جندر(ناول)-راجہ قاسم محمود

اختر رضا سلیمی  صاحب کے ناول “جندر” سے واقفیت عامر خاکوانی صاحب کے کالم سے ہوئی۔ پھر کچھ وجوہات کی بنا پر اس وقت ناول تو نہ خرید سکا مگر پختہ ارادہ تھا کہ اس کو ضرور پڑھوں گا۔ پھر کچھ دنوں پہلے اکادمی ادبیات پاکستان خصوصی طور پر اسے لینے کے لیے گیا۔

جندر جب خریدا تو اس کے کل صفحات دیکھ کر خیال آیا کہ یہ تو گھنٹے ڈیڑھ میں ایک دن میں پڑھ لوں گا مگر جب اس کا پہلا صفحہ پڑھا تو یک دم میرا خیال غلط ثابت ہوا، بہت سے اہل علم کہتے ہیں کہ جندر کو جب آپ ایک بار پڑھنا شروع کریں تو یہ اپنی جھکڑ میں ایسا لیتا ہے کہ پھر آپ اس کو مکمل طور پر پڑھ کر ہی نکل سکتے ہیں، مگر میرا تجربہ تھوڑا مختلف تھا کتاب کے آغاز نے مجھے اپنے حصار میں تو لیا مگر مجھے مجبور کیا کہ کتاب کو بند کر کے اس کے پلاٹ پر سوچوں۔ ہر باب مجھے ایک نئی سوچ میں لے جاتا۔ کتاب بند کرکے سلیمی صاحب کی کہانی کی منظر کشی میں کھو جاتا۔یوں ایک سو اکیس صفحات کے ناول کو پڑھنے میں مجھے تو چار پانچ دن لگ گئے،اور اس وقت میں نے یہ بھی سوچ لیا کہ ایک دفعہ میرے جیسے بندے کا اس ناول کو پڑھنا ناانصافی ہے بلکہ یہ کم از کم دو بار پڑھا جانے کے قابل ہے

ناول کا آغاز میں موت کی منظر کشی کی گئی ہے اور لگتا ہے کہ ایک تنہا شخص (ولی خان) موت کے دھانے پر ہے جس کا اسے بھی یقین ہو چکا ہے، وہ اپنی موت کے فوری بعد کے واقعات کے بارے میں سوچ رہا ہے کہ کیسے دور دراز سے لوگوں کو اس کی موت کی خبر ہو گی اور وہ اندازے لگاتا ہے کہ پہلا شخص کون ہو گا جس کو اس کی موت کی خبر ہوگی، پھر وہاں ہی اس کو یہ خیال بھی آتا ہے کہ پہلے شخص کے آنے سے پہلے وہ کیڑے مکوڑے کی خوراک تو نہیں بن جائے گا، یوں ہی اس کو بجو کا بھی خیال آتا ہے کہ کہیں وہ بجو کی خوراک بن جائے گا۔جہاں موت کا اسے یقین ہے وہیں اس کو اپنے بیٹے راحیل کے بارے میں ان کہی شکایت ملتی ہے جو پردیس میں افسر لگ چکا ہے اور اپنے باپ جو کہ ایک جندروئی ہے کا حوالے اپنے حلقہ احباب میں اس کے لیے ندامت کا باعث ہے۔
جب آغاز میں موت کی یوں منظر کشی پڑھی تو میں خود ایک اور عالم میں چلا گیا اور میں کچھ ماہ پہلے ہونے والی اپنی اہلیہ کی وفات کے بارے میں سوچنے لگ گیا،جو ہر روز میری آنکھیں نم کرتی ہے مگر اس ناول کی وساطت سے میں مزید اس بارے میں گہری سوچ میں پڑ گیا۔

ولی خان جو کہ دو صدیوں سے قائم اپنے خاندانی جندر چلاتا ہے کی جب مزید کہانی آگے چلتی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ موت کا ذکر دراصل معدوم ہوتی تہذیب کے بارے میں ہے، ولی خان جس کے پیدا ہوتے ہی اس کی والدہ دنیا چھوڑ جاتی ہے، اپنے شفیق والد کے سائے میں پلتا ہے، پھر کہانی کا ایک اور کردار بابا جمال دین بہت دلچسپ ہے جو ولی کا رشتے میں دادا ہوتا ہے ایک عمدہ داستان گو اور وسیع دل کا مالک۔ ولی خان کی بیوی حاجرہ سے شادی اور پھر ان کا الگ ہو جانا بھی ایک اہم حصہ ہے کہ حاجرہ جو ولی خان کو آزاد سمجھتی ہے حالانکہ ولی اس حد تک اسیر ہے کہ جندر کی آواز سن کر ہی اسے نیند آتی ہے، اس کی کوک اس کے اندر ایک اور طرح کا احساس دلاتی ہے۔اس سے پہلے جندر کی تعمیر کیسے ہوتی ہے یہ ایک دلچسپ داستان بابا جمال دین سناتا ہے کہ کیسے بھاری پاٹ ان کے بزرگوں نے چیلنج قبول کر کے اپنے کندھوں پر اٹھایا تھا اور پہلا پاٹ کیسے حاصل کیا گیا۔

وہ گاؤں جہاں فصل کی کٹائی اور اس سے جڑے دیگر معاملات میں پورا گاؤں اپنا حصہ بلا معاوضہ ڈالتا ہے آپس میں لوگوں کی مدد کی جاتی ہے،ان کا بوجھ ہلکا کیا جاتا ہے۔وہ گاوں جہاں فصل کی بوائی اور کٹائی پر ہر گھر شریک ہوتا ہے اور آپس میں ایک بندھن میں بندھے ہوتے ہیں پھر وہ بندھن ٹریکٹر کی آمد سے پہلے کمزور ہوتا ہے اور پھر بلکل ہی ٹوٹ جاتا ہے۔ جندر جو کہ ولی خان کا خاندانی اثاثہ اور ذریعہ معاش بھی ہے کی جگہ بجلی والی مشین لے لیتی ہے۔یوں ہم دیکھتے ہیں کہ مشین کی آمد ایک علاقے کی پوری تہذیب و تمدن کو بدل کر رکھ دیتی ہے، کہیں لوگوں کا ذریعہ معاش اس کی آمد سے ختم ہو جاتا ہے۔ سماجی رشتوں میں وہ مضبوطی قائم نہیں رہتی۔ ولی خان اس ہی معدوم ہوتی تہذیب کا ایک فرد ہے جبکہ راحیل جو کہ اس کا بیٹا ہے دوسری تہذیب کا۔ مشین کی آمد ایک سماج کا ڈھانچا کس طرح بدل کر رکھ دیتی ہے وہ ہم کو اختر رضا سلیمی صاحب “جندر” کے ذریعے بتاتے ہیں۔
اس بارے میں سوچتے ہوئے میں خود اپنے ماضی میں چلا گیا، میں نے ہاسٹل کی زندگی گزاری ہے دو سال گھر باقاعدہ خط لکھا کرتا تھا اور گھر سے جوابی خط کا انتظار اور پھر اس کا ملنا دل پر کیا اثر کرتا تھا یاد آیا۔ پھر ہمارے ہاں ڈائریکٹ پی ٹی سی ایل فون آیا تو خط لکھنے کا رواج ختم ہو گیا مگر اس پی ٹی سی ایل فون سے الگ یادیں وابستہ ہیں،اب اس کی جگہ موبائل فون نے لے لی۔ خط میں میں سب رشتے داروں کا ذکر کرتا تھا اور ان کا حال دریافت کرتا، پی ٹی سی ایل سے فقط یہ صورتحال اپنے گھر تک محدود ہوئی اور موبائل فون سے گھر کے بھی ایک خاص فرد تک محدود ہو گئی۔یہ ہی وہ طرز زندگی کا بدلنا ہے جو ہم کو “جندر” میں بھی نظر آتا ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

اُردو ادب میں “جندر” ایک بہترین اضافہ ہے اور بیشک یہ صف اول کے ناولز میں جگہ بنانے کا حقدار ہے۔ کئی بڑے نام جیسے کہ اظہار الحق صاحب، محمد حمید شاہد، افتخار عارف، مستنصر حسین تارڑ اور مسعود اشعر سمیت کئی گرامی قدر لوگ اس ناول کے معترف ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply