آہ!اجمل سراج/آغر ندیم سحر

اجمل سراج سے پہلی ملاقات ۲۰۱۶ء میں ہوئی تھی،واقعہ کچھ یوں ہے کہ برادر ضیاء شاہد نے کراچی میں ایک عالی شان مشاعرے کا اہتمام کیا،یہ مشاعرہ آرٹس کونسل میں رکھا گیا تھا اور لاہور سے راقم اور ڈاکٹر تیمور حسن تیمور مدعو تھے۔ہم نے کراچی پہنچتے ہی ضیاء شاہد سے اجمل سراج سے ملاقات کی خواہش کی،یہ ملاقات کراچی کے ایک ڈھابے پر ہوئی جو تقریباً دو گھنٹوں پر مشتمل تھی،اس ملاقات میں اجمل سراج سے شاعری بھی سنی اور کراچی کی ادبی دنیا پر بھرپور گفتگو بھی ہوئی۔ مشاعرے کے اگلے ہی روز اجمل سراج کا حکم ملا کہ جسارت کے یومِ تاسیس کے سلسلے میں کراچی پریس کلب میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا گیا ہے،آپ دونوں دوست وہاں بھی تشریف لائیں،یوں ہم ایک شام کراچی پریس کلب جا پہنچے جہاں فاضل جمیلی اور اجمل سراج ہمارے منتظر تھے۔یہ انتہائی یادگار مشاعرہ تھا،کیسے نایاب لوگ اس مشاعرے کا حصہ تھے،عنایت اللہ خان،رسا چغتائی،انور شعور،وسعت اللہ خان،سیما غزل،تنظیم الفردوس۔۔

اس مشاعرے کے بعد رات گئے تک کراچی پریس کلب کی کینٹین پر اجمل سراج سے ملاقات رہی،آپ یوں سمجھیں کہ اس کے بعد کبھی اجمل سراج سے اتنی طویل ملاقات نہیں ہو سکی۔۲۰۱۷ء میں کراچی یونیورسٹی کی دعوت پر سر سید کانفرنس میں شرکت کے لیے کراچی گیا تو یونیورسٹی کے نیو گیسٹ ہاؤس میں رہائش ملی،اجمل سراج گیسٹ ہاؤس میں ملاقات کے لیے خصوصی طور پر تشریف لاتے، کیوں کہ آپ کی استادِ محترم ڈاکٹر ضیاء الحسن سے بہت قریبی دوستی تھی اور اتفاق سے گیسٹ ہاؤس میں ڈاکٹر صاحب کا اور میرا کمرہ ایک ہی تھا،یوں جب اجمل سراج،ضیاء صاحب سے ملنے تشریف لاتے تو خوب  محفل جمتی۔

اجمل سراج اپنی نوعیت کے ایک منفرد شاعر تھے،انتہائی نفیس اور تہذیب یافتہ انسان،شاعری کی طرح خدا نے انھیں گفتگو کا ملکہ بھی عطا کر رکھا تھا،بات اتنے شائستہ انداز میں کرتے کہ بات سمجھ نہ بھی آتی تو منہ سے سبحان اللہ ضرور نکلتا۔ان کا انداز گفتگو اور اندازِ صحافت،دونوں متاثر کن تھے،وہ  بہ یک  وقت دو محاذوں پر برسر پیکار رہے،شعر بھی کہتے رہے اور صحافت بھی کرتے رہے،جسارت سے آپ کی وابستگی روحانی بھی تھی اور معاشی بھی۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ میرے ایک کالم پر بات ہوئی تو کہنے لگے کہ جسارت کے سنڈے میگزین کے لیے بھی اپنی تحریریں بھیجا کریں،میں نے وعدہ تو کیا مگر حسب ِ معمول ہفتے میں ایک کالم سے زائد نہ لکھ سکا،ان سے واٹس اپ پر مسلسل رابطہ رہا۔جن دنوں ان کی بیماری کی خبریں گردش میں تھیں،میں مسلسل دعاگو رہا،ایک سدا بہار شخص کا ایسے اچانک دنیا سے اٹھ جانا،واقعی ایک سانحہ ہے۔بیماری کے دونوں میں جب دوست انھیں مزاج پرسی کے لیے فون کرتے تو وہ یہ جان کر حیران رہ جاتے کہ اجمل سراج موت کے بارے بالکل بھی خوف زدہ نہیں ہیں ،بلکہ وہ دوستوں سے کہا کرتے تھے ‘‘موت تو رب سے ملاقات کا بہانہ ہے،میں تو اس ملاقات کا منتظر ہوں’’،اور یوں دوستوں سے گپ شپ کرتے،شعر سناتے، ہنستے ہنساتے داعی اجل کی آواز پر حاضری کے لیے پہنچ گئے۔

اجمل سراج امکانات سے بھرپور شاعر تھے،آپ کو خدا نے عزت سے بھی نوازا تھا اور شہرت سے بھی،ورنہ عمومی طور پر ہمارے شاعروں کو یہ دو چیزیں ایک ساتھ کم کم نصیب ہوتی ہیں۔ آپ جس محفل میں ہوتے،مرکزِ نگاہ ہوتے،آپ کا شعرماحول کو اپنا گرویدہ بنا لیتا،جہاں جاتے محبت کی داستان چھوڑ آتے۔اجمل سراج کے مزاج میں نفرت بالکل نہیں تھی،آپ محبت ہی محبت تھے اور چھوٹوں کے لیے شفقت ہی شفقت۔ادبی دنیا میں اسکینڈلز،جھگڑے اور الزام تراشی،معمول کی بات ہے مگر اجمل سراج کے بارے آج تک ایسی کوئی بات نہیں سنی،انھیں اس کارگہ شیشہ گری میں زندگی گزارنے کا سلیقہ آ گیا تھا،وہ اپنی دنیا اور دُھن کے آدمی تھے،دوست بنتے تو دوستی نبھاتے،کسی سے اختلاف ہوتا تو محض ایک طرف ہوجاتے،الزام تراشی اور گالم گلوچ ان کا وطیرہ نہیں تھا،وہ خاموش طبع آدمی تھے مگر دوستوں میں ہوتے تو محفل کی جان ہوتے،بذلہ سنجی اور خوشی طبعی انھیں ودیعت کی گئی تھی،انھوں نے اس کا ہمیشہ لحاظ رکھا۔

میری ان سے کوئی زیادہ ملاقاتیں تو نہیں مگر جتنی ہیں،وہ بہت شاندار اور جاندار ہیں،ان سے رابطہ رہتا کیوں کہ میں انھیں اپنی چیزیں بھیجتا تھا،وہ اس پر رائے دیا کرتے اور بہت کھلے دل کے ساتھ،کہیں اختلاف ہوتا تو فوری کہہ دیتے،لگی لپٹی رکھنے کے بالکل بھی قائل نہیں تھے،صاف گو آدمی ایسا ہی ہوتا ہے جیسے اجمل سراج تھے، شفاف اور شفیق۔چند ماہ قبل لاہور آئے تو دوستوں سے ان سے ملاقات کا اہتمام کیا،میں شہر سے باہر تھا لہٰذا ان سے فون پر معذرت کر لی،کہنے لگے جلد کراچی میں ملاقات ہوگی مگر یہ ملاقات اب کبھی نہیں ہوگی۔جب جب کراچی جانے کا سوچتا تو جو چند نام سب سے پہلے ذہن میں آتے،ان میں اجمل سراج کا نام ہوتا تھا،ہم ان کی شاعری کے مداح تھے،وہ ایسے سینئر تھے جنھوں نے چھوٹوں کے لیے ہمیشہ راستہ بنایا،ان کو شعر کہنا بھی سکھایا اور شعری دنیا کے اسرار بھی۔میں چاہتا ہوں کہ آپ کو اجمل سراج کے بہت سارے شعر سناؤں مگر جگہ کی قلت کے باعث ایک غزل پر ہی اکتفا کیجیے۔

کیا کہے گا کبھی ملنے بھی اگر آئے گا وہ
اب وفاداری کی قسمیں تو نہیں کھائے گا وہ

ہم سمجھتے تھے کہ ہم اس کو بھلا سکتے ہیں
وہ سمجھتا تھا ہمیں بھول نہیں پائے گا وہ

کتنا سوچا تھا پر اتنا تو نہیں سوچا تھا
یاد بن جائے گا وہ خواب نظر آئے گا وہ

سب کے ہوتے ہوئے اک روز وہ تنہا ہو گا
پھر وہ ڈھونڈے گا ہمیں اور نہیں پائے گا وہ

julia rana solicitors

اتفاقاً جو کبھی سامنے آیا اجملؔ
اب وہ تنہا تو نہ ہوگا جو ٹھہر جائے گا وہ!

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply