لفاظ/عامر حسینی

“یونان کا زوال ہو رہا ہے کیونکہ لفظ اپنے معنی کھو رہے ہیں -”
(سقراط 469- 399 ق م )
میں آج سے تین سال پہلے ایک ایسے نوجوان سے ملا جو لوگوں کو اپنی “لفاظی” کے جال میں پھنسا کر لوٹ لیتا ہے اور میں جو خود کو بڑا سیانا سمجھتا تھا اس کی لفاظی کے جال میں ایسا پھنسا کہ اگلے تین سال میں لوگوں کے قرض چکاتا پھرا اور ابھی اس قرض کا یوں سمجھیے کہ 25 فیصد مجھے چکانا ہے – اس دوران میں اس قدر ذہنی دباؤ میں رہا کہ بتا نہیں سکتا- میں نے اپنی غلطی کا بہت بڑا خمیازہ بھگتا اور جتنی مجھ میں محنت کی استعداد تھی وہ ساری جھونک ڈالی – لفظوں کے اس بازیگر نے مجھے کسی ایک لمحے میں بھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ میرے گرد ان دیکھا فریب کا جال بن رہا ہے اور میں اس جال میں آہستہ آہستہ قید ہوتا جا رہا ہوں اور پھر ایک دن میں اس کا پوری طرح سے معمول بن گیا – مجھے ہوش تب آیا جب وہ لفظ باز اپنی واردات کرچکا تھا – اس کے بعد مجھے کئی ایسے کردار یاد آئے جنھیں میں لفظ باز ہی کہوں گا – مجھے رہ رہ کر خیال آتا کہ کاش مجھ میں کہانی بننے کی وہ صلاحیت ہوتی جس کو استعمال میں لاکر میں اس لفظ باز کے کردار کو ایک لازوال کہانی میں بدل دیتا – میں نے اپنے شہر میں ایک ایسے کردار کو دیکھا تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنی لفاظی کے جال میں بڑے بڑے زمینداروں اور گھاگ کاروباریوں کو پھنسا کر لوٹ لیا تھا – وہ انھیں یہ یقین دلاتا تھا کہ اسے علم کیمیا پر عبور حاصل ہے اور وہ کسی بھی دھات کو سونے میں بدل سکتا تھا – وہ ان سنکی کیمیا گروں میں سے نہیں تھا جنھوں نے سونا بنانے کے جنون میں اپنی جملہ کمائی، منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کو آگ لگائی ہو بلکہ وہ دوسروں کی جمع پونچی کیمیاگری کے نام پر ہتھیا لیتا تھا – ایک اور کردار بھی ایسا ہی لفاظ تھا جو لوگوں کو اصل سے زیادہ اصلی لگنے والی جعلی کرنسی کا جھانسا دے کر ٹھگ لیا کرتا تھا اور وہ مرتے دم تک لاکھوں میں کھیلتا رہا- ایک اور کردار جو لفاظی کی کمائی کھاتا تھا اس نے بھی کئی گھاگ تاجروں اور زمینداروں کو دھول چٹائی تھی – لیکن جس لفاظ سے میرا پالا پڑا وہ ان سب سے الگ تھا – وہ نہ تو دھاتوں کو سونے میں بدلنے کا جھانسا دیتا ، نہ وہ جعلی کرنسی کو اصل بناکر پیش کرتا اور نہ ہی وہ کسی ایسے کاروبار کی پیش کش کرتا جس میں دن دوگنی اور رات چوگنی کمائی ہوتی – وہ تو بس خلق خدا کے کام آنے اور دکھی انسانیت کے درد کو کم کرنے کی بات کیا کرتا تھا – وہ کمال کا نثر نگار تھا اور اسے دنیا بھر کے ادب ، سیاست ، سماجیات کے سینکڑوں نامور لوگوں کے نام ازبر تھے اور ایسے ایسے ناموں کے ساتھ کھڑا ملتا کہ آدمی اس کی قسمت اور نصیب پر رشک کرنے لگتا – وہ اتنی مہارت سے آپ کو گھیرتا کہ گھرنے والے کو گھیرے اور محاصرے میں آ جانے کا احساس تک نہ ہوتا – میں گزرے تین سالوں میں اس کردار کو کہانی میں ڈھالنے کے لیے بے چین ہو رہا تھا – لیکن میرے ہاتھ وہ کلید نہیں لگ رہی تھی جو مجھے یہ کام کرنے دیتی – اس دوران میں ایسے درجنوں لوگوں سے ملا جو اس کی لفاظی کا شکار ہوئے تھے – اس کے متاثرین میں ڈاکٹر، انجنئیر، ادیب ، پٹواری ، پولیس افسر ، نامور ایڈیٹرز ، زمیندار ، کسٹم افسران ، تاجر ہی نہیں تھے بلکہ لوگوں کو لوٹ لینے والے شعبدہ باز بھی تھے – اس نے کئی مہا ٹھگوں کو بھی اپنی لفاظی سے لوٹ لیا تھا لیکن مجال ہے جو کوئی پبلک میں آکر اپنے لٹ جانے کا واویلا کر پاتا ، بس اندر ہی اندر اس کے متاثرین گھلے جاتے تھے- اور میں حیران ہوتا کہ کتنی خوبصورتی سے اس نے لفظوں کا تار عنکبوت بن کر لوگوں کو لوٹ لیا تھا – میں سوچتا تھا کہ کیا کبھی کسی مشاق ادیب کا ایسے “لفاظ” سے ٹاکرا نہیں ہوا کہ وہ اس کردار کے گرد کہانی بنتا؟
دن گزرتے چلے گئے اور میری بے چینی بھی بڑھتی چلی گئی اور ایک دن مجھے احسن ایوبی کی ہندی کہانیوں کے اردو ترجمے کی کتاب “کہانی سفر میں ہے” ڈاک سے موصول ہوئی اور اس کتاب کے صفحہ 43 پر مجھے یوگندر آہوجا کی کہانی “لفاظ” پڑھنے کا موقعہ ملا – 48 صفحوں پر پھیلی ہوئی یہ کہانی اسی لفظ باز کردار کی مکمل افسانوی تشکیل پر مبنی تھی جسے میں کہانی میں ڈھالنے کے لیے تین سالوں سے بے تاب تھا اور اپنی ناکامی پر ماتم کناں رہتا تھا – یوگندر آہوجا کا کمال یہ ہے کہ اس نے اس کردار کی افسانوی تشکیل کرتے ہوئے اس میں معاصر ہندوستانی سماج کی کہانی بھی بیان کردی ہے اور یہ کہانی صرف ایک انفرادی شخص کی لفاظی تک محدود نہیں رہی بلکہ پورے سماج کو گھیرے لفظ بازوں کی کہانی بن گئی ہے – کہانی کا اردو روپ پڑھتے ہوئے کہیں آپ کو لگتا ہی نہیں ہے کہ یہ ہندی سے اردو میں ترجمہ ہوئی ہے – کہانی پڑھتے ہوئے بار بار میری نگاہوں میں وہ “لفاظ” گھوم رہا تھا جس کی لفاظی کا میں شکار ہوا تھا – اس کہانی نے میری بے چینی کو ختم کردیا اور میں اس ذہنی دباؤ سے آزاد ہوگیا جس کا میں گزشتہ تین سال سے سامنا کر رہا تھا –
[اس برس ملک کے جنوبی حصہ میں ستاروں سے محبت کرنے والے ایک نوجوان نے جب یہ لکھ کر خودکشی کرلی تھی کہ وہ اپنی روح اور جسم کے درمیان ایک بڑھتی ہوئی کھائی محسوس کرتا ہے- وہ ایک عفریت بن گیا ہے- اسے عفریت بن کر نہیں جینا تھا- اس نے یہ بھی لکھا تھا کہ وہ محسوس کرتا ہے کہ ہمارے جذبات اور معتقدات جھوٹے ہیں – محبت بناوٹی اور آرٹ مصنوعی ہے – اسے نقلی عشق اور آرٹ کے ساتھ نہیں جینا تھا- اس سال جب ملک کے الگ الگ حصوں میں رائٹر قتل کیے گئے۔۔۔۔اس قدیم ترین ملک کی آج تک کی سب سے پہلے مصنف کی خودکشی ۔۔۔ مجھے اس لفظ باز کے پاس یہ کہنے کے لیے جانا تھا کہ وہ اپنا خطرناک کھیل بند کرے- لوگ مرنے لگے ہیں – پوچھنا تھا کہ کیا اس کے اندر بھی کوئی کھائی ہے؟ کھائی نہ سہی کوئی نالی ، گڈھا یا سوراخ ہی – وہ کس طرح جئے جاتا ہے ؟ ]

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply