خوشیوں کا دکھ/یاسر جواد

قدیم بت پرستانہ مذاہب اور عقائد میں کارنوال (Carnival) ایک جشن مسرت تھا جس میں ہر طرح کی کھلی جنسی چھوٹ دی جاتی۔ یہ جشن موسموں، فصلوں وغیرہ کے حساب سے منائے جاتے تھے۔ اِس میں سوانگ رچائے جاتے، کھیل پیش کیے جاتے، اور ظاہر ہے کہ بدمست خوشی منانے کا واحد طریقہ شہوت ہی تھی، کوئی آسمانی جھولے، کوئی سینما وغیرہ تو تھے نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان کارنوالز نے بعد ازاں یہودیت اور مسیحیت میں مختلف شکلیں اختیار کیں۔ جس طرح ڈایونی سس کو یسوع مسیح اور ڈایانا/ارتمس/ایفروڈیٹی/وینس کو کنواری مریم میں سمویا گیا، اُسی طرح اُن سے منسلک رسوم بھی در آئیں۔ زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہیے۔ لفظ ٹریجڈی کا مادہ ’بکرا گیت‘ بدمست دیوتا کی قطع کردہ علامت یا پھر اُس کی تجسیم پر گایا جاتا تھا۔ ول ڈیورانٹ کے مطابق ٹریجڈی — tragoidia یا بکرا گیت — بھی satyr نما ڈایونیشیائی جلوسوں میں بکروں کا روپ دھار کر ناچ گانے کی نقالی سے نکلا۔
مہذب اور منضبط ہو چکی آج کی دنیا میں بھی یہ کارنوالز کسی نہ کسی شکل میں جاری ہیں۔ اٹلی کے Piemont کارنوال میں کینوؤں سے لڑائی کی جاتی ہے۔ تیرھویں صدی کے بارسلونا میں بھی ایسا ہوتا تھا، لیکن انیسویں صدی میں نپولین کا حملہ بھی اِس سے منسلک ہے۔ اٹلی میں دنیا کا شاید سب سے پرانا کارنوال وینس شہر میں ہوتا ہے جس میں بازیگر رسّے پر چلنے کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ کولون، جرمنی میں گیارہ نومبر کو عورتیں سارے شہر پر ایک طرح سے قابض ہو جاتی ہیں اور مردوں عورتوں کے کرداروں کی ادلابدلی ہوتی ہے۔ لوگ کولون کی قدیم زبان میں گیت گاتے اور پریڈ کرتے ہیں۔ ہنگری کے قصبے موہاک میں بھی مردوں اور عورتوں کے کردار الٹ کر دیے جاتے ہیں۔ مرد جانوروں کی کھالیں پہنتے اور لکڑی کے سینگ لگاتے ہیں۔ اس کا تعلق عثمانیوں کے حملے سے جوڑا جاتا ہے۔ یونیسکو نے اِس تہوار یا کارنوال کو عالمی ورثہ بھی قرار دے رکھا ہے۔
بولیویا، کولمبیا، برازیل وغیرہ میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں۔ ایک تہوار ٹماٹروں سے لڑنے کا بھی ہے۔ ہندوستان جگن ناتھ کا جلوس (رتھ یاترا) بھی اسی نوعیت کا تھا جو انگلش میں Juggernaut ہو گیا۔ رتھ یاترا اور ہنومان کے کارنامے کی یاد میں پہاڑیاں وغیرہ بنانے کی روایات نے مختلف طریقوں سے آس پاس کے لوگوں کو متاثر کیا جن کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ آپ خود سمجھ دار ہیں۔
بہرحال، انسانی خوشی کی ہزاروں شکلیں ہیں، اور اِن کی مذہبی معنویت بھلائی جا چکی ہے۔ ورنہ سکھوں کے کیس (لمبے بال)، ہندوؤں کے تلک اور ہالووین وغیرہ بھی اپنی اصل میں مذہبی ہی تھے۔ لیکن پٹاخے مارنے اور ایک پہیے پر موٹر سائیکل چلا کر کھمبوں سے ٹکریں مارنے اور جان دینے کا دستور صرف ہوموپاکیئنز کے حصے میں ہی آیا۔ ہماری خوشیاں بھی ہمارے دکھوں کا عکس ہیں۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply