پاکستان میں سیکولر لوگوں میں چند ایک نظریات کا غلبہ ہے۔ نطشینزم، لبرل ازم اور کمیونزم۔ یہ سب ایک دوسرے کی ضد ہیں اور تینوں افکار کے آپس میں متضاد ہیں لیکن ایک سوشل میڈیا پرسنیلٹی کی وجہ سے جو شاید خود تو خود کو لبرل نہیں کہتے لیکن وہ لبرل مشہور ہیں اور وہ خود کو نطشین بھی کہتے تو ایک فلسفیانہ وہم پیدا ہوچکا ہے کہ ایک شخص (نظریاتی) لبرل ہوتے ہوئے نطشین بھی ہوسکتا ہے۔ آئیے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں۔
لبرل فلسفہ روشن خیالی کے ابتدائی ادوار میں پیدا ہوا اور جیسا سب جانتے ہیں کہ اس کے بانی جون لاک ہیں۔ جون لاک انسانی برابری متعلق لکھتے ہیں:
“انسان فطرتاً آزاد ہے، برابر ہے اور خودمختار ہے اور کوئی اس سے یہ حقوق چھین نہیں سکتا اور کوئی بھی اسے اس کی مرضی کی بغیر سیاسی طاقت کے تسلط میں نہیں لاسکتا۔”
Second Treatise Section 95
لبرل رہنما تھامس جیفرسن نے امریکہ کی آزادی کے دستاویز پر لکھا:
“تمام انسان برابر ہیں اور اپنے خالق کی طرف سے کچھ ایسے حقوق کے ساتھ پیدا کیے گئے ہیں کہ جو ان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔”
اب ذرا دیکھتے ہیں کہ نطشے انسانی برابری کے متعلق کیا لکھتے ہیں:
“اعلیٰ مردوں کی طرف سے ہجوم کے خلاف ایک اعلان جنگ کی ضرورت ہے۔ ہر چیز جو انسان کو نرم کرتی ہے، اور ‘عوام’ یا ‘عورت’ کو مقدم کرتی ہے، وہ تمام لوگوں کو ووٹ دینے کا حق دینے کے حق میں ہے، یعنی ادنیٰ لوگوں کی حکمرانی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔”
Will to Power p. 297
یہاں واضح الفاظ میں لاک کی گئی باتوں کو طنز کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور عوامی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور یہاں نطشے کا کچھ مردوں کو “اعلیٰ” اور کچھ کو “ادنیٰ” کہنا ہی واضح کرتا ہے کہ وہ انسانی مساوات کے قائل نہیں تھے۔
ایک اور جگہ نطشے لکھتے ہیں:
جمہوریت عظیم انسانوں میں بےیقینی کی عکاسی کرتی ہے۔ “ہم سب آپس میں برابر ہیں” (کہنا مترادف ہے۔ کہنے کے کہ) “ہم سب بھیڑیں اور ہجوم ہیں۔”
Will to Power, Sec. 864
ایک تیسری جگہ نطشے نے لکھا:
برابری کا نظریہ۔۔ اس سے زیادہ زہریلا زہر کوئی نہیں؛ ایسے لگتا ہے کہ یہ عدل پر مبنی ہے جبکہ حقیقتاً یہ عدل کا دشمن ہے۔
Twilight of Idols Section 48
ویسے تو جو لوگ دونوں فلسفوں کو مانتے ہیں وہ اتنا گہرا جائزہ لیتے ہی نہیں لیکن ایک ممکنہ اعتراض یہ ہوسکتا ہے کہ نطشے کی عدم مساوات اور لبرل مساوات ایک دوسرے کو نہیں کاٹتی کیونکہ نطشے عدم مساوات کی بات اخلاقی اقدار کی بنیاد پر کرتے ہیں جبکہ لبرل پیدائش کے ساتھ ،تو یقیناً نطشے بھی پیدائش کے ساتھ انسان کو برابر مانتا ہوگا لیکن بعد ازاں اخلاقی اقدار سے لوگوں کو جج کرتا ہوگا لیکن ایسا نہیں ہے۔
نطشے لکھتے ہیں:
“عظمت کی محض ایک ہی قسم ہے اور وہ ہے خونی و پیدائشی عظمت۔ جب کوئی روحانی عظمت کی بات کرتا ہے تو اس کی وجوہات کچھ چھپانا ہوتی ہیں۔ جیسا ہم جانتے ہیں کہ یہ اصطلاح یہودیوں کے ہاں بہت مقبول ہے لیکن روح اکیلی کسی کو عظیم نہیں بناتی۔ پھر وہ کیا چیز ہے جو عظیم ہونے کی وجہ بنتی ہے؟ وہ ہے خون۔”
Will to Power Sec. 942
اس قول سے واضح ہوجاتا ہے کہ نطشے صرف اخلاقی عدم مساوات کا قائل نہیں تھے بلکہ وہ نسل پرستی کے بھی قائل تھے۔
چلیں اب ذرا نطشے کے انسانی حقوق پر نظریات کا لبرل فکر سے تضاد دیکھتے ہیں۔
لاک انسانی حقوق کے متعلق اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
قدرتی حقوق پر کوئی پابندی نہیں سوائے قانونِ قدرت جہاں حد لگائے۔
Second Treatise Section 22
جبکہ نطشے اس کو مشروط کرتے ہیں۔ نطشے لکھتے ہیں:
انسان کے پاس کتنے حقوق ہیں یہ اس سے تعلق رکھتا ہے کہ وہ خود پر کتنی ذمہ داریاں ڈالتا ہے، کس کام کے برابر وہ خود کو سمجھتا ہے؟ اکثریت کو تو وجود کا بھی حق نہیں بلکہ وہ سوائے ایک بدقسمتی علاوہ کچھ نہیں۔
Will to Power, Sec. 872
جیسا واضح ہے ایک بڑی تعداد کو تو نطشے زندہ رہنے کا حق بھی نہیں دیتے۔
اب ذرا ہم عورتوں پر نطشے اور لبرل فلاسفہ کی آراء پڑھ لیتے ہیں۔ مل لکھتے ہیں:
یہ انتہائی ظلم ہے کہ ہم آدھی آبادی کو حقِ رائے دہی اور نوکریوں سے دور رکھیں جبکہ دوسری صنف کے احمق ترین کو بھی یہ حق حاصل ہو کہ وہ نوکری کرسکے اور سماجی معاملات میں رائے دے سکے۔
Subjection of Women, Chapter 3.
دوسری طرف نطشے کی بات کا حوالہ دینا شاید مناسب نہیں لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ وہ انتہائی بےشرمی سے عورتوں کو جانوروں سے تشبیہ دیتے ہیں لہذا جو خود کو نطشین اور فیمنسٹ کہتے ہیں تو نطشے زندہ ہوتے تو یقیناً وہ مردوں کے ساتھ ہی کھڑے ہوتے کیونکہ وہ عورتوں کو استعمال کی چیز سمجھتے تھے جیسے ہمارے یہاں کیا جاتا ہے اور جیسے گائے کو کیا جاتا ہے۔
اب میں چاہوں گا کہ ہم ذرا وہ حصّہ ڈسکس کرلیں جس کی وجہ سے یہ ساری غلط فہمی پیدا ہوئی ہے یعنی دونوں میں مشترکہ تصورِ انفرادیت تو ذرا ہم دیکھتے ہیں کہ لبرل انفرادیت کیا ہے۔ ویسے تو اس موضوع پر لکھ چکا ہوں لیکن رالز کا یہ ایک جملہ فکر کو سمیٹ لیتا ہے:
The individual is the ultimate unit of moral concern; thus, his or her autonomy and freedom are central.
یقیناً لبرل ازم میں فرد بنیادی اکائی ہے جس کا دفاع لازمی ہے لیکن یہ سب افراد کے لیے ہے جیسا مل کے ان دو اقوال سے ظاہر ہوتا ہے:
The only purpose for which power can be rightfully exercised over any member of a civilized community, against his will, is to prevent harm to other individuals.
If all mankind minus one, were of one opinion, and only one person were of the contrary opinion, mankind would be no more justified in silencing that one person, than he, if he had the power, would be justified in silencing mankind.
اس سے واضح ہوتا ہے کہ گو کہ لبرل فرد کو انتہائی اہمیت دیتے ہیں ان کے ہاں ہر ایک کے حقوق ہیں جو کہ کوئی کسی سے نہیں لے سکتا یہاں تک کہ طاقت رکھنے والا فرد بھی یہ کام کرے گا تو غلط کرے گا جبکہ نطشے کے ہاں ایسا کوئی نظام نہیں ان کا نظام یہ کہتا ہے کہ جس کے پاس طاقت ہے اس کو اختیار ہے کہ وہ جو چاہے کرے تبھی وہ اخلاقی موضوعیت کے بھی قائل تھے اور مندرجہ ذیل قول سے بھی یہ واضح ہوجاتا ہے:
The will to power is a fundamental drive that constitutes the essence of life. It is not merely a drive for survival, but a drive to assert, enhance, and expand one’s power and influence.

نئی اقدار بنانے کی اس کے علاوہ کوئی تشریح نہیں کہ جس کے پاس طاقت ہے اس کے لیے کوئی اخلاقیات نہیں بلکہ وہ جو چاہے کرسکتا ہے اور وہ اپنی نام نہاد “اقدار” بناتا چلا جائے گا۔
آخر میں سب کو کسی طرح ملا بھی لیا تو نطشے نے لبرل ازم پر نام لے لے کر تنقید کی ہے جیسے:
Liberalism, or, in plain English, the transformation of mankind into cattle……
Twilight of Idols.
اسے ملانا تو ہرگز ممکن نہیں۔
یعنی جو خود کو نطشین کہتے ہوئے انسانی حقوق کا کارکن یا لبرل بھی کہتے ان کے لیے یہ بات ہے کہ اگر نطشے زندہ ہوتے تو وہ ہنستے ہوئے اس کے ساتھ کھڑے ہوتے جس کو آپ ظالم سمجھتے ہو کیونکہ ان کے لیے وہی طاقتور ہے اور وہی سپرمین ہے جبکہ آپ اس کو بھیڑ بکریوں والی اخلاقیات پر مجبور کر رہے ہو۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں