا بہت فرق ہے جس کے بارے میں اس دور میں سوچنا بھی ناممکن تھا۔

ابن رشد کے لیے ڈیکارٹس، اسپینوزا اور باقی روشن خیال فلسفیوں کے دور کے بعد سوچنا ممکن ہوا جب وہ ادوار مذہبی الہیات کے تسلط سے آزاد ہو گئے تھے۔ اسی لئے آج ہمارے فلسفیانہ حوالہ جات لیبنز، نطشے، فرائیڈ، اور یہاں تک کہ برگسن اور ہیبرماس وغیرہ بن چکے ہیں، اس لیے میں نہیں کہتا کہ ابن رشد کی قدر کو بڑھا چڑھا کر ہی پیش کرنا چاہیے۔ ان رشد اپنے عہد میں جو نہ کرسکا تھا وہ المعری نے کیا تھا۔ المعری نے اپنے آپ کو تکفیری مذہبی نظریاتی دائرہ سے آزاد کر لیا تھا جو خود اس کے مقابلے میں بہت زیادہ محدود تھا، اور یہی بات ابن سینا اور الفارابی کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ المعری نے ایسے سوالات پوچھے جو اپنے عہد کی حدود سے نکل کر موجودہ جدید دور سے متعلق ہیں، اور یہ نہ صرف “الزومیت” میں تھا، بلکہ “پیغام بخشش” میں بھی تھا، جو کہ اس کا زیور سمجھا جاتا ہے۔ عرب ادبی اور فکری جواہر اپنی پوری زندگی میں اس حیرت انگیز تخلیقی صلاحیت تک نہیں پہنچ سکے تھے جو ہر ایک عہد کو چھوتی ہے۔

نوٹ :
1- یہ تحریر فقط کل ایک دوست سے ملاقات میں ہونے والی گفتگو کی بنیاد پر لکھی ہے۔

2- مستغربین کی اصطلاح ان لوگوں کے لئے ہے، جو مشرقی یا مسلم معاشرے میں جنم لیتے ہیں مگر مغرب سے اس درجہ متاثر رہتے ہیں کہ وہ مسلم سوسائٹی کے حقیقی کارناموں یا شاندار علمی کاموں کے کنارے پر ہی کھڑے رہتے ہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ انہوں نے صرف مغربی مصنفین یا فلاسفہ کو ہی پڑھا ہے۔

julia rana solicitors london

3- یقیناً اس پوسٹ سے ہمارا رجعت پسند طبقہ بھی راضی نہیں رہے گا۔ کیونکہ بہرحال ان کے نزدیک عقلی فلسفے سے زیادہ تصوف قابل قبول ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply