نہلزم کا مطلب ہے “عدمیت” یا “نفی” اور یہ نظریہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ زندگی میں کوئی حتمی مقصد یا معنی نہیں ہے، اور تمام روایتی اصول و اقدار بے معنی ہیں۔ اس نظریے کے مطابق، اخلاقی اصول، مذہبی عقائد، اور وجود کے معنی صرف انسانی تصورات ہیں، جن کی حقیقت میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔
نہلزم کی ابتدائی جڑیں قدیم فلسفے میں ملتی ہیں، لیکن اسے ایک منظم نظریے کے طور پر انیسویں صدی میں روس میں متعارف کرایا گیا۔ 1860 کی دہائی میں روسی ادبی اور فلسفیانہ حلقوں میں یہ نظریہ مقبول ہوا، اور اسے “نہلزم” کا نام دیا گیا۔ روسی ناول نگار ایوان تورگنیف (Ivan Turgenev) کے ناول “باپ اور بیٹے” (Fathers and Sons) میں اس نظریے کی عکاسی کی گئی، جہاں مرکزی کردار بزاروف (Bazarov) ایک نہلزم پسند کے طور پر پیش کیا گیا۔ بزاروف کا کردار ایک ایسے شخص کی نمائندگی کرتا ہے جو تمام روایتی اصولوں اور اعتقادات کو رد کرتا ہے، اور یہیں سے نہلزم کا نظریہ عوامی سطح پر سامنے آیا۔
نہلزم کی نظریاتی بنیادیں انیسویں صدی کے کئی فلسفیوں کے خیالات میں ملتی ہیں، لیکن اسے ایک منظم شکل دینے والے اولین فلسفی فریڈرک ہینری جیکوبی (Friedrich Heinrich Jacobi) تھے۔ جیکوبی نے “نہلزم” کی اصطلاح استعمال کی تاکہ جدید فلسفیانہ تحریکوں کے خلاف اپنے خدشات کا اظہار کر سکیں، خاص طور پر ایمانوئل کانٹ (Immanuel Kant) اور فریڈرک شیلنگ (Friedrich Schelling) کے نظریات کے خلاف۔ جیکوبی کے مطابق، جدید فلسفہ خدا اور مذہب کی نفی کرتے ہوئے نہلزم کی طرف جا رہا تھا۔
فریڈرک نطشے (Friedrich Nietzsche)، ، نہلزم کے سب سے اہم اور مؤثر مفکر ہیں ۔ نطشے کے مطابق، مغربی تہذیب ایک گہرے روحانی بحران سے گزر رہی تھی، جو کہ نہلزم کی صورت میں ظاہر ہو رہا تھا۔
نطشے کا نظریہ ہے کہ مغربی تہذیب میں روایتی مذہبی اور اخلاقی اقدار کی تباہی کے بعد انسانیت کو ایک خلا کا سامنا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ “خدا مر چکا ہے”، اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ نطشے نے لفظی طور پر خدا کے وجود سے انکار کیا، بلکہ ان کا کہنا تھا کہ مذہب اور اخلاقیات کی روایتی بنیادیں مغربی دنیا میں اپنی طاقت کھو چکی ہیں۔
نطشے کے مطابق، نہلزم کا سامنا کرتے ہوئے انسان کو اپنی اقدار خود تخلیق کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے “سپر مین” (Übermensch) کے تصور کو پیش کیا، جو ایک ایسا انسان ہے جو روایتی اقدار کی نفی کرتا ہے اور اپنی مرضی سے نئے اصول وضع کرتا ہے۔ نطشے کے نزدیک، نہلزم کو صرف ایک عبوری مرحلہ کے طور پر دیکھنا چاہیے، جس کے بعد انسانیت کو نئے معنی اور اقدار کی تخلیق کا موقع ملتا ہے۔
نطشے کے بعد، نہلزم کے خیالات نے مختلف شکلوں میں فلسفیانہ، ادبی، اور ثقافتی میدانوں میں اپنی جگہ بنائی۔ بیسویں صدی کے وجودی فلسفیوں جیسے ژاں پال سارتر (Jean-Paul Sartre) اور البرٹ کامو (Albert Camus) نے نہلزم کے موضوعات کو اپنے فلسفے میں شامل کیا۔ انہوں نے زندگی کی بے معنویت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے باوجود معنی کی تلاش کو انسانی تجربے کا لازمی حصہ قرار دیا۔

آج کے دور میں، نہلزم مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے، خاص طور پر جدید معاشرتی اور ثقافتی بحرانوں کے دوران۔ میڈیا اور مقبول ثقافت میں بھی نہلزم کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں، جہاں اکثر زندگی کی بے معنویت اور اقدار کی عدم موجودگی کا اظہار کیا جاتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں