کہتے ہیں کہ سوچنا ایک ایسا عمل ہے جس میں ہمیں بیرونی طور پہ کسی انسان کی نہیں بلکہ اپنے آپ کی توجہ درکار ہوتی ہے ۔اس لیے ضروری ہے کہ پہلے خود کو سمجھیں اور جاننے کی کوشش کریں پھر فیصلہ کریں ۔ انسان سمیت ہر جاندار کی سوچ الگ الگ ہوتی ہے، جو اس کی فطرت ،صلاحیت ،جسامت ،طاقت اور وسائل سے تعلق رکھتی ہے ۔شیر کی سوچ شکار کرنے کی ہوتی ہے اور گوشت کھانا چاہتا ہے لیکن ہاتھی جو وجود میں تو اس سے کہیں بڑا ہوتا ہے لیکن وہ سبزہ اور پھل کی تلاش میں رہتا ہے۔یہ شیر کی طرح چیر پھاڑ نہیں کر سکتا البتہ اپنی سونڈ اور پاؤں سے کسی کو بھی کچلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔شیر کے دانت اور پنجے کھانے کے اور ہاتھی کے دانت دکھانے کے ہوتے ہیں ۔ زیبرا اور اونٹ جس اونچائی سے درخت کے پتے کھا سکتے ہیں دوسرے جانور تو سوچ بھی نہیں سکتے ۔سمندر کی تہہ میں بےشمار مخلوق خدا موجود ہے لیکن بےشمار جاندار پانی میں جاتے ہی ڈوب جاتے ہیں ۔کچھ جاندار مٹی تلے دب کر مر جاتے ہیں اور کچھ رہتے ہی مٹی اور پتھروں کے نیچے ہیں ۔اس لیے سوچ کبھی برابر نہیں ہوتی ۔انسان سمیت ہر جاندار اپنی طاقت ،جسامت ،ماحول اور خاصیت کے مطابق ہی سوچتا ہے۔ہر جاندار کی ایک ہی واقعے کے حوالے سے سوچ مختلف ہوتی ہے لیکن ہر سوچ ایک حقیقت کو جنم دیتی ہے ۔اس دنیا میں اچھا یا برا کچھ نہیں ہوتا یہ فقط سوچنے کا انداز ہوتا ہے جو کسی بھی فیصلے کو مثبت یا منفی بنا دیتا ہے ۔
ذرا غور کریں ہم اپنی زندگی تو بدلنا چاہتے ہیں لیکن اپنی سوچ بدلنے پر تیار نہیں ہوتے ؟ شیر اپنے دانتوں اور پنجوں کی صلاحیت پر بڑے ناز سے کسی بڑے بھینسے پر حملہ آور تو ہوتا ہے لیکن اپنے غلط فیصلے کی باعث کبھی کبھی اس کے سینگوں سے خود ہی گھائل ہو کر مر جاتا ہے ۔ ہاتھی ہر چیز کچل کر رکھ دیتا ہے لیکن ایک معمولی کیڑی اسکی سونڈ میں گھس کر اسے مار ڈالتی ہے ۔ سانپ یا نیولے کا لڑائی کے دوران کسی کی بھی سوچ کے باعث ایک غلط فیصلہ اس کی شکست بن جاتا ہے ۔آخر کیوں ؟ کیوں کہ اس کے ہر فیصلے کے پیچھے اس کی اپنی ہی سوچ ہوتی ہے ۔آپ کی بڑی سے بڑی صلاحیت بعض اوقات اپ کی منفی سوچ کے باعث بےکار ہوکر رہ جاتی ہے ۔اپنی کامیابی کے لیے سوچنا اور وہ بھی مثبت اور مکمل سوچنا ہی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے ۔کارکردگی بہتر کرنے لیے ایسی سوچ اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے جو آپکی صلاحیتوں کو ابھارے اور تقویت دے ۔یاد رہے کہ ہمیشہ منفرد سوچ ہی کسی کو منفرد بنا سکتی ہے ۔سوچیں یکساں اور برابر نہیں ہو سکتیں شیر ،ہاتھی ،ہرن اور لومڑی کبھی ایک سوچ نہیں رکھ سکتے ۔انسان سمیت ہر جاندار اپنی جبلت کے مطابق انفرادی اور منفرد سوچ رکھتا ہے ۔
سوچنا ایک ایسا ذہنی عمل ہے جو تفکرات ،تصورات اور خیالات کی صورت جانا جاتا ہے ۔سوچنا انسانی تجربے اور علم نا صرف بڑھاتا ہے بلکہ انسانی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے ۔انسانی زندگی کی بقا اور ترقی سوچنے کی انہی صلاحیتوں کے مرہون منت ہے ۔اس لیے ہر عمل اور فیصلے سے قبل ایک مرتبہ سوچنا ازحد ضروری ہے ۔
اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو عظیم لوگوں کو منفرد بنانے والی طاقت کا نام ان کی سوچ ہی دکھائی دیتی ہے ۔ دوسری جانب قوموں اور معاشرے کی تباہی وبربادی کی وجہ بھی سوچ ہی ہوتی ہے ۔یاد رہے سوچنا اللہ کی جانب سے عطا کردہ ایک ایسا فن ہے جو کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا ۔سوال یہ ہے کہ سوچ کیا ہے ؟ معانی کے لحا ظ سے سوچ غوروفکر ،معاملے کے مختلف پہلوؤں یا نتائج پر گہری نظر ڈالنے کی صلاحیت کو کہا جاتا ہے ۔جو ہر جاندار اپنے اپنے انداز میں رکھتا ہے لیکن انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کی وجہ سے یہ صلاحیت غیر معمولی عطا ہوئی ہے ۔انسان کے ذہن میں موجود خاکے کو بھی سوچ کا ہی نام دیا جاتا ہے ۔ایک کمہار جب برتن نبانے لگتا ہے تو جو وہ بنانا چاہتا ہے وہ پہلے سے ذہں میں ہوتا ہے چاہے وہ حقے کی چلم بناۓ یا پھر پانی کی صراحی بناۓ اور لوہار کے ذہن میں جو خاکہ ہوتا ہے وہی بنتا ہے چاہے وہ کلہاڑی ہو یا چمٹا ہو ،سوچ پہلے سے اسکے ذہں میں موجود ہوتی ہے ۔ایک سائنس دان ایٹم بم بناتا ہے یا پھر ایٹم سے بجلی بناتا ہے یہ اسکی سوچ ہے ۔غرض ہر چیز سوچ سے جنم لیتی ہے ۔چاہے وہ منفی ہو یا مثبت ہو ۔سوچ خواہش پیدا کرتی ہے اور خواہش کے پورا ہونے میں الگ الگ وقت لگتا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ ہر کسی کی ہر خواہش پوری بھی ہو جاۓ اور ہر سوچ پروان بھی چڑسکے ۔ ہم سوچ تو سکتے ہیں اور خواہش بھی کر سکتے ہیں لیکن خواہشات صرف رب کی رضا سے ہی پوری ہوتی ہیں اور رب کی رضا ہماری کوشش اور جدوجہد سے حاصل ہوتی ہے ۔
زندگی اور سوچ ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں ۔جب تک سانس باقی ہیں سوچ بھی باقی رہتی ہے ۔سانس سے سوچ اور سوچ سے رویے جنم لیتے ہیں اور رویے ہی معاشرے کو تشکیل دیتےہیں ۔سوچ ہمیشہ دو طرح کی ہوتی ہے ، ایک مثبت اور دوسری منفی اور سوچنے کا انداز انسان خود اختیار کرتا ہے اور اس کا ہر عمل اس کی اسی سوچ کا محتاج ہوتا ہے اور اس کا عمل ہی دنیا کو بتاتا ہے کہ اس کی سوچ منفی ہے یا مثبت ہے ۔ایک جانب منفی انداز فکر ہوتا ہے تو دوسری جانب مثبت سوچ ہوتی ہے ۔مثبت سوچ انسان کے کردار کی آئینہ دار ہوتی ہے اور انسانی کردار کی پختگی میں معاون ثابت ہوتی ہے مثبت سوچ انسانی زندگی میں کامیابیوں کا باعث بنتی ہے اور ایک مثبت معاشرے کو جنم دیتی ہے جبکہ دوسری جانب منفی سوچ کے بارے ٔ میں کہا جاتا ہے کہ “منفی سوچ اور پاوں کی موچ انسان کو کبھی آگے نہیں بڑھنے دیتی “یعنی یہ دونوں ہی انسانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔بلکہ تباہی کی وجہ بن جاتی ہے ۔معاشرے اور قومیں ہمیشہ مثبت اور اچھی سوچ سے ترقی کے زینے طے کرتی ہیں ۔اسی لیےزندگی کے ہر مقام پر مثبت سوچ کو خوبصورت اور منفی سوچ کو بد صورت تصور کیا جاتا ہے ۔ہمارے استاد کہا کرتے تھے سوچ بڑی کرنا چاہتے ہو تو بڑی سوچ والوں کے ساتھ بیٹھا کرو ۔
سو چ کے یہ زاوئیے ہمیشہ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ہماری سوچ ہمیشہ مثبت یا منفی نہیں رہتی حالات ،وقعات ،حادثات اور خواہشات سوچ بدلتے رہتے ہیں ۔وقت کے تقاضوں کے مطابق سوچنا ہی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے ۔ذرا سوچیں کیا ہمیں اس وقت ایک وسیع تر قومی سوچ کی ضرورت نہیں ہے ؟ آئیں سب مل کرقومی سوچ کے زاوئیے بدلنے میں اپنا اپنا انفرادی اور اجتماعی کردار ادا کریں ۔کیونکہ یہی وقت کا تقاضا اور ضرورت ہے۔یاد رہے کہ یہ وقت گہرے سمندر میں گرا ہوا موتی ہے جس کا دوبارہ ملنا ناممکن ہے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں