چنگیز خان اور جموکا/محمد جنید اسماعیل

تموجن (چنگیز خان )نے جموکا کو اپنا منہ بولا بھائی بنایا تھا کیونکہ اس نے اُس کی ایک دفعہ جان بچائی تھی۔۔(Blood brother ۔۔اس کا مطلب سگے بھائی نہیں بلکہ منگولوں کی روایت کے مطابق جب وہ ایک دوسرے سے دوستی یا بھائی چارے کا ہاتھ بڑھاتے تو دونوں طرف سے تلوارسے خون نکال کر دودھ میں ملا کر پیا جاتاتھا اور یہ عہد کی پختگی کی علامت تھی)۔
جب جموکا اور تموجن آپس میں جنگ کرنے پہ آئے تو چنگیز خان نے آندھی اور طوفان کے باوجود لشکر کشی کردی اور جنگ جیت لی۔۔جموکا کو چنگیز خان کے سپاہیوں نے گرفتار کرکے اس کےروبرو پیش کیا تو جموکا چنگیز خان سے کہتا ہے کہ منگول تو عام طور پر گرج چمک سے ڈرتے ہیں تو کیا تمہیں اس سب سے ڈر نہیں لگا تو چنگیز خان نے بڑا پیاراجواب دیا
” جب مجھے Targutai نے غلام بنالیا تھا اور مجھے طوفان کے اندر بھی باہر کھڑا کردیا جاتا تھا تو میرے پاس کوئی اور راہ نہیں ہوتی تھی سوائے طوفان کو برداشت کرنے کے اس لئے میں تب سے طوفان سےڈرنا چھوڑ چکا ہوں ، کیونکہ میں جان چکا ہوں کہ طوفان میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا“۔

جب ہم موت سے ڈرنا چھوڑ دیتے ہیں تب موت ہم سے ڈرنا شروع کردیتی ہے اور انسان وہ معرکے سرانجام دینا شروع کردیتا  ہے جو باقی دنیا کیلئے ناممکن ہوتے ہیں ۔

چنگیز خان کے ظلم کی ہزار داستانیں مشہور ہوں اور ہلاکو خان کا کیا دھرا اگرچہ اس پہ ڈالا گیا لیکن چنگیز خان عزم و ہمت ٫ایفائے عہد اور اصولوں کا پکا انسان تھا۔

جب اس نے جموکا کو بھائی بنایا تو جموکا نے اسے کہا کہ ہم ایک ساتھ فتوحات کرتے ہیں لیکن وہ کہتا تھا کہ میں اکیلا حکومت کرنے کا عادی ہوں لیکن اس سب کے باوجود اس نے جموکا پر کبھی پہل نہیں کی۔۔جب جموکا نے چنگیز کو گرفتار کیا تھا تو اس نے اس پر کوئی رحم نہیں کیا اور اسے غلام بناکر بیچنے کیلئے بھیج دیا  لیکن جب چنگیز خان نے جموکا کو گرفتار کرلیا تو اسے آزاد کردیا ،یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ اب بھی آرام سے نہیں بیٹھے گا۔

جاتے وقت جموکا کے الفاظ تھے کہ
“You are letting your enemy go ”

چنگیز خان نے جواب دیا کہ
“I am letting my brother go”

جموکا کے ساتھ فیصلہ کن جنگ میں دو بندے ایک لاش لائے اور چنگیز خان کو خوشی سے بتایا کہ ہم آپ کا دشمن لاۓ ہیں ۔وہ دشمن چنگیز خان کا ذاتی دشمن Targutai تھا جس نے اس کے باپ کو مارا تھا اور اسے اتنا عرصہ قید رکھا تھا۔وہ دو اشخاص انعامات و نوازشات کے منتظر تھے کہ چنگیز خان نے حکم دیا کہ ان دونوں کو قتل کردو ۔جب وجہ پوچھی گئی  تو چنگیز خان نے جواب دیا کہ انہوں نے اپنے ہی خان یعنی سردار کو دھوکا دے کر منگول روایات کی خلاف ورزی کی ہے ۔

اس بات سے مجھے صلاح الدین ایوبی کا رچرڈز سے برتاؤ  یاد آگیا اور سکندرِ اعظم کا دارا (Darius ) کے قتل کے بعد برہمی کا اظہار یاد آگیا۔۔دارا سے جنگ کےدوران سکندرِ اعظم اتنا اس کے خون کا پیاسا تھا کہ جب جنگ اختتام کو پہنچ رہی تھی وہ خود نیزہ لیکر اس کا پیچھا کرنے لگا لیکن جب اس کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس کو ایک جگہ دارا کی لاش ملی تو وہ غصہ ہونے لگا۔۔اس کے ساتھی دوست اور ہم جماعت نے کہا کہ تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ تمہارا دشمن مارا گیا تو سکندرِ اعظم سیخ پا ہوگیا اور کہا کہ ایک بادشاہ کو بادشاہ کے ہاتھوں ہی مرنا چاہیے اور یہ عزم کیا کہ اس کے قاتلوں کو ڈھونڈ کر وہ خود مارے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بے شک عظیم لوگوں کے اصول بھی عظیم ہوتے ہیں۔۔صلاح الدین ایوبی رحم دلی اور خدا ترسی کا پیکر تھا لیکن میدان جنگ کے باہر اور میدان جنگ کے اندر وہ بھیڑیا تھا جو کسی کی بخشش نہیں کرتا

Facebook Comments

محمد جنید اسماعیل
میں محمد جنید اسماعیل یونی ورسٹی میں انگلش لٹریچر میں ماسٹر کر رہا ہوں اور مختلف ویب سائٹس اور اخبارات میں کالم اور آرٹیکل لکھ رہا ہوں۔اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے ٹیلنٹ مقابلہ جات میں افسانہ نویسی میں پہلی پوزیشن بھی حاصل کرچکا ہوں،یونیورسٹی کی سطح تک مضمون نویسی کے مقابلہ جات میں تین بار پہلی پوزیشن حاصل کرچکا ہوں۔مستقبل میں سی ایس ایس کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔میرے دلچسپی کے موضوعات میں کرنٹ افیئرز ،سیاسی اور فلاسفی سے متعلق مباحث ہیں۔اس کے علاوہ سماجی معاملات پر چند افسانچے بھی لکھ چکا ہوں اور لکھنے کا ارادہ بھی رکھتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply