شاید 2007 کی بات ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں ان دنوں ہمارا ہاؤسنگ پروجیکٹ چل رہا تھا ٹاؤن ون اور ٹاؤن ٹو کے نام سے۔ مجھ پر ناگہانی افتاد یہ آن پڑی کہ مجھے ڈویلپمنٹ کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ میں نے بہت احتجاج کیا کہ مجھے اس کام کے متعلق نہ کچھ معلوم ہے نہ کوئی تجربہ ہے لیکن کوئی میری فغاں سننے کو تیار نہیں تھا۔ جب فرار کی کوئی صورت باقی نہ رہی تو پھر گلے پڑا ڈھول بجانا ہی پڑا۔
بہت سا سپیڈ ورک میرے چارج سنبھالنے سے پہلے ہو چکا تھا۔ ادھر اُپدھر سے کچھ معلومات حاصل کرنے کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم فکسڈ ریٹ کنٹریکٹ کریں گے۔ یعنی کام شروع ہونے کے بعد کوئی اسکلیشن نہیں دی جائے گی۔ کنسلٹنٹ نے کہا، اس طرح کا کبھی کوئی کنٹریکٹ نہیں ہوتا۔ لیکن میرا اصرار یہی تھا۔ مینجمنٹ کمیٹی کے صدر اور سکریٹری نے بھی استفسار کیا کہ میرے اس اصرار کی وجہ کیا ہے۔ میرا جواب تھا کہ مجھے اپنی کمیونٹی کے مزاج کا کچھ اندازہ ہے۔ کل کو اگر آپ نے دوبارہ پیسے طلب کیے تو لوگوں نے آپ کو جوتے مارنے ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ کڑوا گھونٹ کرکے ایک ہی بار بتا دیا جائے کہ کُل ڈویلپمنٹ چارجز کتنے ہوں گے۔ خیر دوستوں نے میری اس رائے کو تسلیم کر لیا اور یہ شق کنٹریکٹ میں شامل کر دی گئی۔
اب ٹیندر طلب کیے گئے۔ صرف تین کمپنیوں نے ٹینڈر فائل کیے۔ کمیٹی کی میٹنگ میں ٹینڈر کھولے گئے تو کم ترین اور دوسرے نمبر کے ٹینڈر میں تیرہ کروڑ کا فرق تھا۔ اب مجھے ٹھیک طرح سے تو یاد نہیں لیکن ٹاؤن ون اور ٹاؤن ٹو کے سول ورک کا ٹینڈر تقریباً 41 کروڑ روپے میں دیا گیا تھا۔ ہماری خوش قسمتی یہ رہی کہ جس کمپنی کو کنٹریکٹ ملا اس کے مالکان روایتی ٹھیکیداروں کے برعکس پڑھے لکھے تھے بلکہ دونوں خود انجنیئر تھے۔ عصر کا وقت تھا جب ہم نے دستاویزات پر دستخط کیے اور ستم یہ ہوا کہ اسی روز مغرب کے بعد پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان ہو گیا۔
ابھی کام کا باقاعدہ آغاز نہیں ہوا تھا کہ یونیورسٹی کی اعلیٰ انتظامیہ تبدیل ہو گئی اور ڈاکٹر مجاہد کامران وائس چانسلر بن گئے۔ انھوں نے مینجمنٹ کمیٹی میں کچھ تبدیلیاں کیں اور ڈاکٹر سعید ناگرہ (مرحوم) کو کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا لیکن مجھے ڈویلپمنٹ کمیٹی کے چئیرمین کے طور پر برقرار رکھا۔
کمیٹی کے اراکان کو میں نے کہا کہ اب ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ اس کنٹریکٹر کو بھاگنے نہ دیں کیونکہ تیرہ کروڑ کا فرق بہت زیادہ ہے۔ اس لیے ہمیں اگر دو تین کروڑ اضافی بھی خرچ کرنا پڑے تو اس کے لیے تیار رہنا چاہیے کیونکہ اس میں بھی ہمار فائدہ ہے۔ کنٹریکٹرز کو یہ یقین دہانی کرائی کہ انھیں کسی کو ایک پیسے کی بھی رشوت نہیں دینی پڑے گی۔ کہنے کو یہ یقین دہانی تو کرا دی لیکن مسئلہ یہ تھا اکاؤنٹس یونیورسٹی کے پاس تھے۔ کنٹریکٹر کی طرف سے جو پہلا بل آیا وہ کوئی پونے دو کروڑ کے لگ بھگ تھا۔ جب وہ بل ٹریژر آفس پہنچا تو متعلقہ کلرک نے اپنی روایتی رعونت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سوسائٹی کلرک کو کہا، رکھ دو اسے بعد میں دیکھیں گے۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ اپنے تاخیری ہتھکنڈوں سے باز نہیں آئیں گے۔ خیر اگلے روز، جمعہ کے دن، میں ناگرہ صاحب اور ممتاز سالک صاحب کو ساتھ لے کر خزانہ دار سے ملاقات کرنے گیا اور وہاں اس کے ساتھ اچھی خاصی جھڑپ ہو گئی۔
سوموار کی صبح میں وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کے پاس گیا اور ان سے کہا، یہ کام اس طرح نہیں چل سکتا۔ اگر اس پروجیکٹ کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے تو اکاؤنٹس ہمارے حوالے کر دیں۔ مجاہد صاحب نے خزانہ دار اور ریذیڈنٹ آڈیٹر کو بلا بھیجا۔ وہ آئے تو مجاہد صاحب نے سوال پوچھا، یہ پیسے کن کے ہیں۔ دونوں نے جواب دیا، ان کے۔ مجاہد صاحب نے کہا، پھر ان کے حوالے کریں۔ اسی وقت ہم نے بنک میں مشترکہ اکاونٹ کھلوایا جسے چیئرمین مینجمنٹ کمیٹی اور چیئرمین ڈویلپمنٹ کمیٹی نے آپریٹ کرنا تھا۔
سچ تو یہ ہے کہ جوش میں آ کر یہ کام تو کر لیا لیکن بعد میں ٹھنڈے دل سے سوچا تو میں کانپ کر رہ گیا۔ روپے پیسے کا معاملہ بڑا نازک ہے اور ہمارے ہاں لوگ الزام عائد کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ پہلا وہی چیک سائن کرنا پڑا جو کوئی پونے دو کروڑ کا تھا۔ ہماری اپنی حالت اس وقت یہ تھی کہ شاید کبھی ایک لاکھ روپے کے چیک پر بھی دستخط نہ کیے ہوں۔ ناگرہ صاحب نے تو گھبرا کر فوراً اپنی جگہ ڈاکٹر جمیل انور صاحب کو چیئرمین مینجمنٹ کمیٹی بنوا دیا۔ میں نے ایک دن کنٹریکٹرز سے کہا کہ میں نے اپنی تمام عمر کی کمائی ہوئی عزت داؤ پر لگا دی ہے۔ انھوں نے کہا، ڈاکٹر صاحب، آپ مت گھبرائیں۔ کچھ بھی ہو جائے ہم آپ کے نام پر حرف نہیں آنے دیں گے۔
اس کام کے دوران میں ناتجربہ کاری کے باوجود مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹیم ورک کیسے کیا جاتا ہے، دوسروں سے کام لینے کے کیا لوازم ہیں۔ اگر ہر ورکر کی عزت نفس کا پاس کیا جائے تو کافی بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ ایک تجربہ یہ ہوا کہ ہمارے ہاں فیصلہ تک پہنچنے سے پہلے اگرچہ بحث مباحثہ بہت ہوتا ہے لیکن فیصلہ کی ذمہ داری اٹھانے سے گریز کیا جاتا ہے اور اسے التوا میں رکھا جاتا ہے۔ ہماری کمیٹی میں چونکہ کافی تعداد پروفیسروں کی تھی اس لیے بعض اوقات کسی فیصلے پر پہنچنا مشکل ہو جاتا تھا۔ ایک آدھ بندہ جو ٹیکنیکل تھا اس کا زیادہ وقت مین میخ نکالنے میں صرف ہوتا تھا۔ کمیٹی کی مینٹنگز تو باقاعدہ ہوتی رہتی تھیں لیکن میں نے ڈاکٹر جمیل انور صاحب کو کہہ کر چار بندوں پر مشتمل ایک غیر اعلانیہ سی سب کمیٹی بنوا لی۔ تھی۔ دیگر دو ارکان ڈاکٹر سعید ناگرہ اور ڈاکٹر حارث رشید تھے۔ آخری فیصلہ ہم چاروں مشاورت سے کیا کرتے تھے۔
ہمارا کنٹریکٹ فکس ریٹ والا تھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ہر آئٹم کی قیمت میں روز بروز اضافہ ہو رہا تھا۔ اس بنا پر کنٹریکٹرز مشکل میں تھے۔ میری کوشش یہی ہوتی تھی کہ ان کو ادائیگی میں ادنیٰ سی بھی تاخیر نہ ہو۔ بعض اوقات یہ بھی کیا کہ دو کروڑ تک ایڈوانس دے دیا۔ ڈاکٹر جمیل انور صاحب میرے اس طرح کے فیصلوں سے بہت پریشان ہو جاتے تھے۔ ایک دن انھوں نے میرے فیصلوں پر کچھ تحفظات کا اظہار کیا تو میں نے کہا، ڈاکٹر صاحب، ہم اپنی بے عزتی کرانے کا پورا سامان کر چکے ہیں۔ اب ہماری بچت اسی میں ہے کہ ہم کسی نہ کسی طرح یہ کام مکمل کروا دیں۔ بہرحال بلاتاخیر ادائیگی کی پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ تعمیراتی سامان کی قیمتیں تقریباً دوگنا ہو جانے کے باوجود ہم نے ٹاؤن ون کا سول ورک، جس کا ٹھیکہ 11 کروڑ کا تھا، 10 کروڑ میں مکمل کر لیا تھا یعنی ایک کروڑ کی بچت کی تھی۔

میں تقریباً تین سال تک اس ذمہ داری کو نبھاتا رہا۔ اس عرصے میں ٹاؤن ٹو کا بھی تقریباً 70 فیصد سول ورک ہو چکا تھا۔ دونوں ٹاؤنز کے بجٹ سے تقریباً تیس کروڑ کے لگ بھگ ہم نے خرچ کیا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میں اور کمیٹی کے دیگر ارکان کسی بھی طرح کے الزام سے محفوظ رہے۔ جب میں نے ڈویلپمنٹ کمیٹی کی رکنیت اور صدارت سے استعفا دیا تو کنٹریکٹرز مجھ سے الوداعی ملاقات کرنے میرے دفتر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے زندگی میں پہلی بار ایسا کام کیا ہے جس میں کسی نے ان سے چائے کا ایک کپ بھی نہیں پیا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں