خط بنام رسول اللہ ﷺ / قُرسم فاطمہ

یا رسول اللہ ﷺ !

قلبی عقیدت، محبت، ادب و احترام کے ساتھ درود و سلام، خیر و برکت و مدح سرائی آپ کی بارگاہِ اقدس میں کہ آپ کی ذاتِ مبارکہ سے ہی یہ کائنات روشن، جہاں منور، رونقیں آباد، یہ رعنائیاں شاد اور زندگیاں رواں ہیں۔ آپ کی خدمتِ اقدس کے ساتھ آپ کے اہلِ بیتِ اطہار، خلفائے راشدین، والدین کریمین، ازواجِ مطہرات، اصحاب و اکابر اور تمام عاشقین کی خدمتِ اقدس میں بھی برکت و سلامتی کے ساتھ سلام عرض ہے۔

اے ربِ ذوالجلال کے ماہتاب آقا !

یوں تو ہماری اوقات نہیں کہ کسی طور بھی آپ کی ثنا خوانی کا حق ادا کرسکیں، نہ ہمارے لفظوں کی ایسی جسارت کہ آپ کی تعریف و توصیف کو قلم بند کرسکیں، نہ ہمارا لہجہ بلالی نہ الفاظ حسان بن ثابت کے لفظوں کی خاک کے برابر مگر پیارے آقا ﷺ! ہمیں صدقِ دل سے یہ اطمینان بلاشبہ ہے کہ ہم جس حال میں جس عالم میں بھی آپ کو پکاریں، آپ حرف بہ حرف ہماری فریاد سماعت فرماتے ہیں اور ہمارے غموں کی دادرسی فرما کر ہمارے قلوب کو ایسی راحت و تسکین عطا فرماتے ہیں کہ رواں رواں اسمِ محمد ﷺ کے ورد سے جھوم جھوم اٹھتا ہے۔

اے اُجالوں کے آفتاب آقا!

یہ حقیقت ہے کہ آپ کو خط لکھنے یا آپ سے فریاد کرنے کا کوئی ایک دن ایک لمحہ مقرر نہیں مگر بالخصوص آپ کے یومِ ولادت پر آپ کو خط کا یہ تحفہ ارسال کرنا میرے قلب و روح کو انتہائی پُرجوش کردیتا ہے۔ اسی خوشی کو محسوس کرنے کے لیے آج ایک بار پھر یہ جسارت کررہی ہوں، پیارے آقا! آپ ضرور قبول فرما لیجیے گا۔ آج وہ سعید ساعتیں آپہنچی ہیں جب آپ کو سرمدی حسن و جمال کے ساتھ جلوہ افروز فرما کر کائناتِ ارضی کی کایا پلٹ دی گئی تھی۔ وہ آج ہی کی شب تھی جب آپ احمد بن کر بہار کی مانند یوں جلوہ فرما ہوئے کہ تجلّیِ ربِ جہاں کا مظہر قرار پائے۔ یا رسول اللہ ﷺ! آپ کی آمد ہمیں مبارک ہو کہ آپ ہی ثمرِ نخلِ ایمان، جانِ کون و مکاں، چمنِ اوصافِ جبیں، حوالہِ حق اور خلیقِ شہہ بطحا ہیں۔ آپ راحتِ عاشقین بھی ہیں اور دافع رنج و بلا بھی، آپ رئیسِ ارض و سما بھی ہیں اور عرشِ معلیٰ کی زیب و زینت بھی، آپ بلندیوں کے صدرنشین بھی ہیں اور موجود و مطلوب و مقصودِ خدا بھی ہیں، آپ ہی ساقئِ کوثر ہیں اور آپ ہی شافعِ محشر، طیب و طاہر بھی آپ ہیں اور ظاہر و حاضر بھی آپ ہیں۔ آپ ہی گوہرِ فیضِ الم اور آپ ہی لائقِ مدح و ثنا، آپ ہی صاحبِ جود و کرم اور آپ ہی شہہِ کون و مکاں، آپ ہی وسیلۂِ کامل اور وسیلۂِ کبریٰ، آپ ہی فاضلِ اجل اور مرشدِ اکمل، آپ ہی والئِ عالم اور آپ ہی رحمتِ عالم، آپ ہی ہادئِ خلقت اور آپ ہی ہادئِ اسلام۔۔۔ حتیٰ کہ آپ ہی دائمی و ابدی نور علیٰ نور، وجہۂِ تخلیقِ کائنات اور مظہرِ کُن ہیں یعنی لا الہ الا اللہ کو محمد رسول اللہ سے یوں منسلک کیا گیا کہ کائنات کو محمدِ مصطفیٰ اور احمدِ مجتبیٰ کی آمد و برکت کا وہ فیض نصیب ہوا کہ اگر روزِ ازل سے ابد تک اس کائنات میں موجود تمام شجر و اشجار، سمندروں میں بہنے والا تمام تر پانی، سورج کی تمام شعائیں، مہتاب کی تمام رعنائیاں اور انسانوں کی تمام تر عمریں بھی آپ کی بارگاہ میں سربسجود ہوکر حرف بن جائیں اور آپ کی مدح سرائی بیان کرنے لگیں تو بھی تعریف و توصیف کا حق ادا نہ ہوسکے گا۔ یہاں تک کہ ہم کو رب کے صرف اس احسان کا شکر ادا کرنے پر کہ اُس نے ہمیں آپ کا اُمتی پیدا کیا، یہ زندگی بے حد مختصر ہے۔

اے محبوب و حبیب آقا!

جوں جوں آپ کی ولادتِ باسعادت کے نورانی لمحات قریب تر ہوتے جاتے ہیں، فضا میں ایک پُرکیف سی سُرسُراہٹ محسوس ہونے لگتی ہے یوں جیسے کائنات کا ذرہ ذرہ و گوشہ گوشہ آپ کی آمد پر ایک انجانی سی خوشی سے سرشار ہورہا ہو۔ یہ خوشی کیسی ہے؟ یا رسول اللہ! اگر ہم خود سے یہ سوال کریں تو ان تمام خوشیوں کو بیان کرتے کرتے کب زندگی قضا ہوجائے معلوم تک نہ ہوسکے گا مگر آپ کی آمد سے کتنی خوشیاں منسلک ہیں، اس کا ہم حق ادا کرہی نہیں سکتے۔ آپ کی آمد اس جہان کو مبارک ہو کہ آپ ہی تمام جہانوں میں اعلیٰ و ارفع ہیں۔ یہ خوشی صبح کو مبارک ہو کہ آپ ہی شمسِ الضحیٰ ہیں، شب کو مبارک ہو کہ آپ ہی بدر الدجیٰ ہیں، فضا کو مبارک ہو کہ آپ ہی بادِ صبا ہیں، افلاک کو مبارک ہو کہ آپ ہی ماہتاب ہیں، رحمت کو مبارک ہو کہ آپ ہی رحمت اللعالمین ہیں، کشف کو مبارک ہو کہ آپ ہی اسرارِ حق ہیں، مظہر کو مبارک ہو کہ آپ ہی انوارِ حق ہیں اور بالخصوص نوعِ انسانی کو آپ کی ولادت باسعادت مبارک ہو کہ خلق کی دادرسی کے لیے صادق و امین، پیکرِتسلیم و رضا صدق وصفا، محبطِ وحیِ خدا، عرش کے مسند نشیں، بزمِ خلوت کے مکیں، صاحبِ رجعتِ شمسِ شقُ القمر، فاتحِ بابِ نبوت، ختمِ بابِ رسالت، آئینہِ حق نما، سرتاجِ رفعت، نسخۂِ جامعیت، مطلعِ الفجر الحق، چشمۂِ علم و حکمت،سیّد الانبیاء، امین و مامون، حبیب ومحبوب محمدِ مصطفی، احمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ہیں۔

اے میرے پیارے آقا و مولا ﷺ!

اگر آج کی شب اپنی زندگی پر نظر ثانی کروں تو یقین جانیے بڑا ہی ملال ہے۔ سوائے اس کے کہ، آپ سے مسلسل اک رابطہ ہے اس زندگی میں کچھ بھی قابلِ قدر دکھائی نہیں دیتا۔ ایک ایسی زندگی جس میں آپ کی حکم عدولی ہو، آپ کی سنت سے روگردانی ہو، وہ اعمال ہوں جن سے آپ نے منع فرمایا ہے۔۔۔ کیا ہی قابلِ قدر ہوگا؟ یہ سوچ روح کو بڑا تڑپاتی ہے۔ آقا کہاں آپ، کہاں ہم غلام۔۔۔! ہم تو کسی طور بھی اپنی ذات کو سنت کے پیراہن میں نہیں ڈھال پاتے مگر آج کی شب یہ عرض ضرور قبول فرمالیجیے کہ ہمیں آپ کے اسوۂِ حسنہ پر عمل کرنے کی توفیق ضرور ملتی رہے۔ توفیق بڑی نعمت ہوتی ہے۔ یہ آپ کی نظرِ کرم ہے۔ جو آپ کی نظر میں آگیا، اُسے توفیق مل گئی۔ یہ کس قدر خوش بختی ہے آقا۔ تو بس آپ ہمیں بھی ایسے خوش بختوں میں شامل فرمالیجیے۔ چونکہ ہمارا نامۂ اعمال تو ہرگز ایسا نہیں مگر آپ کی رحمت عمل کہاں دیکھتی ہے۔ آپ تو عطا کرنے پر قادر ہیں۔ ہمیں بھی آج کی شب کے صدقے اپنی محبت عطا کردیجیے۔ یا رسول اللہ! اگر ہم اس معاملے میں بھی زندگی کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو ایک بار پھر گہرے ملال کا اظہار ہے۔ ہم نے دنیا کی محبتوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے خود کو بڑا خوار کرلیا ہے۔ اس دنیا اور اس کے لوگوں کی محبت کے حصول کے لیے بھاگنا یوں لگتا ہے گویا ہم ایک کچی پگڈنڈی پر بھاگ رہے ہوں اور راستہ اس قدر طویل ہے کہ اس کی نہ حد سجھائی دیتی ہے نہ سرحد دکھائی دیتی ہے۔ ہم سالہا سال بس بھاگتے جاتے ہیں بھاگتے جاتے ہیں اور جب عمریں گزارنے کے بعد ایک لمحے کو پَلٹ کر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا نہ پیچھے کوئی سِرا تھا نہ آگے کوئی راستہ ہے۔ اُس لمحے احساس ہوتا ہے کہ ہم زندگی کہاں گزار آئے۔ اس دنیا کا حاصل کیا تھا؟ ہمیں کیا صلہ ملا؟ ان تمام سوالوں کے جواب میں جب گہری خاموشی ملتی ہے تو اُس تاریکی میں بھی ہمیں اِک روشنی دکھائی دیتی ہے اور وہ روشنی آپ کی رحمت ہوتی ہے پیارے آقا۔ جہاں سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں، وہاں بھی آپ ہمراہ ہوتے ہیں۔ جب درد کی کوئی حد باقی نہیں رہتی، تب بھی آپ ہی مداوا کرتے ہیں، جب کوئی سننے والا نہیں ہوتا تب بھی آپ سماعت فرماتے ہیں۔ تو اگر ہم ایک جانب اس دنیا کی تمام تر محبتیں جمع کرلیں اور ایک جانب آپ کی محبت، تو پیارے آقا! آپ کی محبت پر دنیا جہان کی تمام محبتیں تمام قربتیں قربان ہوں۔

پیارے آقا!

اگر آپ کو یہ خط لکھتے لکھتے زندگی قضا ہوجائے تو یقین کیجیے تب بھی صرف یہی خواہش ہوگی کہ ایک اور زندگی مل جائے تو بھی میں آپ کے لیے یوں ہی لکھتی رہوں۔ اپنی تمام خوشیاں، تمام تکلیفیں آپ کے گوش گزار کرتی رہوں کہ آپ تو اُس بڑھیا کی باتیں بھی بڑی توجہ سے سماعت فرماتے تھے جسے مدینے میں اور کوئی نہ سنتا تھا اور سب پاگل قرار دیتے تھے۔ یا رسول اللہ! مجھے بھی اُس بڑھیا جیسی خوش قسمتی عطا کردیں۔ چونکہ یہ بہت بڑی خواہش ہے۔ کہاں آپ کائنات کے بادشاہ اور کہاں میں ایک تنکے سے بھی کمزور۔۔۔ مگر بلاشبہ آپ کی عطا لامحدود ہے۔ بس ہمیں اپنی محبت عطا کردیجیے۔ ہمارے دل اپنی مخلوق کی محبت کے لیے وا کردیں، ہمیں اخلاقِ حسنہٰ کا مظہر بنادیں اور لمحہ بہ لمحہ سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمادیجیے۔ ہمارے گناہوں کی کوئی حد نہیں مگر آپ معاف کرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ ہمیں معاف فرما کر ہمارے دلوں کو اپنی اور اپنے رب کی محبت کے لیے خالص و مخصوص کردیجیے۔ بے شک آپ ہی شافع محشر اور شفیع عصیاں ہیں۔

پیارے آقا! ۱۲ ربیع الاوّل کی خصوصی شب کے صدقے سے آپ کی شانِ کریمی میں نذر کرنے کے لیے کچھ ٹوٹے پھوٹے الفاظ، اس دعا کے ساتھ ارسال کررہی ہوں کہ روزِ محشر جب میرے ہاتھ اپنے گناہ بولنے لگیں تو یہ انگلیوں کی پوریں جن سے “محمد محمد” لکھنے میں عمر گزری ہو۔۔۔میرے لیے نور بن کر چمک اٹھیں اور بخشش کا ساماں پیدا کردیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مجھے جلد اپنے پاس بلالیجیے! آپ کے دیدار کی تڑپ پر قربان۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply