مرد کو قوام بنایا گیا اور اسے تلاشِ رزق اور بیوی بچوں کی کفالت کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ عورت کو گھر کے نظم، شوہر کے مال و عزت کی حفاظت اور بچوں کی تربیت و پرورش کا مکلف بنایا گیا ہے۔ یوں تو عائلی فساد کے ذمہ دار دونوں ہی ہوتے ہیں پر اگر عورت چاہے تو بیشتر روزمرہ کے اختلافات ہوں ہی نہ یا ہوکر بہت جلد ختم ہوجائیں۔ ہم جن پسماندہ علاقوں اور جس معاشی تنگدستی کے ماحول سے تعلق رکھتے ہیں وہاں چاہتے ہوئے بھی مشترکہ عائلی نظام سے بچ پانا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام کے جہاں کچھ اثباتی پہلو ہیں وہیں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ محدود وسائل اور غیر محدود ضروریات کے چلتے اختلافات بہت ہوتے ہیں، اور کم و بیش تمام اختلافات کی وجہ چھوٹی سی چھت کے نیچے ڈھیر سارے لوگوں کی پرائیویسی میں خلل اور وسائل کی کمی ہی ہوتی ہے۔
وسائل کی فراہمی کا مسئلہ اتنا بڑا ہوتا ہے مرد کے لئے کہ بیشتر کو کسی اور جگہ مداخلت حتی کہ لڑنے جھگڑنے تک کا موقع نہیں مل پاتا۔ ایسا نہیں کہ تمام مرد معصوم اور تمام عورتیں فسادی ہیں، پر بیشتر مشترکہ گھروں میں عورت کے اپنے ہی بھانت بھانت کے نظام اور مسائل ہوتے ہیں۔ مثلاً شادی کے بعد اس عورت کو بھی فوری طور پر اپنی ذاتی چھت چاہیے جو اپنی بیس پچیس سالہ زندگی اپنے والدین کے ساتھ کرائے کے گھر میں گزار کر آئی ہے، اس عورت کو بھی ساس سسر کا جھمیلا برداشت نہیں جو اپنی رخصتی کے وقت روتے روتے اپنی بھابھی کو کہہ کر آئی تھی کہ امی ابو کا خیال رکھنا، نند اس عورت کو بھی ایک آنکھ نہیں بھاتی جو ہر بار مائیکے جانے پر اپنے بھائی کے کان میں پھونک کر آتی ہے کہ بھیا اماں ابا بوڑھے ہوچکے ہیں اب تمہیں ہی چُھٹکی کا خیال رکھنا ہوگا، شوہر کی کمائی پر وہ عورت بھی کنڈلی مار کر اکیلے بیٹھنا پسند کرتی ہے جو ہر مہینے کے آخر میں بھائیوں کو ٹیلی فون کرکے یاد دلاتی رہتی ہے کہ بیٹوں کی کمائی پر والدین اور بھائی بہنوں کے کتنے بڑے بڑے حقوق ہیں، اپنے سگے بھائی کو پہلی کمائی سے خریدے جارہے فلیٹ کو ابا اماں کے نام رجسٹری کرنے پر مجبور کرنے والی عورت بھی اپنے شوہر سے اپنے نام رجسٹری کا عہد و پیمان ایسے نازک وقت میں کروا لیتی ہے جب مرد کے پاس انکار کی کوئی گنجائش تک نہیں ہوتی ہے۔
معاملہ صرف بیوی کی صورت عورت تک خاص نہیں، ماں بہن اور بیٹی کا بھی یکساں معاملہ ہے۔ وہی ماں جو اپنے داماد کو اپنی بیٹی کے ساتھ اکیلے رہنے کے فوائد سکھاتی ہے اگر خود کی بہو خواب میں بھی اکیلے ہونے کا تصور کرلے تو آسمان سر پہ اٹھا لیتی ہے، وہی ماں جو داماد کو سبق پڑھاتی ہے کہ اسکی کمائی پر بنیادی شرعی حق اسکی بیٹی اور نواسے نواسیوں کا ہے اگر اسکا اپنا بیٹا چھپا کے اپنی بیوی بچوں کے لئے ایک آئس کریم تک لے آۓ تو بیٹے پر دعا تعویذ کئے جانے کی روایات سارے رشتے داروں تک پہنچا دیتی ہے۔ وہی ماں جسے انتظار رہتا ہے کہ اسکی اپنی بیٹیاں داماد نواسے نواسیاں ہر سنڈے ملنے آجایا کریں اگر بیٹا چار چھ مہینے پر بھی بیوی بچوں کو لیکر سسرال کی طرف نکل جائے تو جورو کا غلام سے کم والے ٹائیٹل سے کام نہیں بن پاتا۔
دلچسپ تو یہ ہے کہ یہی ساس بھی کبھی بہو تھی، یہی بہن بھی کسی کی نند تو کسی کی بھابھی تھی۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ یہ ہے کہ عورت کسی بھی صورت میں ہو جب اپنی آپ بیتی سناتی ہے تو ہر عورت صرف اور صرف مظلوم ہی ہوتی ہے، بہو تھی تو ساس نے ستایا تھا، ساس ہے تو بہو ستا رہی ہے، بھابھی تھی تو نند نے پریشان کر رکھا تھا، نند ہے تو بھابھیوں نے جینا دُوبھر کر رکھا ہے، دیورانی ہے تو جیٹھانی سے تنگ ہے اور جیٹھانی ہے تو دیورانی نے جینا حرام کر رکھا ہے۔ پورے قضیے میں جہاں مظلوم عورت ہے وہیں ظالم بھی عورت ہی ہے، بس آج تک یہ عقدہ عقدہ ہی ہے کہ وہ ظالم عورت ہے کون۔۔ بیوی ہے، ساس ہے، نند ہے، بھاوج ہے، یا پھر دیورانی یا جیٹھانی ہے؟ ۔
مرد بھی کچھ کم ظالم نہیں، اور اس کا سب سے بڑا ظلم یہی ہے کہ سارا دن رزق کی تگ و دو کرتے ہوئے وہ مزدور یا مالک جو بھی ہو پر شام کو گھر میں داخل ہوتے ہی وہ کسی کا بیٹا، کسی کا شوہر اور کسی کا بھائی ہوتا ہے۔
اس سب کے باوجود، میں مانتا ہوں کہ عورت ہی خیر متاع الدنیا ہے اور اسی کے وجود سے تصویر کائنات کا سارا رنگ ہے۔
نوٹ: ایسا نہیں کہ مرد کچھ فرشتہ صفت مخلوق ہے، یہ سطور بس کل نظر سے گزری کسی عزیز کی پوسٹ کے تناظر میں لکھی گئی ہیں۔ مَردوں کی مردودیت پر بھی لکھا جائے گا کبھی!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں