نظریات و مذہب کا اشتراک/عرفان شہزاد

قوم کی فطری بنیاد نسل اور وطن کا اشتراک ہے۔ وطن سے مُراد اس کی جنم بھومی ہے۔ اس جنم بھومی کی حد کیا ہے یہ بھی وہی افراد طے کرتے ہیں۔ مثلاً سرائیکی بلٹ کو پنجابی نہیں سمجھا جاتا تو اس میں بُرا منانے کی کوئی بات نہیں، اسے سائیکی   سمجھا جائے۔ اس سے الگ انتظامی وحدت بننا ہے یا نہیں یہ انتظامی مسئلہ ہے۔ البتہ ان کی الگ شناخت ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

نظریات اور مذہب کا اشتراک قوم نہیں بناتا۔ قوم کا یہ تصور خیالی ہے جو صرف نظریاتی لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ نہ دنیا بھر کے سوشلسٹ ایک قوم ہیں نہ مسیحی اور نہ مسلمان۔ یہ الگ الگ افراد اور اقوام ہیں جن میں کوئی نظریاتی اشتراک پایا جاتا ہے۔

نظریاتی لوگ چوں کہ خود کو علم و عقل کے اشرافیہ سمجھنے کی حماقت میں مبتلا رہتے ہیں اس لیے وہ قومیت کی نظریاتی بنیادوں کو نظریاتی دلائل کی مدد سے باور کرانا چاہتے ہیں۔ مگر فطرت نہیں بدلتی۔ اس لیے وہ ناکام رہتے ہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں اہل علم و فکر کا یہی المیہ ہے۔

پاکستان جن اقوام کو ملا کر بنایا گیا ان کے عوام سے ان کی رائے پوچھی ہی نہیں گئی تھی۔ یہ محض دس فیصد سے بھی کم نظریاتی افراد اور اشرافیہ طبقے کے نمائندگان کی ملی بھگت تھی۔
عوام جب اس نظریاتی جکڑ بندی میں مبتلا ہوئے تو ان کے فطری تقاضے نمایاں ہوئے۔ نسلی اور وطنی قومیت پر مشتمل ان کے مطالبات سامنے آئے جن ریاستی مفادات سے وابستہ طبقات نے اسے غداری اور خلاف اسلام یا غیرت مسلمانی کے خلاف قرار دیا۔

مختلف اقوام بھی فیڈریشن کی صورت میں رہتے ہیں۔ اس میں ان کی  قومی شناختوں کو قربان کرنے یا کم اہم کرنے کے غیر ضروری احمقانہ مطالبات نہیں کیے جاتے۔ مشترکہ مفادات کی بِنا پر مختلف لوگ فیڈریشن بنا لیتے ہیں۔

نصاب کی مدد سے نظریاتی ریاستیں اپنا قومی ایجنڈا عوام کے اذہان میں انڈیلنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان سے سب سے زیادہ متاثر شہر کے لوگ ہوتے ہیں۔ اپنی آبائی علاقوں سے کٹ کر نئی شروعات کرنے والے ان افراد کو نئی شناخت درکار ہوتی ہے۔ اس لیے یہ نظریاتی ریاست کی شناخت کو قومی شناخت کے طور پر اپنا لیتے ہیں اور چوں کہ ریاستی بیانیہ انھوں نے اپنایا ہوتا تو ہے تو تفوق کی ایک نفسیات بھی ان میں اُجاگر ہوتی ہے اور علاقائی قومیت جسے صوبائیت کے عنوان کے ساتھ منفی تاثر ملحق کر دیا گیا، اسے یہ لوگ بُری نظر سے دیکھتے ہیں۔ اسی لیے کہ لوگ برادری سسٹم اور برادری سیاست کی تحقیر بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ فرد کی آزادای ء  رائے ان برادریوں کے نیچے دب جاتی ہے۔

برادریاں شہروں میں بھی ہوتی ہیں اور یہ بھی نظریاتی ہوتی ہیں۔ وکیلوں ڈاکٹروں ، تاجروں طلبہ تنظیموں کی بھی برادریاں ہوتی ہیں مگر یہ والی اچھی ہوتی ہیں اور قوم اور ذات کی بنا پر بننے والی برادریاں بُری ہوتی ہیں۔

سماج کا مطالعہ ہماری تعلیم کا حصّہ نہیں ہے اس لیے زمین اور روایت سے جڑے اور تعلیم یافتگان اور شہری ذہنیت میں خلیجی حائل ہے۔

پی ٹی آئی اس کی ایک کلاسک مثال ہے۔ شہری اور تعلیم یافتگان کو نظریاتی سیاست کے زور پر روایتی سیاست سے متنفر کیا گیا،مگر جیسے ہی عملی سیاست کا آغاز ہوا تو معلوم ہوا کہ سیاست انھیں بنیادوں پر کرنی ہوگی جو پہلے سے طے شدہ ہیں۔

julia rana solicitors

سماجی ارتقا کی رفتار حسب منشا تیز نہیں کی جا سکتی۔ جب آپ کو کتاب کے مطالعے سے فراغت ملے تو اپنے نظریاتی کی غیر ثابت شدہ برتری کو ایک طرف رکھ کر سماج کا مطالعہ شروع کریں تو معلوم ہوگا کہ آپ حقیقتاً کتنے حقیقت آشنا ہیں۔

Facebook Comments

عرفان شہزاد
میں اپنی ذاتی ذندگی میں بہت ایڈونچر پسند ہوں۔ تبلیغی جماعت، مولوی حضرات، پروفیسر حضرات، ان سب کے ساتھ کام کیا ہے۔ حفظ کی کلاس پڑھائی ہے، کالجوں میں انگلش پڑھائی ہے۔ یونیورسٹیوں کے سیمنارز میں اردو انگریزی میں تحقیقی مقالات پڑھے ہیں۔ ایم اے اسلامیات اور ایم اے انگریزی کیے۔ پھر اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی۔ اب صرف دو چیزیں ہی اصلا پڑھتا ہوں قرآن اور سماج۔ زمانہ طالب علمی میں صلح جو ہونے کے باوجود کلاس کے ہر بد معاش لڑکے سے میری لڑائی ہو ہی جاتی تھی کیونکہ بدمعاشی میں ایک حد سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ یہی حالت نوکری کے دوران بھی رہی۔ میں نے رومانویت سے حقیقت کا سفر بہت تکلیف سے طے کیا ہے۔ اپنے آئیڈیل اور ہیرو کے تصور کے ساتھ زندگی گزارنا بہت مسحور کن اورپھر وہ وقت آیا کہ شخصیات کے سہارے ایک ایک کر کے چھوٹتے چلے گئے۔پھر میں، میں بن گیا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply