مورخ برگد سے اک مکالمہ/طلحہ شفیق

صاحبو! زیادہ دنوں کی بات نہیں کہ شاہی قلعہ میں یونہی چلتے چلتے جنابِ برگد کے در پر حاضری دی۔ وہی برگد کہ جس کے نیچے بدھا کو نروان ملا تھا۔ وہ کہ جس کے متعلق ہندی اساطیر بتاتی ہیں کہ برگد کی جڑ میں برہما، اس کی شاخوں میں شوا و اس کی چھال میں وشنو جی بستے ہیں۔ یہی تثلیث ہے جو تخلیق، تخریب اور خلق نو کا استعارہ ہے۔ سو جب میری نگاہ اس بلند قامت برگد پر پڑی تو مجھے لگا کہ گویا کوئی عہد ساز مفکر، حکمت و دانش کے سرمائے تلے، ایک گہری خامشی لیے بس مشاہدہ کر رہا ہو۔ میں نے اس کو تادیر دیکھنے کے بعد ہمت جمع کی اور اس سے استفسار کیا کہ اے رازوں کے امین، مجھ کو کوئی سیکھ دے۔ کوئی گیان بانٹ، کچھ تو بتا۔

اے میرے بزرگ دوست تجھے تو از بر ہیں زمانے کے گزشتہ واقعات، تُو تو ہے سلاطین سلف کی سیرتوں کا رازدار۔ تجھ سے کچھ بعید نہیں وہ اب قصہ پارینہ بن چکی شاہان وقت کے حرموں میں باریاب گل چہرہ حسیناؤں کی ادائیں، وہ شاہ کا وقار بلند کرنے کے واسطے بدہیت غلاموں پر ڈھایا جانے  والا ظلم۔ وہ تمام تر معرکہ آرائیاں، جنگ کا اک اک زمانہ۔ گر تو چاہے تو مجھ  کو بتا کہ تُو تو جانتا ہے وہ سب حفظ و تقدس بزرگاں کے لیے برپا کی جانے والی خون ریزیاں، وہ نسلوں میں سفر کرنے والا انتقام۔ دھند میں ڈوب جانے والے ان ہزارہا دمکتے چمکتے آفتابوں کی سرگزشت۔ نادر و چنگیز کی وہ لوٹ کھسوٹ، وہ قتل عام۔ مذہب و ملت کے مقدس نعروں کے پیچھے ہونا وہ تلواروں کا بے نیام  کیوں کر ہوئیں محکوم قومیں، وہ بغاوتیں، تقدیر کے تغیر، مختلف ادوار کے اسباب کی شرح ناتمام۔ خواہ پھر وہ ہو بیتی صدیوں کا خروش یا عصر نو کا زمزمہ تُو  تو واقف حال ہے سب کا۔ تیرا مشاہدہ عمیق، تیزی روایت معتبر و واللہ مستند ہے تیرا کلام۔

julia rana solicitors london

اے عزیز! کچھ تو بول، کچھ تو بتا، کچھ تو عنایت ہو۔ ایک علم کا طالب تیرے در پر ہے حاضر۔ یکلخت اس کی بوڑھی ٹہنیوں میں حرکت ہوئی، وہ ہوا گویا کہ اے سائل تُو  کیا کرے گا سن کر نسل آدم کی بربادی کے قصے؟ تجھ کو سننا ہیں بھوک و افلاس کی داستانیں؟ وہ قحط و وباؤں کے احوال؟ وہ ارضی خداؤں کے ستم؟ تجھ کو معلوم ہے کیا آگہی کا کرب؟ دیکھ توں نظر دوڑا۔ محسوس کر کہ امیدوں کا شور کیوں تھم چکا ہے؟ چہار جانب خاموشی کیوں کر ماتم کناں ہے؟ غور کر ان فسردہ زندہ لاشوں پر، ان عظیم الشان محلات میں گونجتی، کُوکتی ویرانیوں پر۔ تجھ کو جاننا ہے تو قہقہوں کے پیچھے غم کو جانچ۔ کیوں کہ حق فقط غم ہے۔ جان رکھ کہ اندھیرے کی روشنی جھیلنا آسان نہیں۔ پھر بھی ضد ہے تو سن کہ کوئی خوشی مستقل نہیں۔ گر یقین نا آئے تو ڈال ذہن ناتواں پر زور اور سوچ کہ کیا خوشی وقتی نشہ نہیں اور کیا غم تمہاری عام کیفیت نہیں؟ یہی وہ نروان ہے جو گوتم کو ریاضت سے عطا ہوا تھا۔ یاد رکھ کہ کلام، سکوت، رات، صبح، ہجر، ملاپ سب دُکھ ہے۔ حیات و ممات، ہونا، نا ہونا دُکھ ہے۔ ثبات دُکھ ہے، دوام دُکھ ہے۔ اٹل حقیقت و ابدی سچ دُکھ ہے۔ دُکھ کے ہر دور کے بعد بھی دُکھ ہے۔ زندگی تمام دُکھ ہے، تمام دُکھ ہے، تمام دُکھ ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply