کوئی سِکھّا شاہی زمانے کی بات تھوڑی ہے، ہمارے سامنے کا قصّہ ہے ، کیا نام ہے سے، ساہنہ اور کاہنہ دو سگے پیٹی بھائی ہوا کرتے تھے ۔ اور موضع پَدّر کی پچھاڑی میں ،ٹھیریوں پر رہتے تھے۔ دونوں ربّ جانے کیوں پرہاڑی والے اَجّی سے یرکتے تھے۔ اَجّی بھی فالتو فنڈ لوگوں کے منہ لگنا پسند نہیں کرتے تھے۔اتنی سی بات تھی اور یاروں نے یوں ہی اجّی کا شمار کٹ کھنّے بزرگوں میں کرچھوڑا تھا۔ ویسے اجّی ہماری طرح مردم بیزار نہیں تھے ۔ وہ تو اقبالی روحِ رواں کے حامل تھے
ہو حلقہء یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
ہم اَجّی کو اُن کے “رینک” سے جانتے تھے، نام سے نہیں۔ہم کُجا “پرہاڑی والی چاچی”(بیگم اجّی) بھی بڑی بے، صاوو جان دادی، اور دیدی دادی وغیرہ کے حلقہ یاراں میں جب بھی برسبیل تذکرہ “اُن ” کانام لیتیں تو پہلے سر پر چادر درست کرتیں ،پھر اُنہیں “اَجّی” کہتیں۔ اَجّی اپنی جُوجاگیر کی حفاظت دل و جان کے علاوہ زبان سے بھی کرتے تھے۔ چنانچہ جوڑ سے تلاوت کرتے ہوئے بھی کوئی شناسا کھنگ کھرک کان میں پڑ جائے تو پھپھڑوں کا پورا دم لگا کر “کہیڑا ایں۔۔۔؟ ٹھہر تیرے پچھلوں کےکان کاٹوں”کا جملہ اس قدر “لاؤڈ اینڈ کلیئر” فائر کرتے کہ پوری وادی میں تادیر “پڑدّا “(بازگشت؟) گردونواح کی پرہاڑیوں سے سر پٹختا رہتا ۔ اجّی کی پاٹ دار ڈانٹ سُن کر چِڑیوں اور کُڑیوں کی ڈاروں کو بھی سانپ سونگھ جاتا تھا ۔ایک مخلوق وہ بھی تھی جو پورا پورا دوپٹّہ منہ میں ٹھونس کر ہنسی اور کھانسی روکنے کی تگ و تازجاویدانہ میں”ساءپھوٹ” ہو ہو جاتی تھی۔اور وہ بھری گاگریں سر سے اتار ایک پاسے دھر ، سر اپنی اپنی ٹانگوں میں دبا کر قہقہوں کا دم گھو ٹتی تھیں۔ایک اسی مخلوق پر کیا صاد،اجّی کی کڑکدار آواز سُن کر اُدھر”جھولے”میں واویلا مچانے والے پرندچرندبھی آپی آپ میوٹ پر چلے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ ٹِڈّے بھی “کھیکھن”(چونچلے؟) بھول کر دوب میں دبک جاتے تھے۔ کوئی مانے یا نہ مانے ، ہم نے کئی بار ٹانڈے کی اوٹ سے بچشم دید خود اُنہیں دیکھا۔ یاروں نے یوں ہی اُڑا رکھی تھیں ، ورنہ وہ عام سے اجّیوں، باباوں ، ککّاوں جیسے ہی تھے۔یعنی ۔۔۔ عام اجّی۔ وہ پنجابی فلموں کے ولن کی طرح محض منہ زبانی رٹی رٹائی ہانکیں ڈانٹیں ہوا میں چھوڑ دیتے تھے۔۔۔۔ کہ ۔۔۔ ٹوُ ہوم اِٹ مے کنسرن۔
میل خوری پیرہنی، خاکی شلوار، پیروں میں پچھلے سال کی نئی نکور پوُلیں، سر پر اُن کی اپنی ہم عمر تھگلی ، جس کا رنگ اور بُور امتداد زمانہ کی نزر ہو چکا تھا۔ اَجّی بھی ہمارے دادا بھائی کی طرح خشوع و خضوع کے ساتھ جوڑ کر کے تلاوت کرتے تھے۔۔۔۔ “ال زبر آ ، بے ال با ۔۔۔ابّا۔۔۔، الف ننگا نئیں، شرم پڑدے والا ۔۔”۔ اور یہ سب اُس سبق کا لازمہ تھا جو کسی نے اجّی کی طرح ہمارے دادا پہائی کو بھی بچپن میں رٹوایا دیا تھا۔ ورنہ دادا تو بے وضو اُس طاقچے تک کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے جس میں عالم جنتری، “سینف الملوخ “،نوُر نامہ ،رحل ، اگر بتّی اور نسوار کی پوٹلی رکھی ہو تی ۔ چنانچہ جب بھی نکِـّی بے جی کی پوٹلی سے نسوار اُڑانا ہوتی، ہمیں لاڈ سے اُٹھا کر طاقچے میں دھر دیتے۔ کہتے تھے ،جولی چیڑ کی نسوار چُرانا گناہ نہیں مباح ہوتا ہے۔ نالے چھوٹے بچّوں کو چھوُٹ بھی تو ہوتی ہے۔۔۔۔۔ نِکّی سے نہیں کہنا،چُغلی کا گناہ بڑا ڈاہڈا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ ہش شاباسے۔۔۔۔۔ ہا میرا بلی عہد۔۔۔۔
گلاب بھائی(اَجّی) اور دوش مہاند پہائی (داداجی)کی مِیا ملی ہوئی تھی۔ چنانچہ ایک اپنی چھت کی منڈیر پر بیٹھ کر فاصلاتی “نِکّی سِکّی” کرنے کو ترجیح دیتا تھا، دوجے کو اپنےبنیرے پر، چاپڑ ڈال کر نئی نسل کی عیب جوئی کرنے میں لطف آتا تھا۔۔۔۔۔۔۔”پہائی! وہ دیکھا ہے تم نے اپنے میر محمد کا “بُچّا” ؟دھنّ ہے شاہ بیگماں کی، اِدھر سے ڈکّو، اُدھر سے لِیک کر جاتا ہے۔ کسی نے بتایا تھا ،میرمحمد نے بقلم خود اُسے کھروے ُ(پنجر ے)تلے دبایا تھا۔
میرمحمد سے پہلے “سرکھول کر”کےنکل گیا، وغیرہ وغیرہ۔نئی نسل کی اس بے راہروی کے موضوع پر جو بھی مواد جمع ہوتا، اُسے ہر دو فریق باہمی اتفاق سے اک دوجے کو دان کرتے تھے۔۔۔ عیبہا جُملہ بگفتی ہُنرش مگو۔ مگر بچّوں اور بچھڑوں سے زیادہ اُن کا موضوع “ہل پیل” ہوا کرتا تھا۔ ایسا نہیں کہ دو چار کنال کی جوُ جاگیر ہی اُن کا سب کچھ تھا، بیلوں کی جوڑی ،ایک آدھ بھینس، ایک دو کانی بھیڑیں ، چوُزوں کی ڈار اور بچّوں کا غول بھی اُن کی نظر میں رہتا تھا۔ مسئلہ اتنا سا تھا کہ جب تلک بچّہ ہمک کر اُن کی گودی میں سوُ سوُ نہ کردے اُنہیں اپنے اور بیگانے کی تمیز نہیں ہوتی تھی۔ ویسے بھی اَجّی کے “دوہتر پوہتر” میں ماشااللہ خاصی نفری تھی۔ اور ہنوز کہیں بس ہوتے دکھائی نہیں دیتی تھی۔ البتّہ “بڑے بھائی”(جنہیں دُنیا کی دیکھا دیکھی اَجّی اور ماٹی بھی “بڑا بھائی”کے نام سے ہی پکارتے اور للکارتےتھے) ۔
اپنا دادا بھائی اور اجّی جب بھی فارغ ہوتے ، ایک اپنے کھیت کی منڈیر پر ٹانگیں پسار کر بیٹھ جاتا ، دوسرا اپنی چھت سے تا حدِ امکان ٹانگیں لمکا کر بیٹھ جاتا۔(یہ ہر دو کا “ریلیکس موڈ” ہوتا تھا)۔ اس موڈ پر پہنچے تو پھر چل سو چل ۔۔۔دُنیا جہان کی باتیں “چھیلتے میلتے” رہتے۔ یہی “بے پاوّتی”(لایعنی؟) باتیں اُن کا ٹائم پاس ہوتا ۔۔۔۔ “نہ تو بھائی! جد کد بلادری میں طے ہو گیا تھا کہ خانوُ بھائی کے موہری کا کھُر بِلّو بھائی کے تراہ سے پھالا گیا تو مان لینا چاہیئے تھا، بے سوادی مین میخ کاڈھنے کی لوڑ کیوں ؟۔ بھائی یہ بلادری ہے بلادری ، گگڑو جج کی دالت نئیں۔۔۔۔دے تھوک سِن کیا اور موقع پر فیصلہ ہو گیا۔”
جس دن وافر مواد دستیاب نہ ہوتا، دونوں آرپار بیٹھ کر “یاہریاں مارا کرتے تھے” ۔ ہم نے لُک چھُپ کے یاہریاں مارنے کی اپنی سی کوشش کی،کبھی ایک آدھ یاہری بھی نہ مارسکے ۔(اب کبھی کبھی کوئی چھوٹی موٹی یاہری نکل جاتی ہے۔ ورنہ کچٗو کاہلی):
“نہ تو پہائی! آپ خود خدا ہونی کہیں، ہَنڈوُ ہَنڈوُ کے کہول (مینڈھوں کی لڑائی) میں اُوپر والے کو عرش سے کھینچ دھروُ کے فرش پر لا بٹھانا کہاں کی مردانگی ہے۔ وائی، اُس کو اور کام کاج نہیں کیا؟، وہ وہیلا بیٹھا سن کوکڑے (پٹ سن) کی رسیاں وٹّ رہا ہے؟ ؟۔ ربّ ہے ،وہ ربّ ۔ اپنا کھانوُ پہائی نہیں کہ سِدّو کے چنگل سے سر کھول کر کے نکل گیا ،پھر شام تیکر پکڑائی نہ دیا۔ کلّے ویلے سے گُلے کی ہٹٗی پر شکروُ کے ساتھ کُکڑوں کا میچ فکس کرنے کی تگ و دو کی جا رہی ہے۔ اور دے یاہری پر یاہری ماری جا رہی ہے۔ اِس کی سمجھ میں آتا ہے کچھ نہ اُسے سنائی پڑتا ہے کچھ ۔ اک رولا ہے، اک رپھڑ ہے۔ اک دھوڑی ہے ، اک پسہوڑی ہے۔ آخر کس کاری۔؟”
ہمیں تو کچھ یاد نہیں لیکن نِکّی بے جی بتاتی تھیں کہ ہم اُن کی اولاد کے پہلے اور آخری میل ممبر تھے جو دادا کی چھا تی پر اُلٹا لیٹنے اور اُن کی ناک میں دونو ہاتھوں کے انگوٹھے اوپر تک گھسیڑے بغیر سوتے نہیں تھے ۔ اور دادا کو بھی اس مبیّنہ “کھُتّ” کے بغیر نیند نہیں آتی تھی۔ اگر ماں اس کی راویہ نہ ہوتیں تو ہم کبھی یقین نہ کرتے۔ تاہم کبھی کبھی دادا کی ناک دیکھ کر خیال ضرور آتا تھا کہ ہمارے دادا کو کوئی مائی کا لال ناک آوٹ نہیں کر سکتا۔ اجّی بھی نہیں۔ اجّی انتہائی اصول پرست واقع ہوئے تھے۔ وہ جب بھی “باہر پھرنے ” کو نکلتے ،ڈانگ، درانتی ،خشک کرنے کے لئے ڈھیلے ، پانی کا کروا(لوٹا) ، سر پر ٹوپی اور پیروں میں مخصوص پوُل ڈال کر نکلتے۔ ایسا اہتمام تو اُس زمانہ میں “پار”(پردیس) جانے کے لئے بھی کم کم ہی کیا جاتا تھا۔ اجّی کے شب و روز ایک ضابطہ سے بندھے ہوئے تھے۔ اور ضابطہ کے ارد گرد وہ آپ ہوتے تھے۔
( ہم نے ایک بار بابو چا چا مرحوم سے پو چھا ۔۔۔۔ اجّی آپ سے لاڈ پیار بھی کرتے ہیں۔؟”سخت۔ ” انہوں کہا “ایک دن کا لاڈ تین چار دن چل جاتا ہے۔ اتنے دنوں میں چاچی (والدہ)ٹکوریں وغیرہ کر کے دوسرے لاڈ کے لئے ریڈی تیار کر دیتی تھیں”۔ لیکن یہ کوئی نہیں مانے گا کہ ہم نے کبھی پرہاڑی کے گھر گھروندے سے “رواس کرنبے”(ہائے فریاد) نشر ہوتے نہیں سُنے۔ اَجی کے بائی پروڈکٹ میں داخیں، انگور، ناشپاتی، بگو گوشہ اور سب سے چھوٹی ‘پھپھو تھیں۔ جو ہمیں پھل فروٹ چوری کرنے میں مدد کرتی تھیں ۔ورنہ اجّی تو پکنے پر دانہ دانہ اڑوس پڑوس
3
میں تحفتا” بھیج دیتے تھے۔ اور بس۔ویسے چھوٹی پھپھو بڑے دل اور حوصلے کی مالک تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ اڑوس پڑوس کی جملہ ریزگاری اُن سے بہت پیار کرتی تھی۔ اجّی کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اڑوس پڑوس اور رشتہ داری میں کبھی ٹانگ نہیں اڑاتے تھے۔چانچہ گاوں برداری کے واحد غیر متنازعہ فرد تھے۔ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ وہ حقّہ نسوار کرتے تھے یا نہیں لیکن ایک سے زائد مرتبہ اُنہوں نے ہمارے گھر پر نانا کو دیکھ کر کہا۔ ۔:
” اکوال (اقبال) بھائی! آپ جیسا پڑھا پڑھایا مولوی جنا حقـّہ “لِیتا” (پیتا؟) سوبھتا (شوبھتا) نئیں۔ ایمان نال کپّ ٹُک کر شیرا پہائی لگتے ہو۔میری مانو تو اس کی جگہ املوک جیب میں رکھا کرو،سواد کا سواد ثواب کا ثواب “۔
(ضمناًعرض ہے کہ اجّی کی جاگیر سے ملحق ساہنے پر،کئی کئی مربع گز کی تراشیدہ سِلّوں کا ایک ڈھیر واقع ہے ۔ ایسا پتھّر قرب و جوار میں پایا ہی نہیں جاتا۔شایدکسی زمانے میں وہاں رصد گاہ رہی ہو۔ لیکن متعدد دادیوں نانیوں نے ناصرف وہاں خزانہ (زر) دفن کر دیا بلکہ اس کی حفاظت کے لئے وہ اژدہا بھی مامور کر دیا جو پانی پینے کے لئے “للّے کی با” تک اس طرح جاتا ہے کہ اُس کی دُم دو کوس دُور زر پر کُنڈل ڈالے رہتی ہے۔ اور منہ ناڑے پر ہوتا ہے۔ بعض سیانوں نے پیاسے اژدہا کا طول پانچ کوس بتایا ہے۔ بعضوں نے ڈانگوں کے گزوں سے ماپ کر بتایا ہے کہ اژدہا کا منہ اتنا بڑا ہے کہ “جِیلو”( علاقہ کا سب سے جسیم بندہ) کو ایک سِپ میں اُسی طرح نگل لے جس طرخ “سانٹولا” مکھی کو ہڑپ کر لیتا ہے۔)
لیکن ہر بستی میں کوئی نہ کوئی “جھُلّی” بھی ہوتا ہے جو خطرات سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ ہمارا جھُلّی بھی زر اُڑا نے کے درپے تھا۔ اُس نے چہڑھ والے دیالے سے ففٹی ففٹی پر ڈنّ کر رکھا تھا۔ روحانی طاقت دیالے کی، کھودا کھادی جھُلّی کی۔ چنانچہ دیالے کی طرف سے بتائی گئی رات کو وہ ایک تیشہ ، کھُرپا اور خالی بوری سے لیس ہو کر موقع پر پہنچ گیا۔ اور سائیں کا نام لے کر کھدائی شروع کر دی۔ کوئی چھ مربع انچ کھدائی مکمل ہوئی ہو گی کہ اجّی کو کھانسی آگئی۔مِشن میں کھنڈت پڑ گئی۔ دوسری صبح سویرے جھُلّی نے دیالے مُرشد سے رجوع کیا، “یا مُرشد ! اژدہا پھونساڑتا بھی ہے ؟ کوئی اور سبیل کرو”۔ ہم نہیں جانتے کہ دوسری سبیل ہوئی یا نہیں،لیکن یہ ضرور ہو گیا کہ جھُلّی ماہر آثار قدیمہ مانا جانے لگا۔ (اُس کا دوسرا نشانہ سیدل ککا کا ٹھیرا تھا، لیکن سیدل ککا کو کم خوابی کا مرض لاحق تھا۔ وہ رات بھر اپنے موہڑے میں ڈانگ کھڑ کھڑاتے رہتے تھے۔اور اُن کا نشانہ بھی تیز تھا ۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ اُنہوں نے چڑیوں کی ڈار پر وار کیا ہو تو کُڑیوں کے غول میں دوچار نہ گری ہوں۔ اجّی میں یہ وصف نہیں تھا ۔ زبانی ہی شکار شکوُر کرتے تھے۔ ۔۔۔۔۔ نان پریکٹیکل شکاری۔ ہم نے بابو چاچا سے اک بار پوچھا تو بولے “اجّی وہ سیہی ہے ،جس کے سارے کانٹے جھڑ چکے ہیں ۔وہ پر تو پھیلا سکتا ہے، حملہ نہیں کر سکتا۔ اجّی کا سارا جاہ و جلال “ڈنڈ کاہ”(شور شراپا) پر محیط ہے۔ یار انسان اتنا بے بس بھی ہوتا ہے؟ میں نے کبھی سوچا تک نہیں۔۔”
بابو چاچا کا کہا سر آنکھوں پر، لیکن ہر گراں موہڑے میں اگر کوئی جیتا جاگتا اجّی نہ بھی ہو تو اُس کا “بھو بچھّا” نکلوا کر ضرور رکھ لینا چاہیے،
پیدا کہاں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں