“حیرت ہے کہ جس شخص کی شخصیت پر تہذیب و تمدن کی الجھنوں کے نقوش ثبت ہیں، اپنے نقطوں سے بیزاری کا اعلان کرتا ہو، یکساں بہاؤ و ترتیب کی کمی ہو،تخصیص کے انتخاب میں گرفتار ہو ، اس کی تنقید اعلی پایہ کی ہے ”
“واقعی میراجی کو ایک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں ہے ”
میراجی کی نثریہ تخلیقات میں اس کتاب کو منفرد اہمیت و حیثیت حاصل ہے یہ کتاب ان نظموں کے تجزیات پر مشتمل ہے جو مختلف ادبی رسائل میں شائع ہوتی رہیں
اس بابت میرا جی خود فرماتے ہیں “کہ اتفاقات نے مجھے ادبی دنیا کے ادارے سے منسلک کر دیا میں نے ہر ماہ کی نظموں کا جائزہ شروع کر دیا ذہن میں چارلس مورو کا انداز تشریح تو آسودہ تھا ہی کچھ شعوری اور کچھ غیر شعوری طور پر میں نے بھی وہی طرز اختیار کی جو آگے چل کر انفرادی رنگ نمایاں کر تی گئی اس کے بعد تقریبا دو اڑھائی سال تک یہ سلسلہ جاری رہا یہ مجموعہ اسی خوشگوار زمانے کی یادگار ہے جب ہر ماہ کے شعری ادب سے میں اس قدر گہرے طور پر روشناش ہوا کرتا تھا ”
میرا جی کی یہ کتاب اردو تنقید کے طالب علم و اساتذہ کی خصوصی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہی لیکن یہ اپنی نوعیت کی بے حد منفرد , جامع اور عملی تنقیدی دستاویز ہے ہماری اردو تنقید میں عملی تنقید کی روایت پختہ نہیں ہے اور اگر مختلف عملی تنقیدی بیانیے سامنے آتے بھی ہیں تو وہ نامکمل و مبہم ہیں ۔
“اردو میں نظموں کی عملی تنقید کا باقاعدہ آغاز میراجی سے ہوا ہے (خ م ز)”
ان تجزیات کا دورانیہ 1940ء 1941 ہے میرا جی نے ان نظموں کے شعرا و نام کو نہیں بلکہ کام کو دیکھ کر انتخاب کیا ہے ‘
نظموں کا تجزیہ کرتے ہوئے میرا جی ہر نظم کے مرکزی احساس کی تلاش کے ساتھ ساتھ نظم کے حاشیاتی موضوعات بھی سامنے لاتے ہیں
خواجہ محمد زکریا اس کتاب کی اہمیت کے حوالے سے لکھتے ہیں
میرا جی کی یہ کتاب اردو میں عملی تنقید کی اولین اور اہم ترین کتاب ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اب تک اس موضوع پر یہ واحد کتاب ہے تو غلط بیانی نہیں ہوگی چند سال سے اسے پنجاب یونیورسٹی اور بعض دوسری جامعات نے ایم اے اردو کے نصاب میں شامل کیا ہوا ہے تاکہ طلبہ جدید نظموں کے مطالعے اور تجزیے کے لیے اسے رہنما کتاب کے طور پر استعمال کر سکے مجھے یقین ہے کہ طلبہ کے علاوہ ناقدین بھی اس سے استفادہ کر سکیں گے”
مجموعی طور پر میراجی کا تحیر انگیز مطالعہ وسیع ، مکمل طور پر غیر جانبدار تنقیدی ڈسکورس کا قیام اور نظر گہری و نئی ہے جو کسی بھی تخلیقی وفور کو مس نہیں کرتی۔ میراجی جدید نظم کے مضمرات کی وضاحت کرکے نئے تنقیدی محاورات کو قائم کرتے ہیں جس کی مثال اردو کی عملی تنقید میں شاذ ہی ملتی ہے
نظموں سے انتخاب
بول کے لب ازاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول کے جاں اب تک تیری ہے
دیکھ کے آہن گر کی دکان میں
تیز ہیں شعلے سرخ ہے آہن
کھلنے لگے قفلوں کے دہانے
2۔ میری انکھوں کی طرح بے نور قندیلیں
ایک دیا باقی ہے اپنی ہلکی ہلکی ضو لئے
آہ ایسی تیرگی اور میں سراپا انتظار
بیٹھا ہوں دروازے پر دل کو قتیلے غم کیے
3۔ فسردہ شام کی تنہائی پھیلتی ہی گئی
بکھر بکھر کے بڑھاتی ہوئی سکوں کے ہاتھ
چمکتے چاند کا گلدان تھا کنارے پ
سفید پھول کی گردن جھکی جھکی ہی رہی
سکوت ریشمی پردوں کی نرم لہروں کو
تھپک تھپک کے سلاتا رہا سلاتا رہا
کھڑی ہوئی وہ دریچے کے پاس دیکھتی تھی
4۔ کر چکا ہوں آج عزم آخری
شام تک ہر روز کر دیتا تھا میں
چاٹ کر دیوار کو نوک زباں سے ناتواں
صبح ہونے تک وہ ہو جاتی تھی دوبارہ بلند
رات کو جب گھر کا رخ کرتا تھا میں
تیر گی کو دیکھتا تھا سرنگوں
منہ بسورے رہ گزاروں سے لپٹتے سوگوار
گھر پہنچتا تھا میں انسانوں سے اکتایا ہوا

5۔ آج یہ دیکھ کے حیرت نہ ہوئی
کہ تیری آنکھوں سے چپ چاپ برسنے لگے اشکوں کے سحاب
اس پہ حیرت تو نہیں تھی لیکن
کسی ویرانے میں سمٹے ہوئے خوابیدہ پرندے کی طرح
ایک مبہم سا خیال
دفتا ذہن کے گوشے میں ہوا بال فشاں
کہ تجھے میری تمنا تو نہیں ہو سکتی
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں