میں کل کافی عرصے بعد اپنے ایک پرانے ٹھکانے پر جا نکلا ۔ یہ چائے کا ایک کھوکھا ہے جس کے سامنے بنچ، کرسیاں اور چارپائیاں پڑی تھیں ۔ اب اس کھوکھے والے کا کام کافی بڑھ گیا تھا ۔ اس کھوکھے کے قریب روئی کی گانٹھوں پر لیپٹی جانے والی پتری تیار کرنے کا ایک کارخانہ لگا ہوا ہے ۔ کچھ فاصلے پر ماربل ٹائل کی تیاری کرنے والی چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں ۔ یہاں مہر شاہ اور اس سے ملحقہ چکوک تک جانے والی دو تین بسیں اور چنگ چی رکشے بھی کھڑے ہوتے ہیں ۔ یہاں پاس کے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں، اسکول اور کالج سے واپس گھر لوٹنے کے لیے سواری کا انتظار کرنے والے نوجوان بھی بیٹھے ہوتے ہیں ۔ کئی ایک بے روزگار نوجوان بھی یہاں آکر بیٹھ جاتے ہیں۔
جب میں یہاں روزانہ آکر بیٹھا کرتا تھا تب یہاں درجن بھر لوگ ہی ہوتے تھے۔ اب تو یہاں جمگھٹا لگا ہوا تھا ۔ ایک فرق اور بھی تھا اس وقت سمارٹ اینرائیڈ فون اکا دکا لوگوں کے پاس تھے اور وہ بھی اس پر کم دھیان دیتے تھے زیادہ تر آپس میں گپ شپ میں مصروف ہوتے یا وہاں پر آنے والا روزنامہ خبریں ملتان کے صفحات باری باری آپس میں گردش کر رہے ہوتے تھے ۔ میں نے وہاں کچھ رسائل بھی لا کر رکھنا شروع کردیے تھے جو ترقی پسند ادب و صحافت سے جڑے ہوتے تھے جو وہاں آنے والے پڑھتے رہتے تھے ۔ جب کام ذرا چل نکلا تو ایک دن کھوکھے والے نے ایک پرانی ایل سی ڈی وہاں لاکر لگائی اور کیبل کنکشن بھی لے لیا۔ اور اس کا والیم عام طور پر گھنٹے بعد آنے والے نیوز بلیٹن پر ہی میوٹ سے ان میوٹ ہوتا تھا ۔ کھوکھے کا مالک ایک ادھیڑ عمر شخص تھا اور وہ پیپلزپارٹی کا کٹر جیالا تھا۔ یہاں پر سلیف سروس تھی لیکن مجھے اس شریف آدمی نے استثنا دے رکھا تھا۔ وہ مجھے “بابو جی ” کہہ کر مخاطب کرتا اور اپنے بیٹے بیٹیوں کو جب وہ کالج جانے والے تھے کے داخلے مجھ سے پوچھ کر کیے تھے۔ میرے لیے اس نے نجانے کہاں سے ڈھونڈ کر ایک سیکنڈ ہینڈ میز اور چار کرسیاں حاصل کیں اور ایک بنچ اضافی لگایا جب میں وہاں آتا تو کوئی اگر وہاں بیٹھا ہوتا تو اسے یہ خود وہاں سے اٹھ جانے کو کہہ دیتا تھا۔ میرا وہ مستقل ٹھکانا بن گیا تھا اور جس نے مجھے ملنا ہوتا وہیں آ جاتا ۔ میں گھر سے نکلتا تو دو تین کتابیں ، اس روز کے دوران اردو اخبار اور ڈیلی ڈان بیگ میں ڈال لیا کرتا تھا ۔ اور وہاں آکر ان کا مطالعہ کرتا اور اخبار وہیں چھوڑ دیا کرتا تھا۔ ہماری میز پر سیاسی بحث و مباحثہ بھی ہوتے اور کئی بار مذہب ، تاریخ ، کلچر اور ادب پر بھی بحث چھڑ جاتی ۔ اس کے دو بیٹے اکثر کالج سے آکر کھوکھے پر باپ کا ہاتھ بٹانے آتے تو وہ انھیں میری میز پر بھیج دیا کرتا تھا اور مجھے کہتا ، “بابو جی، انھیں بھی کچھ بتائیں تاکہ ان کی “دماغڑی تمہارے دماغ کی طرح ہوجائے” ۔ اس کا بڑا بیٹا جو تھرڈ ائیر میں ہوگیا تھا اور اس کے مضامین میں ڈبل میتھ بھی تھا سیاست سے کافی شغف رکھتا تھا لیکن اس کا سیاسی شعور اخبارات کی سرخیوں اور نئے نئے الیکٹرانک میڈیا چینلز کے ٹاک شوز میں چلنے والے بیانیوں میں گھرا ہوا تھا اور اسے بھی “عمران خان ” نجات دہندہ لگتا تھا۔ مجھ سے اس کی جب بھی بات ہوتی تو وہ میرے سامنے سب سے بڑا سوال یہ رکھتا کہ میں جس عوامی سیاست اور عوامی سیاسی کارکنوں کی بات کرتا ہوں وہ کہاں ہے ؟
میں اس کے اس سوال کے سامنے خود کو بے بس سا محسوس کرتا تھا۔ اس کا باپ بھی اسے اپنے زمانے کی بات کرتا لیکن حال میں وہ زمانہ کہاں تھا؟ اس سوال کا جواب ہمارے پاس نہیں تھا۔ میری فارغ البالی کے دن ختم ہوگئے تھے اور مجھے اب بہت کم وقت ملتا تھا وہاں جانے کا اور دیکھتے ہی دیکھتے میرا وہ ٹھکانا ختم ہوگیا بلکہ میرے پاس اب اپنے شہر میں کہیں بیٹھنے کا وقت ہی نہ رہا۔ کل عید میلاد النبی کی چھٹی تھی اور گھر کے سب مرد و بچے میرے چھوٹے بھائی کے ساتھ دکان کی فوٹان گاڑی کو سجا کر شہر کے مرکزی جلوس میں شرکت کرنے چلے گئے اور گھر کی عورتیں میرے سسر کے ہاں خواتین کی میلاد میں شرکت کے لیے چلی گئیں ۔ میں دو گھنٹے تک اپنی ایک زیر طبع کے کتاب کے تیسرے باب کے ڈرافٹ کی تیاری میں لگا رہا اور پھر انٹرنیٹ کی سلو سپیڈ سے تنگ آکر میں گھر سے نکل گیا اور باہر جاکر میں میرے قدم خود بخود پرانے ٹھکانے کی طرف اٹھ گئے ۔ اس جگہ آکر میں نے کافی بھیڑ دیکھی اور میں ابھی کھڑا سوچ ہی رہا تھا کہ کھوکھے کے مالک کی نظر مجھ پر پڑی اور اس نے چائے بنانے کا کام اپنے ساتھ کھڑے ایک نوجوان لڑکے کے سپرد کیا اور تیز تیز قدم چلتا ہوا میرے پاس آیا۔ ” ارے بابو جی ، آپ؟
آج سورج کہاں سے نکلا ہے؟ اور یہ کہہ کر اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور مغربی سمت وہ ایک میز کے پاس پہنچا اور وہاں بیٹھے دو آدمیوں سے کہا کہ وہ دائیں طرف پڑے بنچ پر بیٹھ جائیں ۔ اور مجھے میز کے اردگرد لگی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھنے کے لیے کہا۔ اور واپس کھوکھے کی طرف چل پڑا ۔ میں کرسی پر بیٹھ گیا ۔ اردگرد نظر دوڑائی تو میں نے دیکھا کہ وہاں اکثر لوگ آپس میں گفتگو کرنے کی بجائے موبائل فون کی اسکرین پر نظر جمائے بیٹھے تھے ۔ موبائل فون پر ریل ، فوٹیج چلنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں اور کئی ایک کی انگلیاں موبائل کی ٹچ اسکرین پر چل رہی تھیں ۔ مجھے یہ ماحول کافی بدلا ہوا لگ رہا تھا۔ خیر میں نے بھی اپنا موبائل نکالا اور موبائل ڈیٹا آن کیا تو انٹرنیٹ ویسے ہی سلو سپیڈ تھا تو میں نے پی ڈی ایف ریڈر ایپ کھول لی اور الیاس خوری کا ناول “باب الشمس ” وہیں سے دوبارہ پڑھنا شروع کیا جہاں سے میں نے چھوڑا تھا ۔ ابھی میں نے مشکل سے دو پیراگراف پڑھے ہوں گے کہ مجھے آواز آئی ، سر، ہم یہاں بیٹھ سکتے ہیں تو میں نے موبائل سے نظریں اٹھاکر دیکھا تو سامنے تین لڑکے کھڑے ہوئے تھے۔ انھوں نے نیلے آسمانی رنگ کی شرٹ اور ملیشیا رنگ کی پینٹ پہن رکھی تھیں اور ہاتھ میں موبائل تھے ۔ یہ کسی کالج کی یونیفارم لگ رہی تھیں ۔ میں تھوڑا متجسس ہوا کہ آج تو سرکاری چھٹی ہے اور یہ کالج یونیفارم میں کیوں ہیں ؟ خیر میں نے انھیں بیٹھنے کو کہا ۔ ان میں سے ایک لڑکے نے بیٹھتے ہی کہا ،
آپ فیس بک پر محمد عامر حسینی ایپی کیورس کے نام سے ہیں نا؟ میں نے کہا ، ہاں ۔۔۔ وہ تینوں ایک ساتھ بولے، ہم آپ کو فالو کرتے ہیں ۔۔ ابھی بابا جی نے بتایا کہ آپ آئے ہوئے ہیں ۔۔۔ کھوکھے والے کو وہ بابا جی کہہ رہے تھے ۔ وہ آپ کا بہت ذکر کرتے ہیں اور ہمیں آپ سے ملنے کا اشتیاق تھا۔ فیس بک میسنجر پر آپ کو میسج بھی کیے تھے لیکن آپ نے وہ دیکھے ہی نہیں ۔ میں نے ان سے معذرت کی اور بتایا کہ کچھ وجوہات کے سبب میں نے پرائیویسی سیٹ کی ہوئی ہے جو میرے قریبی دوست ہیں ان کے ہی میسج ڈائریکٹ آتے ہیں باقی آؤٹ بکس رہتے ہیں ۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ انھیں صفدر نوید زیدی کے ناول بھاگ بھری، بنت داہر، اور عباس زیدی کا ناول کفار مکہ درکار ہیں ۔ ان میں سے ایک لڑکا کہنے لگا کہ اسے میرے خطوط کی کتاب “ساری کے نام ” چاہیے ۔ میں نے انھیں کہا کہ یہیں قریب میرا گھر ہے اور میں انھیں پڑھنے کے لیے یہ ناول دے دوں گا کیونکہ میری ذاتی لائبریری میں ریکارڈ کے لیے دو دو نسخے ہیں ۔ پھر وہ مجھ سے باتیں کرنے لگے ۔ وہ تینوں نوجوان ایک سرکاری کالج سے بی ایس کمپیوٹر سائنس کر رہے تھے۔ آج انھیں کالج میں عید میلاد النبی کی ایک سرکاری تقریب میں بلایا گیا تھا ۔ گفتگو کا زیادہ محور ہماری نصابی کتب میں لکھی جانے والی تاریخ تھی ۔
انہوں نے مجھ سے سوال پوچھا کہ ان کی نصابی کتب میں ادھ ادھوری اور یک رخی مسخ شدہ تاریخ کیوں پڑھائی جا رہی ہے؟ اور یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا ؟ میرے پاس کیوں؟ کا جواب تو تھا لیکن “کب تک ” کا کوئی جواب نہیں تھا ۔ ایک نوجوان نے مجھ سے پوچھا کہ محمود غزنوی ہمارا ھیرو کیوں ہے؟ کیا اس لیے کہ اس نے یہاں ملتان میں ایک ایسی ریاست کو نیست و نابود کیا جس کے حکمران اور ان کے ماتحت عوام کی اکثریت ایک ایسے فرقے کے پیروکار تھے جنھیں سنی علماء مسلمان نہیں سمجھتے تھے؟ کیا محمود غزنوی نے جب ملتان کو جلاکر راکھ کیا اور لاکھوں ملتانی شہری جلا دیے گئے تو ان میں صرف اسی فرقے کے لوگ تھے یا اور بھی تھے ؟
آخر اس زمانے کے مقامی زبانوں کا لٹریچر کہاں چلا گیا ؟ ہمیں اس سے پتا چلتا کہ مقامی لوگ محمود غزنوی کو کیسے دیکھا رہے تھے ؟ آخر محمد بن قاسم کے بارے میں ہماری مقامی زبانوں کا کوئی لٹریچر کیوں موجود نہیں ہے اور سندھ پر اموی حملے کا سارا تاریخی ریکارڈ عربی اور فارسی میں کیوں ہے؟ کیا فاتح مفتوح کے بارے میں سچ بول سکتے ہیں ؟ اس میں سے ایک نوجوان نے مجھ سے پوچھا کہ اس نے رومیلا تھاپر اور پروفیسر محمد حبیب کو انٹرنیٹ پر پڑھا ہے یہ دونوں ہندوستان کے ماہر تاریخ ہیں ۔ ایسے ماہرین تاریخ ہمارے ہاں کیوں پیدا نہیں ہوتے ؟ وہ کہنے لگے کہ ان کے ذہن میں بہت سے سوالات ہیں لیکن وہ انھیں سوشل میڈیا پر اٹھانے سے ہی نہیں بلکہ اپنے اساتذہ سے پوچھنے سے بھی خوفزدہ رہتے ہیں ۔ کہیں ان پر بلاسفیمی کا الزام نہ لگ جائے ۔ وہ مجھ سے بات کرتے ہوئے بھی اردگرد دیکھ رہے تھے اور اس دوران اگر میری آواز تھوڑی بلند ہوتی تو ان کی آنکھوں میں خوف جھانکنے لگتا تھا اور ایک بار تو انھوں نے مجھے آہستہ بولنے کو بھی کہا ۔ میں ان بچوں کے اندر موجود گھٹن ، حبس اور آنکھوں سے عیاں خوب صاف دیکھ رہا تھا ۔ مجھے وہ زمانہ یاد آ رہا تھا جب میں ان کی عمر میں تھا اور جن سوالات کو وہ اٹھاتے ہوئے خوف محسوس کر رہے تھے وہ تو اس زمانے میں مجھ جیسے نوجوان کالج اور یونیورسٹی کے گراونڈ میں سینکڑوں طلباء کے مجمع میں اپنی تقریر کے دوران دھڑلے سے اٹھا دیا کرتے تھے اور پھر جواب بھی تند و تیز لہجے میں دے دیا کرتے تھے ۔ اس سے بھی کہیں سخت سوالات تھے جنھیں ہم اپنے اساتذہ سے دوران سبق پوچھ لیا کرتے تھے اور یونیورسٹی میں فرائیڈ، مارکس ، اینگلز کی مذھب بارے باتیں کھلے عام بیان کردیا کرتے تھے اور سبط حسن کی کتابوں کے اقتباس جنھیں ہمارے مخالف الحاد اور لادینیت کہا کرتے تھے بول دیا کرتے تھے اور سبط حسن کی کتابیں ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوا کرتی تھیں ۔ اسلامی جمعیت طلباء کے نظریہ ساز کالج اور یونیورسٹی کے گراونڈ میں ہمارے مفروضہ الحاد پر سخت تنقید سے بھری تقریر کرکے جاتا وہ ہمیں مادر پدر آزاد ہونے کے طعنے دیتا اور ہم جواب میں اسی گراونڈ میں ان کے مذھبی نظریات کے فاشزم ہونے ، سرمایہ داری کے تابعدار ہونے اور انھیں سامراج، سرمایہ داروں ، جاگیرداروں ، فوجی آمروں کے پٹھو ہونے کا طعنہ دیتے اور ملاوں کو خوب سنایا کرتے تھے ۔ہم انھیں اسلام میں پاپائیت، فرعونیت، قارونیت، بلعم باعوریت کے محافظ قرار دیتے تھے ۔ وہ تقریروں میں ہمیں زنا کو عام کرنے یہاں تک کہ بہن بھائی کے درمیان جنسی تعلق کے جائز قرار دینے والے جھوٹے الزام عائد کرتے اور ہمیں کبھی دہریہ، بے دین اور ملحد قرار دیتے لیکن یہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ کسی تھانے میں جاکر ہمارے خلاف توہین اور بلاسفیمی کا مقدمی درج کراتے یا مساجد سے اعلان کرکے ہمارے گھروں کا محاصرہ کرلیتے اور ہماری لنچنگ کے درپے ہوجاتے تھے ۔ ہمیں کبھی خوف محسوس نہیں ہوا تھا کہ نظریات کا یہ جدال بلوائی تشدد میں بدلے گا ۔ ان دنوں سیاسی کارکن ہوں ، طالب علم رہنما ہوں ، کالج و یونیورسٹی کے پروفیسر ہوں ان میں اعلانیہ کمیونسٹ ، سوشلسٹ ، لیفٹسٹ، اسلام پسند جماعت اسلامی والے ، جے یو پی والے ، جے یو آئی والے ہوا کرتے تھے ۔ پرویزی ہوتے تھے ۔ لیکن کسی کالج یا یونیورسٹی میں کم از کم بلاسفیمی کارڈ کھیلنے والے نہیں تھے ۔
ہم نے سنا تھا کہ 70ء کے انتخابات کے دوران جماعت اسلامی لاہور نے اپنے ایک دفتر پر پیپلزپارٹی کے لوگوں کی طرف سے حملہ کرنے اور آگ لگانے کا الزام عائد کیا تھا اور اس آتشزدگی میں قرآن پاک کو آگ لگنے کا الزام بھی عائد کیا تھا اور شوکت اسلام کے نام سے ایک بہت بڑا جلوس بھی نکالا تھا لیکن اس دوران بھی کسی کی موب لنچنگ جیسا عمل نہیں ہوا تھا ۔
پیپلزپارٹی کے خلاف انتخابی مہم کے دوران ایک سو تیرہ مولویوں کا فتوا کفر بھی سامنے آیا تھا اور دن رات مذھبی سیاسی جماعتیں پیپلزپارٹی، عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی کی سیاست کو کفر، بے دینی اور الحاد کی سیاست قرار دے رہی تھیں اور دوسری جانب سے ان فتووں کا ترکی بہ ترکی جواب تقریر اور تحریر دونوں طرح سے دیا جا رہا تھا ۔ لیکن یہ فقط تحریر اور تقریر تک محدود تھا ۔ رائٹ اور فار رائٹ لیفٹ اور فار لیفٹ سے اپنے دفاع کا حق سلب نہیں کرسکا تھا اور لیفٹ کے سرکلز میں موب لنچنگ کا کوئی خوف نہیں تھا۔ یہ معاملہ کہیں بہت بعد میں جاکر بنا ہے۔ اور آج یہ خوفناک عفریت بن چکا ہے ۔ آج ہماری نئی نسل کے اندر تو پبلک میں یہ تک کہنے بلاسفیمی کا الزام لگنے کا خوف موجود ہے کہ محمود غزنوی حملہ آور تھا۔ قبضہ گیر تھا اور اس کی مذھبی تعزیر کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ ہماری ریاست تکفیری فاشزم کے آگے پوری طرح سرنڈر ہوچکی ہے اور تو اور دائیں بازو کے پڑھے لکھے صاحبان ہوش چاہے ان کا تعلق کسی مسلک سے ہو یا جماعت اسلامی سے ہو وہ بھی کسی کو گستاخ ، توہین کا مرتکب قرار دیے جانے والے کے خلاف الزام کی تحقیق کرنے اور ریاستی قانون کے مطابق اس کو صاف شفاف ٹرائل کا حق دیے جانے کا مطالبہ کرتے گھبراتے ہیں کہ کہیں تکفیری مذھبی پیشوائیت کی توپیں ان کے خلاف نہ کھل جائیں ۔ سلمان تاثیر کیس کو لے لیں ۔ ڈاکٹر طاہر القادری ، مولانا الیاس قادری جیسوں کا ہلکا سا اظہار اختلاف کیسا ردعمل لیکر آیا تھا۔ وہ دوبارہ بول ہی نہیں سکے ۔ اب کفر ، بے دینی، الحاد کے فتوے صرف فتوے نہیں رہے بلکہ لائسنس ٹو کل اور لائسنس ٹو موب لنچنگ بن گئے ہیں ۔ ہماری ریاست تعلیمی اداروں میں آزاد اور خودمختار طلباء یونینز پر مسلسل پابندی لگا کر اور طلباء یونین سیاست کو مسلسل بین رکھ کر اس معاشرے میں تکفیری ملاوں کو وحشت و بربریت کا راج قائم رکھنے کی کھلی چھٹی دیے ہوئے ہے ۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں نظریاتی جدال کے خاتمے اور سیاسی جماعتوں کو انتہائی کمزور کردیے جانے کی مستقل پالیسی نے پورے معاشرے کو تعفن زدہ سڑاند مارتے معاشرے میں بدل کر رکھ دیا ہے ۔ اس سے رائٹ ونگ کا بھی بھلا نہیں ہوا ہے ۔ اس نے رائٹ ونگ کو بھی ٹھہرے ہوئے گلے سڑے بدبو مارتے تالاب میں بدل دیا ہے ۔ ان کے اپنے درمیان نظریاتی جدال ختم ہوکر رہ گیا ہے اور ان کے ہاں بھی بس خادم رضوی ، اسعد رضوی، لدھیانویوں، فاروقیوں، منظور مینگلوں ، اشرف جلالیوں جیسوں کا راج ہے ۔ ہماری پڑھی لکھی شہری مڈل کلاس کے اندر جہالت زدہ مذھب پرستی مقبولیت پکڑ رہی ہے جن کا کتاب اور علم ، استدلال ، منطق سے کوئی رشتہ نہیں ہے ۔

ہم اپنے زمانے میں پروفیسر خورشید ، خرم جاہ مراد، امیر العظیم ، شاہنواز فاروقی ، معراج الھدا جیسوں کو روتے تھے اور جماعت اسلامی ، جے یو پی ، جمعیت اہلحدیث کے طلباء ونگز سے وابستہ طالب علموں پر تنگ نظری ، فسطائیت اور پاپائیت کے الزام دھرتے تھے ۔ ہم اے کے بروہی، الطاف گوہر ، ارشاد احمد حقانی ، نسیم حجازی جیسوں کو خوب سناتے تھے لیکن اب وہ ہمیں غنیمت لگنے لگے ہیں ۔ کم از کم وہ گفتگو اور تحریر کا سلیقہ تو جانتے تھے اور نظریہ کا جواب نظریہ سے دیتے تھے۔ کم از کم ہمارے مدمقابل دائیں بازو کے طالب علم بلوائی اکٹھا کرکے ہمیں کالج یا یونیورسٹی کے گراونڈ میں یا کسی چوک میں گھیر کر بلوائی حملوں میں گھسیٹ کر ہماری لنچنگ نہیں کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ جب دو اطراف سے اسلحے کا استعمال شروع ہوا تب بھی جمعیت کے اسلحہ بردار ہمیں گستاخ کہہ کر قتل نہیں کرتے تھے ۔ قتل تو ہوتے تھے لیکن گستاخ قرار دے کر نہیں ۔ ہمارے کنٹرول میں کسی کالج کا کیمپس یا ہاسٹل ہمیں گستاخ کہہ کر بلاسفمیر قرار دے کر کسی بلوائی حملے میں خالی نہیں کرایا گیا تھا ۔ آج صورت حال بالکل مختلف ہے ۔ سماج زومبیز کے سپرد ہوچکا ہے اور نظریاتی جدال کی گنجائش ختم کی جاچکی ہے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں