میرے ذہن میں ہےاسعد ابو خلیل (پیدائش: 16 مارچ 1960) ایک لبنانی-امریکی پروفیسر ہیں جو کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی اسٹانیسلاس میں سیاسیات پڑھاتے ہیں اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے میں بھی لیکچر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ یونیورسٹی آف ٹفٹس، جارج ٹاؤن یونیورسٹی، جارج واشنگٹن یونیورسٹی، کولوراڈو کالج، اور رینڈولف میکون ویمنز کالج میں بھی تدریس کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ وہ لبنانی اخبار “الاخبار” میں ہر دو ہفتے بعد ایک مضمون لکھتے ہیں۔
اسعد ابو خلیل نے “لبنان کا تاریخی قاموس” (1998)، “دہشت گردی پر نئی جنگ: بن لادن، اسلام اور امریکہ” (2002)، اور “سعودیہ کے لیے جنگ” (2004) جیسی کتابیں تحریر کی ہیں۔ وہ ” وكالة أنباء العربي الغاضب” کے عنوان سے ایک بلاگ بھی چلاتے ہیں۔
اسرائیل کی غزہ پر جارحیت اور حالیہ دنوں میں لبنان پر حملوں کے بارے میں انھوں نے ‘میرے ذہن میں ہے/ على بالي’ کے عنوان سے مختصر مضامین لکھے۔ یہاں اپنے پڑھنے والوں کے لیے ان کا اردو ترجمہ دے رہا ہوں اگرچہ میں اسعد ابو خلیل کی اسلامی تحریکوں بارے رجائیت پسند فکر سے متفق نہیں ہوں:
اسرائیلی سائبر حملے سے سیکھے گئے چند اہم اسباق:
1- ہم، جو کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی کی مختلف شاخوں کے اساتذہ ہیں، ہر دو سال بعد سائبر سکیورٹی اور معلومات کے تحفظ سے متعلق کورسز لیتے ہیں، کیونکہ انٹرنیٹ کی دنیا میں مسلسل سائبر حملے ہو رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ تمام مزاحمتی کارکنوں کو اس طرح کی تربیت کی ضرورت ہے۔
2-سائبر حملوں کے حوالے سے سیاسی امور کا ازسرِ نو جائزہ لینا ناگزیر ہو چکا ہے۔ ہم نے امریکی امداد کے بارے میں سنا ہے، جو ظاہر ہے کہ بے ضرر ہیں، جیسے بیروت ایئرپورٹ پر مسافروں اور سامان کی اسکیننگ کرنے والے آلات۔ کیا ان آلات پر کوئی سکیورٹی چیک کیا جاتا ہے؟ ہر دو ہفتے بعد فوج کو مختلف مغربی ممالک سے الیکٹرانک آلات عطیہ کیے جاتے ہیں، اور فوج ان کے اعزاز میں بڑی تقاریب منعقد کرتی ہے۔ کیا ہمیں اس بارے میں کوئی مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، یا پھر ریاست اپنے “بین الاقوامی برادری” اور قرارداد 1701 پر انحصار کر سکتی ہے، جس نے اسے سائبر حملوں اور نظر بد سے محفوظ رکھا ہے؟ کیا ہم نے 7 مئی کے واقعے کی اہمیت کو دیر سے سمجھا؟ کیا ہم اسرائیل اور امریکہ کی ملی بھگت سے مزاحمت کے خلاف سازش کا حجم سمجھ سکے ہیں؟ اگر نہیں، تو پھر ہم سمجھیں کہ کیا ہوا؟
14 مارچ کے گروپ کو مزاحمت کی ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورک سے کیا پریشانی تھی، جب کہ اسرائیلی دراندازیوں کے پیش نظر ایسے نیٹ ورک کا ہونا ایک بدیہی امر تھا؟ ظاہر ہے، وہ نیٹ ورک بھی سائبر حملے کا نشانہ بنا، خاص طور پر اس وقت جب وزیرِ مواصلات نے اس نیٹ ورک کا نقشہ اٹھایا اور اسے مغربی سفارت خانوں میں پیش کیا (جو ہماری حمایت میں تھے، اسرائیل کی نہیں)۔ کیا ہمیں رفیق حریری کے قتل کی تحقیقات پر بھی دوبارہ غور نہیں کرنا چاہیے؟ تحقیقات اور الزامات صرف اور صرف ان ٹیلی کمیونیکیشن نیٹ ورکس پر مبنی تھے جو ملزمان کے درمیان تھے، اور یہ معلومات خفیہ ایجنسیوں سے حاصل کی گئیں، جو تحقیقات میں نامزد نہیں تھیں۔
ہم یقین کر سکتے ہیں کہ انفارمیشن برانچ کے ایک فون ماہر کو اچانک ایک خیال آیا جس سے اس نے تحقیقات کا دھاگا پکڑا، لیکن کیا واقعی ہم اسے تسلیم کر سکتے ہیں؟ ہمیں بندرگاہ کے پورے معاملے کا بھی ازسرِ نو جائزہ لینا چاہیے۔ اسرائیلی کردار کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ میں اب بھی اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ یہ دھماکہ مختلف فریقوں کے مجرمانہ غفلت کا نتیجہ تھا، اور اس کی ذمہ داری بندرگاہ کے سکیورٹی افسران پر عائد ہوتی ہے، جنہیں امریکہ نے نکال دیا۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ اسرائیل نے یہ دھماکہ کیا ہو تاکہ حزب اللہ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے۔
[ستمبر 23، 2024]
عرب مزاحمت کاروں کو، بلکہ تمام عربوں کو، بغیر کسی استثنا کے، ہمارے دشمن کے ساتھ جاری تنازع کی تاریخ اور اس کی نوعیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ عرب دنیا میں صیہونیت اور اس کی تاریخ کے بارے میں بہت کم تعلیم دی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ جدید عرب نصاب (محمود عباس کی حکومت سے لے کر قطر اور سعودی عرب تک) کانگریس کی کمیٹیوں کی نگرانی میں ہیں، اور ان حکومتوں کے ساتھ ان کے تعلقات کو ان کے نصاب سے اسرائیل اور صیہونیت کے خلاف مواد کو صاف کرنے کی کامیابی سے جوڑا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حزب اللہ نے اپنے ارکان کو صیہونیت کے بارے میں تعلیم دینے میں بہت پیش رفت کی ہے، اور اپنے کارکنوں کے لیے عبرانی زبان سکھانے کا ایک اسکول بھی قائم کیا ہے (جبکہ فلسطینی تنظیموں میں عبرانی سکھانے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی تھی، اور جب بھی ضرورت پیش آتی، «فلسطینی مطالعاتی ادارے» سے عبرانی کے استاد کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں)۔
اس موضوع پر بات کرنے کا موقع اسرائیل کی جانب سے لبنان میں حالیہ ہفتوں میں کیے گئے اجتماعی دہشت گردی کے جرائم کے ردعمل کے حوالے سے ہے۔ اکثر سننے میں آتا ہے کہ دشمن نے تمام سرخ لکیروں اور حدود کو پار کر لیا ہے، لیکن یہ اسرائیل کا پرانا رویہ ہے جو تیس کی دہائی سے چلا آ رہا ہے، یعنی نكبت سے بھی پہلے کا۔ یہ دشمن وہی ہے جس نے فلسطین میں ہمارے کنوؤں میں زہر ملایا اور یافا پر قبضے اور تل ابیب کی توسیع کے دوران دھماکہ خیز بیرل کا استعمال کیا۔ یہ وہ دشمن ہے جس نے نكبت سے پہلے ہی گاڑیوں، ایمبولینسوں اور پارسلوں میں بم نصب کیے اور ہوٹلوں اور گھروں کو دھماکے سے اڑا دیا۔ یہ وہ دشمن ہے جس نے ابتدا ہی سے سمجھ لیا تھا کہ اس کے ارد گرد کے عوام اسے قبول نہیں کرتے، اور اس نے شروع ہی سے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اپنی قابضانہ پالیسیوں میں کسی بھی جنگی جرم سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو اس سے اس انداز میں نمٹنا چاہیے کہ وہ کسی بھی معاہدے، معاہدہ یا وعدے کا احترام نہیں کرتا (اسرائیل نے اس سال کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی خلاف ورزی کی، لیکن امریکہ نے السیسی کو امداد کے ذریعے خاموش کروا دیا)۔ دشمن کے ساتھ یہ خیال رکھنا کہ وہ کسی ضابطے کی پاسداری کرے گا، صیہونیت کی تاریخ اور اس کے عربوں کے خلاف عقائد سے متصادم ہے۔ اسرائیل اور صیہونی تحریک کی پوری تاریخ حالیہ نسل کش جنگ اور لبنان میں اجتماعی دہشت گردی کے جرائم کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے۔ دشمن، جو عربوں کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ صرف طاقت کی زبان سمجھتے ہیں، خود بھی حقیقت میں طاقت کی زبان ہی کو سمجھتا ہے۔ فلسطینی عوام نے صیہونیوں کے ایک صدی سے زائد کے مسلسل تشدد کے باوجود طاقت کی زبان کو تسلیم نہیں کیا، جبکہ اسرائیل مزاحمت کے حملوں کے آگے ذلت کے ساتھ پیچھے ہٹتا ہے۔
[ستمبر 24، 2024]
مزاحمتی تحریکیں («حماس» اور «حزب اللہ») بڑھ رہی ہیں اور عوامی تحریکوں میں تبدیل ہو رہی ہیں، جو بیک وقت ان کی طاقت اور کمزوری کا سبب بن سکتی ہیں۔ یہ جنگی اور تنظیمی بھرتی کے لیے انسانی وسائل فراہم کرتی ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ تنظیم کو عوام کے سامنے لانے اور ممکنہ طور پر دراندازی کے دروازے کھولتی ہیں۔ «فتح» کی تحریک بھی اپنے آغاز میں ایک خفیہ تنظیم تھی جو اپنے شامل ہونے والوں کے فائلوں کا بغور جائزہ لیتی تھی۔ معرکہ «کرامہ» کے بعد (جس میں «فتح» نے حسب معمول اپنے کردار کو مبالغہ آمیز انداز میں پیش کیا) ہزاروں افراد تنظیم میں شامل ہونے کے لیے آگے بڑھے، جس سے تفصیلی جانچ مشکل ہو گئی، جیسا کہ ہانی الحسن نے اعتراف کیا تھا۔ پارٹی نے سیاسی پارلیمانی کام شروع کیا اور اس کا عمل عوامی بن گیا، جو دشمنوں کے لیے ایک موقع فراہم کرتا ہے۔ لبنان ایک ایسا ملک ہے جہاں بدعنوانی عام ہے، اور یہ بھی مزاحمت کے دشمنوں کے لیے ایک راستہ فراہم کرتا ہے۔ تنظیم کی نوعیت کثرت کے مقابلے میں اہم بن سکتی ہے، اور خفیہ طریقے اور زیر زمین کام (حقیقی اور مجازی طور پر) حفاظت فراہم کرتے ہیں۔
مزاحمتی تحریکوں کا اپنے عقائد (سیاسی اور مذہبی) پر ایمان ان کی ایک بڑی طاقت ہے، خاص طور پر یہ کہ مزاحمت کرنے والے واقعی موت سے نہیں ڈرتے۔ وہ موت کے خواہشمند نہیں ہیں، لیکن وہ اس سے خوفزدہ نہیں ہوتے کیونکہ وہ باعزت زندگی کی خواہش رکھتے ہیں (جو 14 مارچ کے نعروں کے برعکس ہے)۔
صیہونی خطرے کو سب سے زیادہ انطون سعاده اور موجودہ مزاحمتی تحریکوں نے سمجھا ہے۔ تاہم، ہمیں صیہونیت کو اس کی جڑ سے سمجھنے کی ضرورت ہے، چاہے وہ ایک عقیدہ ہو یا ایک تجربہ۔ اس معاملے میں حزب اللہ لبنان کی دیگر جماعتوں سے زیادہ کامیاب رہی ہے، کیونکہ اس نے صیہونیت کی بُرائیوں کو پڑھا ہے، لیکن صیہونی خطرے کا مزید مطالعہ اور اسرائیل کے دشمنوں کے تمام عناصر کے درمیان عرب دنیا میں تعاون کی ضرورت ہے۔
جاسوسوں کے ساتھ معاملہ کرنے کے طریقے پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ السنوار جیل سے نکلنے کے بعد خود جاسوسوں کا تعاقب کرنے اور انہیں قتل کرنے میں مشغول ہو گیا۔ اس نے سمجھا کہ تعمیر نو کے لیے ضروری ہے کہ غزہ میں جاسوسوں کے نیٹ ورکس کو ختم کیا جائے۔ لبنان میں صورتحال زیادہ مشکل ہے کیونکہ ملک جمہوری ہے اور مزاحمت اور جمہوریت دو متضاد چیزیں ہیں جو اکٹھے نہیں ہو سکتیں۔ پارٹی جاسوسوں کو ریاست کے حوالے کرتی ہے، جہاں وہ ایک یا دو سال قید کاٹتے ہیں اور پھر رہا ہو جاتے ہیں۔ جاسوسوں کو صرف سخت سزا ہی روک سکتی ہے۔ «الجزائری قومی محاذ» اور «فرانسیسی مزاحمت» نے جاسوسوں کے ساتھ انتہائی سختی سے نمٹا تھا۔ لبنان کو وحشیانہ سزا کی ضرورت نہیں ہے، لیکن جاسوسوں کے لیے کوئی مناسب سزا بھی نہیں ہے، اور پادری چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کو نرم رویہ سے دیکھا جائے، حالانکہ جاسوس ہر فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ حزب اللہ اور امل تحریک شیعہ جاسوسوں کو سزا دے کر آغاز کر سکتے ہیں تاکہ فرقہ واریت کے جذبات نہ بھڑکیں۔
[ستمبر 25،2025]
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں