الیخانی سلطنت ، مذہبی رواداری اور شیخ ابن تیمیہ/عامر حسینی

ایلخانی سلطنت (1256–1335) منگول سلطنت کی ایک شاخ تھی، جو ایران، عراق، آذربائیجان، ارمنستان، جارجیا، اور ترکی کے مشرقی حصوں پر مشتمل تھی۔ اس کی حدود مغرب میں اناطولیہ (ترکی) سے لے کر مشرق میں افغانستان تک، اور شمال میں قفقاز سے جنوب میں خلیج فارس تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ایلخانی حکمرانوں نے بغداد پر قبضہ کیا اور عباسی خلافت کا خاتمہ کیا، اور بعد میں اسلام قبول کیا، جس سے خطے میں اسلامی ثقافت اور شیعہ اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا۔

ایلخانی سلطنت میں مذہبی رواداری: غازان خان کی حکمرانی، فقہ کا نفاذ، اور ابن تیمیہ کے نظریات کے رد ایلخانی سلطنت (1256-1335) منگول سلطنت کی ایک شاخ تھی، جو ایران، عراق، اور آس پاس کے علاقوں پر مشتمل تھی۔ اس سلطنت کے قیام کے بعد، ایلخانی حکمرانوں نے مختلف مذاہب اور فرقوں کے ساتھ رواداری کا رویہ اپنایا، جو ان کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ غازان خان کے اسلام قبول کرنے کے بعد بھی، ایلخانی سلطنت نے مذہبی تنوع کو تسلیم کیا اور مختلف مذہبی برادریوں کے ساتھ عمومی طور پر رواداری برقرار رکھی۔ اس مضمون میں ایلخانی سلطنت کی مذہبی پالیسی، غازان خان کے مذہبی رجحانات، سرکاری فقہ کا نفاذ، اور ابن تیمیہ کے تکفیری نظریات کو فروغ نہ ملنے کی وجوہات کو تاریخی حوالوں کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ، ایلخانی سلطنت میں موجود سنی علماء کی طرف سے ابن تیمیہ کی مذمت میں بیانات کا ذکر بھی شامل ہے۔

ابتدائی دور: مذہبی تنوع اور رواداری
ایلخانی سلطنت کے ابتدائی دور میں منگول حکمرانوں نے مختلف مذاہب کے ساتھ ایک متوازن اور روادارانہ رویہ اپنایا۔ ہلاکو خان کے بعد، حکمرانوں نے مذہبی معاملات میں نسبتاً غیر جانبدارانہ رویہ برقرار رکھا، اور مختلف مذہبی گروہوں کو ان کے عقائد اور رسومات کی آزادی دی۔
1- مذہبی رواداری کے شواہد:
ایلخانی حکمرانوں کی جانب سے مذہبی رواداری کے متعدد شواہد موجود ہیں۔ ہلاکو خان کی حکمرانی کے دوران عیسائیوں، یہودیوں، اور زرتشتیوں کو خصوصی تحفظ حاصل رہا، اور ان کے مذہبی مقامات کو نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ منگول حکمرانوں نے عموماً مذہبی تنوع کو قبول کیا اور انہیں اپنی حکومت کی مضبوطی کے لیے مفید سمجھا۔
2. منگول حکمرانوں کا متوازن رویہ:
ایلخانی حکمرانوں نے مذہبی رواداری کو ایک سیاسی حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا تاکہ مختلف نسلی اور مذہبی گروہوں کو متحد رکھا جا سکے۔ یہ رویہ اسلامی سلطنتوں کی روایتی رواداری کے مطابق تھا، جس نے ایلخانی سلطنت کی کامیابی اور استحکام میں مدد کی۔

غازان خان کا دور: اسلام قبولیت اور حنفی فقہ کا نفاذ
غازان خان (1295-1304) کا دور ایلخانی سلطنت کے لیے ایک اہم موڑ تھا، جب انہوں نے اسلام قبول کیا اور سلطنت میں حنفی فقہ کو سرکاری طور پر نافذ کیا۔ ان کی حکمرانی میں اسلامی قوانین کو فروغ دیا گیا، لیکن مذہبی رواداری کی پالیسی کو برقرار رکھا گیا۔
1. غازان خان کی اسلام قبولیت:
غازان خان نے 1295ء میں اسلام قبول کیا، جس کے بعد اسلامی تعلیمات کو سلطنت میں مرکزی حیثیت حاصل ہوئی۔ وہ نہ صرف ایک حکمران بلکہ اسلامی احیاء کے علمبردار بھی بنے، جس نے سلطنت کو اسلامی قوانین کے تحت منظم کرنے کی کوشش کی۔
تاریخ دان رشید الدین فضل اللہ کی تحریروں کے مطابق، غازان خان نے اسلام قبول کرنے کے بعد کئی اصلاحات کیں، جن کا مقصد سلطنت کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنا تھا۔ تاہم، انہوں نے دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے خلاف سخت اقدامات سے گریز کیا اور مذہبی رواداری کو برقرار رکھا۔
2. حنفی فقہ کی سرکاری سرپرستی:
غازان خان نے حنفی فقہ کو سرکاری فقہ کے طور پر نافذ کیا، جو اس وقت کی سنی دنیا میں سب سے زیادہ مقبول اور لچکدار فقہ تھی۔ اسلامی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا، اور عدلیہ کو اسلامی قوانین کے تحت منظم کیا گیا۔
حنفی فقہ کے نفاذ کے باوجود، غازان خان نے عیسائی، یہودی، اور زرتشتی برادریوں کے حقوق کا احترام کیا، اور انہیں اپنے مذہبی عقائد پر عمل کرنے کی آزادی دی۔
3. مذہبی رواداری کا تسلسل:
غازان خان نے مذہبی رواداری کی پالیسی کو برقرار رکھا، جس کی تصدیق مختلف تاریخی ذرائع سے ہوتی ہے۔ مثلاً، “جامع التواریخ” میں رشید الدین فضل اللہ نے غازان خان کی مذہبی پالیسیوں کو تفصیل سے بیان کیا ہے، جس میں غیر مسلموں کے تحفظ اور ان کے حقوق کی فراہمی کا ذکر موجود ہے۔

اولجایتو (1304-1316): شیعہ اسلام کی طرف جھکاؤ
اولجایتو، غازان خان کے بعد ایلخانی حکمران بنا اور اس نے شیعہ اسلام کو قبول کیا۔ اس کے دور میں سلطنت نے شیعہ اسلام کو سرکاری سرپرستی دی، مگر سنی اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ عمومی رواداری برقرار رہی۔
1. شیعہ اسلام کی سرپرستی:
اولجایتو نے شیعہ اسلام کو فروغ دیا اور سنی عقائد کے خلاف بعض اقدامات کیے، مگر یہ فرقہ وارانہ کشیدگی بڑے پیمانے پر نہیں تھی۔ عمومی طور پر، مذہبی تنوع کی پالیسی کو برقرار رکھا گیا، اور مختلف مذاہب کے پیروکاروں کو ان کے حقوق اور مذہبی آزادی کی یقین دہانی کرائی گئی۔
2. سنی علماء کا ردعمل:
اس دور میں کچھ سنی علما نے اولجایتو کی شیعہ سرپرستی کی مخالفت کی، مگر مجموعی طور پر سلطنت میں مذہبی ہم آہنگی برقرار رہی۔ اولجایتو کے دور میں سنی علما  کی طرف سے شیعہ نظریات کے خلاف فتوے جاری کیے گئے، مگر انہوں نے عمومی امن و امان کو متاثر نہیں کیا۔

ایلخانی سلطنت میں ابن تیمیہ کے نظریات کو فروغ نہ ملنے کی وجوہات
ابن تیمیہ (1263-1328) کے نظریات، جو تکفیر، جہاد، اور بدعت کے خلاف سخت موقف رکھتے تھے، ایلخانی سلطنت میں فروغ نہیں پا سکے۔ اس کی چند وجوہات درج ذیل ہیں:
1. مختلف مذہبی ماحول:
ایلخانی سلطنت کا مذہبی ماحول ابن تیمیہ کی نظریات کے برعکس تھا۔ منگول حکمرانوں کی پالیسی مذہبی تنوع اور رواداری پر مبنی تھی، جو ابن تیمیہ کی سخت گیر نظریات کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی تھی۔
ابن تیمیہ کی تعلیمات میں شرک، بدعت، اور غیر اسلامی رسومات کے خلاف سخت اقدامات کی حمایت کی گئی تھی، جب کہ ایلخانی حکمرانوں نے عمومی طور پر مذہبی تنوع کو تسلیم کیا۔
2. سیاسی اور حکومتی ترجیحات:
ایلخانی حکمرانوں کی سیاسی ترجیحات میں استحکام، مختلف گروہوں کے درمیان توازن، اور سلطنت کی بقا شامل تھی۔ ابن تیمیہ کے تکفیری نظریات، جو کہ فرقہ وارانہ کشیدگی اور مذہبی سختیوں کو فروغ دیتے تھے، ان حکمرانوں کے عملی مقاصد کے ساتھ ہم آہنگ نہیں تھے۔
3. سنی علماء کی مذمت:
ایلخانی سلطنت میں موجود سنی علماء نے ابن تیمیہ کے نظریات کی سختی سے مخالفت کی۔ سنی علما  نے ان کے تکفیری فتووں کو انتہا پسندانہ قرار دیا اور ان کے خلاف بیانات جاری کیے۔
ابن تیمیہ کے نظریات کی مذمت میں معروف عالم ابن حجر عسقلانی نے “الدرر الکامنہ” میں ان کی سختیوں پر تنقید کی۔ ان کے مطابق، ابن تیمیہ کے نظریات نے فتنہ اور فساد کو ہوا دی، جو اسلامی معاشرت کے اصولوں کے خلاف تھا۔
ابن بطوطہ، ایک مشہور سیاح، نے بھی ابن تیمیہ کے رویے کی مخالفت کی اور انہیں ایک متنازع شخصیت قرار دیا، جن کے نظریات نے سنی علماء کے درمیان اختلافات کو بڑھایا۔
نتیجہ
ایلخانی سلطنت کی تاریخ مذہبی رواداری اور تنوع کی عکاس ہے، جہاں غازان خان کی اسلام قبولیت اور حنفی فقہ کے نفاذ کے باوجود، عمومی طور پر مختلف مذہبی برادریوں کے ساتھ احترام کا رویہ برقرار رکھا گیا۔ ابن تیمیہ کے تکفیری اور جہادی نظریات کو ایلخانی سلطنت میں فروغ نہیں ملا کیونکہ حکمرانوں کی پالیسیز مذہبی ہم آہنگی، سیاسی استحکام، اور معاشرتی تنوع پر مرکوز تھیں۔ سنی علما  کی طرف سے ابن تیمیہ کی مذمت اور ان کے نظریات کی مخالفت نے بھی ان کے خیالات کو محدود کر دیا۔ اس طرح، ایلخانی سلطنت نے اپنی پالیسیوں میں مذہبی رواداری کو برقرار رکھا اور مختلف مذاہب کے درمیان بقائے باہمی کو فروغذا دیا، جس نے اس وقت کے متنوع سماجی ڈھانچے کی حمایت کی۔ ایلخانی حکمرانوں کی یہ رواداری نہ صرف سیاسی استحکام کے لیے ضروری تھی بلکہ اس نے مذہبی تنوع کو بھی فروغ دیا، جو اسلامی دنیا کی ایک دیرینہ خصوصیت رہی ہے۔

ایلخانی سلطنت میں رواداری کا تسلسل اور اس کے اثرات
ایلخانی حکمرانوں کی مذہبی رواداری نے ان کے زیرِ تسلط علاقوں میں مختلف مذاہب کے پیروکاروں کو ایک دوسرے کے ساتھ پرامن طور پر رہنے کا موقع فراہم کیا۔ اس دور میں مسلم علما ، مسیحی مشنری، یہودی ربی، اور زرتشتی کاہن سبھی اپنے اپنے مذہبی عقائد اور رسومات کی پیروی کر سکتے تھے، بشرطیکہ وہ سلطنت کی سیاسی اور سماجی استحکام میں خلل نہ ڈالیں۔
1. اقتصادی اور سماجی فوائد:
ایلخانی حکمرانوں کی رواداری نے اقتصادی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کیا، کیونکہ مختلف مذہبی اور نسلی گروہ تجارتی، تعلیمی، اور ثقافتی تبادلوں میں آزادانہ طور پر حصہ لے سکتے تھے۔ یہ رواداری نہ صرف اندرونی امن کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوئی بلکہ سلطنت کی مجموعی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
2. علمی ترقی اور ثقافتی تبادلے:
ایلخانی دور میں علمی ترقی اور ثقافتی تبادلے بھی فروغ پائے۔ بغداد، تبریز، اور مراغہ جیسے شہروں میں بڑے تعلیمی مراکز قائم کیے گئے، جہاں مسلم علما  کے ساتھ ساتھ عیسائی، یہودی، اور دیگر مذاہب کے علماء بھی تحقیق اور تدریس میں مصروف رہے۔
مشہور منگول وزیر، رشید الدین فضل اللہ، نے “جامع التواریخ” جیسا عظیم تاریخی کام ترتیب دیا، جس میں مختلف تہذیبوں اور مذاہب کی تاریخ کو شامل کیا گیا۔ یہ علمی رواداری ایلخانی سلطنت کی ایک نمایاں خصوصیت تھی۔
3. سیاسی اتحاد اور استحکام:
ایلخانی حکمرانوں نے مذہبی رواداری کے ذریعے مختلف گروہوں کے درمیان اتحاد اور استحکام کو فروغ دیا۔ منگول حکمرانوں کی یہ حکمت عملی انہیں مقامی آبادیوں کی حمایت حاصل کرنے اور منگول اقتدار کو مستحکم کرنے میں معاون ثابت ہوئی۔

ابن تیمیہ کے نظریات کے محدود اثرات اور ان کے خلاف بیانات
ایلخانی سلطنت میں ابن تیمیہ کے نظریات کو وسیع پیمانے پر قبولیت نہ ملنے کی ایک بڑی وجہ سنی علما  کی جانب سے ان کی مذمت اور ان کے خیالات کے خلاف بیانات تھے۔ سنی علما  ابن تیمیہ کے تکفیری اور سخت گیر نظریات کو انتہا پسندانہ سمجھتے تھے اور ان کے فتاویٰ کو اسلامی معاشرت کے اصولوں کے لیے نقصان دہ قرار دیتے تھے۔
1. ابن حجر عسقلانی اور دیگر علماء کی تنقید:
ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب “الدرر الکامنہ” میں ابن تیمیہ کے نظریات پر تنقید کی اور ان کے رویے کو فرقہ وارانہ کشیدگی کا سبب قرار دیا۔ ابن حجر کے مطابق، ابن تیمیہ کے فتاویٰ نے مسلم معاشرت میں فتنہ اور فساد کو فروغ دیا، جو اسلامی اصولوں کے خلاف تھا۔
2. ابن بطوطہ کی رائے:
معروف سیاح ابن بطوطہ نے بھی ابن تیمیہ کے نظریات کے بارے میں منفی رائے دی۔ ابن بطوطہ نے ابن تیمیہ کے بعض انتہا پسندانہ بیانات کو مسلم معاشرت میں انتشار کا باعث سمجھا اور ان کی سخت گیری کو سنی اسلام کی عمومی روایات کے منافی قرار دیا۔
3. علماء کی وسیع تر مخالفت:
ایلخانی دور کے سنی علما ، جیسے نجم الدین کبریٰ اور فخرالدین رازی کے شاگرد، بھی ابن تیمیہ کے نظریات کے مخالف تھے۔ انہوں نے اسلامی فقہ کی روایتی لچک اور رواداری پر زور دیا اور تکفیر جیسے سخت گیر نظریات کو قبول کرنے سے انکار کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نتیجہ: ایلخانی سلطنت کی رواداری کی میراث
ایلخانی سلطنت کی مذہبی رواداری اور تنوع نے اس دور کے اسلامی معاشرت میں ایک اہم مقام پیدا کیا، جہاں مختلف مذاہب کے پیروکار پرامن طور پر رہتے تھے۔ غازان خان کے اسلام قبول کرنے اور حنفی فقہ کے نفاذ کے باوجود، ایلخانی حکمرانوں نے عمومی طور پر دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے حقوق کا احترام کیا اور ان کے خلاف سخت گیر اقدامات سے گریز کیا۔
ابن تیمیہ کے تکفیری اور جہادی نظریات کو ایلخانی سلطنت میں فروغ نہ ملنے کی بنیادی وجوہات میں حکمرانوں کی سیاسی اور مذہبی رواداری کی پالیسی، سنی علماء کی مخالفت، اور مختلف مذاہب کے ساتھ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کی حکمت عملی شامل تھیں۔ اس طرح، ایلخانی سلطنت کی مذہبی پالیسی نے ایک متوازن اور روادار معاشرت کو فروغ دیا، جو اسلامی دنیا کی ایک دیرینہ خصوصیت تھی۔ ایلخانی حکمرانوں کی اس پالیسی نے نہ صرف سیاسی استحکام کو یقینی بنایا بلکہ اس نے مذہبی تنوع اور بقائے باہمی کی روایات کو بھی تقویت بخشی، جو آج بھی ایک اہم تاریخی سبق کی حیثیت رکھتی ہیں۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply