ڈاکٹر ذاکر نائیک جدید مسلم اسکالرز کی اس قسم سے تعلق رکھتے ہیں جن کا دعوا یہ ہے کہ وہ اسلام کو براہ راست قرآن و سنت سے پیش کرتے ہیں اور اس کا “خالص پن” صرف ان کے ہاں ہی پایا جاتا ہے – لیکن درحقیقت وہ بھی ان نوآبادیاتی اور مابعد نوآبادیاتی مسلم اسکالرز میں سے ایک ہیں جو قرآن و سنت کی “یک نوعی تعبیر”
Monolithic interpretation
پر یقین رکھتے ہیں اور یہ یک نوعی تعبیر اسلام بنیادی طور پر مسلمانوں میں دو داعیان تحریک اسلام کی پیروی کے سوا کچھ اور نہیں ہے – ان میں پہلے داعی شیخ ابن تیمیہ ہیں اور دوسرے شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی ہیں – ان دونوں داعیان اسلام کا دعوا تھا کہ وہ عقائد کے باب میں خالص قرآن و سنت کی پیروی کرتے ہیں اور وہی اسلاف کے خالص اسلام کے علمبردار ہیں –
سنی اسلام کے اسلامی احیائیت پسند تحریکوں
Islamic Revivalist movements
کے جتنے بانیان ہیں رشید رضا، حسن البنا ، سید مودودی ان سب کے ہاں خالص اسلام
Puritan Islam
کو لیکر جتنے تصورات ہیں وہ سب کے سب شیخ ابن تیمیہ اور شیخ محمد بن عبدالوہاب کے عقائد اسلام کے باب میں تفردات سے ہی اخذ کیے گئے – مثال کے طور پر عقیدہ توحید کو لیکر ان کے ہاں جو بنیادی نظریات ہیں ان کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ چودہ سو سال میں سنی اسلام کی آرتھوڈوکسی کسی نہ کسی اعتبار سے نا خالص توحید کی پیرو رہی ہے چاہے وہ حنفی تھے یا شافعی تھے یا مالکی تھے یا حنبلی تھے – ان کے نزدیک سنی آرتھوڈوکسی میں تصوف ، اشاعرہ اور ماتریدیہ یہ تینوں رجحانات عقیدہ توحید میں شرک کو داخل کرنے کا سبب بنے اور یہ ان کو نا خالص اسلام کے داعی اور پیروکار قرار دے کر دائرہ اسلام سے خارج کر دیتے ہیں –
جبکہ یہ عقیدہ توحید میں شیعی ، معتزلی اور فلسفیانہ تعبیرات کو سرے سے ہی اسلامی عقیدہ توحید تسلیم نہیں کرتے-
ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ایک خاتون نے ٹیلی فونک کال پر پوچھا کہ اس کے شوہر تصوف پر سختی سے عمل پیرا ہیں اور اس کے صوفی عقائد کے سبب ان کی ازواجی زندگی شدید متاثر ہو رہی ہے تو ڈاکٹر ذاکر نائیک جواب میں فرماتے ہیں کہ بدقسمتی سے جاہل لوگ تصوف کو اسلام سمجھتے ہیں اور وہ توسل و استغاثہ کے قائل ہیں جبکہ تصوف کو اسلام سے جوڑنا تصوف اور اسلام کا جبری نکاح کرانے کے برابر ہے- وہ کہتے ہیں کہ وی خاتون عقیدہ توحید پر ان کے لیکچرز کی وڈیوز اپنے شوہر کو دکھائے تاکہ اسے خالص قرآن و سنت کے مطابق عقیدہ توحید کی سمجھ آئے اور وہ تصوف کو اسلام سمجھنا ترک کردے –
ڈاکٹر ذاکر نائیک اسلامی عقائد کی وہابی تعبیر کے کسی اور تعبیر کو قرآن و سنت کے مطابق نہیں مانتے اور باقی سب تعبیرات کو شرک اور بدعت کی پیروی کرنے والی مانتے ہیں –
جدید احیائیت پسند اسلامی تحریکوں کے داعی مسلم آرتھوڈوکسی کے جتنے بھی مسالک اور فرقے ہیں ان پر فرقہ پرست ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں – جبکہ وہ خود اسلام کے ماننے والوں کی اکثریت کو عقیدہ توحید و رسالت کے باب میں شرک فی التوحید اور شرک بالرسالت کے مرتکب قرار دیتے ہیں – وہ قرآن اور حدیث کے باب میں اپنی تعبیر کو عین قرآن اور سنت مانتے ہیں اور جو ان سے اتفاق نہیں کرتے اور ان سے ہٹ کر قرآن و سنت کی تعبیر کرتے ہیں انھیں وہ اسلاف کے راستے سے منحرف قرار دیتے ہیں – ان کے پیروکار بھی اسی طرح سے کروڑوں مسلمانوں کو مشرک اور بدعتی قرار دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے لیکن کروڑوں مسلمانوں کی تکفیر کرکے بھی وہ خود کو فرقہ واریت سے پاک قرار دیتے ہیں –
شیخ ابن تیمیہ اور ان کے شاگردوں کا ساتویں صدی ھجری /13 ویں صدی عیسوی میں یہی تکفیری یک نوعی رویہ اور موقف تھا جس کے خلاف اس زمانے کے سنی علماء و مشائخ نے آواز اٹھائی اور انھوں نے دلائل سے یہ ثابت کیا کہ توحید کے باب میں شیخ ابن تیمیہ کے نظریات قرآن و سنت کی ایسی تعبیر ہیں جن کا نہ تو ان کے زمانے میں کوئی فقیہ ، محدث اور مفسر قائل تھا اور نہ ان سے پہلے قائل تھا- اور اٹھارویں و انیسویں صدی میں حجاز کے علاقے نجد سے اٹھنے والے داعی شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی اور ان کے پیروکاروں کا بھی یہی تکفیری رویہ اور موقف تھا جس کے خلاف پوری اسلامی دنیا سے ردعمل آیا تھا – توحید کی ابن تیمیائی اور وہابی تعبیر صرف ایک انفرادی رائے نہیں تھی اور نہ آج ہے بلکہ یہ اس تعبیر کو زبردستی اور طاقت کے ساتھ مسلط کرنے کا رجحان ہے جس کے پیچھے بہت بڑی ریاستی طاقت اور نجی عسکریت پسندی ہے جو دیگر تعبیرات کے ماننے والوں کو نیست و نابود کرنے کا زبردست رجحان رکھتی ہے –
وہابی تحریک نے اپنے آغاز کے ساتھ ہی عسکریت پسندی اور جہاد بالقتال کے اسلامی تصور کو اپنی قبضہ گیریت اور حملہ آوری کے رجحان کے ساتھ اپنی تعبیر اسلام کو مسلط کیا – چاہے وہ ابن سعود کی قیادت میں حجاز میں اٹھی ہو یا وہ ہندوستان میں شاہ اسماعیل دہلوی اور سید احمد بریلوی کی قیادت میں سامنے آئی ہو- وہابی تحریک کو جہاں بھی قبضہ اور تسلط ملا وہاں پر اس نے نہ صرف دوسرے مذاھب کو کالعدم قرار دیا بلکہ اس نے سنی آرتھوڈوکسی اور شیعی آرتھوڈوکسی کو بھی کالعدم قرار دے ڈالا – اس رجحان کے تحت جتنی نام نہاد اسلامی تحریکیں مسلم معاشروں میں ابھر کر سامنے آئیں انھوں نے اسلام میں عقائد کے باب میں کسی بھی قسم کی تکثیریت اور تنوع کو نہ صرف ماننے سے انکار کیا بلکہ اس کے اندر سے متشدد اور مسلح رجحانات کے حامل گروہ برآمد ہوئے جنھوں نے جتھوں اور بلوائیوں کی شکل میں اسلام کی غیر وہابی ثقافت کو ملیامیٹ کرنے کی پوری کوشش کی – اس طرح کے جدید داعیان قرآن و سنت کے پیروکار بار بار دہشت گردی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور فی زمانہ خودکش حملوں کے ذریعے وہ غیر وہابی ثقافتی شعائر کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں – ڈاکٹر ذاکر نائیک کی تعلیمات کے زیر اثر ہندوستان میں اسلامک اسٹوڈنٹس آف انڈیا ، بنگلہ دیش میں اسلامی مجاہدین بنگلہ دیش کی کاروائیاں اس کا بڑا ثبوت ہیں –
جماعت اسلامی ہند ہو ، جماعت اسلامی پاکستان ہو یا جماعت اسلامی بنگلہ دیش ہو یہ اور اس جیسی تحریکوں کے پیروکار جدید تعلیمی اداروں میں اپنے نظریات کو زبردستی مسلط کرنے اور ان کے معاصر و مقابل سیاسی و سماجی اور مذھبی خیالات کے حامل دوسرے گروہوں کو زبردستی بے دخل کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور بار بار جامعات میں نفرت انگیزی اور تشدد کو ابھارتے ہیں – عرب ممالک میں اخوان المسلمون سے ہی تمام جہادی اور تکفیری گروہوں کا جنم ہوا جن میں سرفہرست القاعدہ اور اس کے اندر سے جنم لینے والی داعش ہے –
وہابیت جس کی ایک آف شوٹ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی تنظیم ہے یہ جہاں جہاں بھی پھیلی ہے وہاں وہاں ریاستی سرپرستی اسے حاصل رہی ہے اور اس کے پیچھے بے تحاشا فنڈنگ بھی ہے –
جنوبی ایشیاء میں دیوبندی اسلام اپنے ریڈیکل روپ میں اسی وقت تیزی سے مسلط ہوا جب اس نے ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کی یک نوعی تکفیری جہادی اینٹی تصوف تعبیر کو اپنا طرہ امتیاز بنایا اور اسے تب ہی ریاستی سرپرستی بھی میسر آئی –
وہابی آئیڈیالوجی کے ملیٹنٹ ریڈیکل اظہار نے روایتی سنی آرتھوڈوکس اسلام کو بھی تکثریت پسندی سے دور کیا اور یہ جو بریلوی شدت پسندی جنوبی ایشیا میں پائی جاتی ہے اور اس کی تکثیرت پسندی اور تنوع سے ہٹ کر یک نوعی کٹر پن ہے اس کا براہ راست تعلق بھی وہابی – دیوبندی ریڈیکل اسلام کی ریاستی سطح پر سرپرستی ہے –
پاکستان کی ریاست اور اس کی غیر منتخب ہئیت مقتدرہ نے پاکستانی سماج میں صوفی اور شیعی اسلام کی ثقافتی روایات جو یہاں کی ہندو ، سکھ یہاں تک کہ مسیحی ثقافتی روایت سے جو ہم آہنگی اور مقامیت میں جذب و انجذاب کا رجحان رکھتی ہیں انھیں اپنے نام نہاد سٹریٹجک اہداف کو پورا کرنے کے لیے زبردستی نہ صرف تعلیمی نصاب سے خارج کیا بلکہ انھیں نام نہاد وہابی -دیوبندی ریڈیکل اسلام کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا-
ڈاکٹر ذاکر نائیک کو حکومت پاکستان کا سرکاری مہمان کا درجہ دے کر انھیں نسٹ جیسے تعلیمی ادارے میں لیکچر کی دعوت دینا ، انھیں پاکستان کے بڑے شہروں میں جلسہ عام کا انعقاد کرنے کے لیے ریاستی سہولت کاری فراہم کرنا پاکستان کے مین سٹریم اسلام کے ماننے والوں کو چتاونی دینے کے مترادف ہی نہیں ہے بلکہ اس ملک میں بسنے والے مسیحیوں اور ہندوؤں کے لیے بھی بہت ہی منفی پیغام ہے –
کیا ریاست پاکستان وہابی ریڈیکل اسلام کو منطق و استدلال سے رد کرنے والے یا ہندو و مسیحی مذھب کی حقانیت کے دعوے داروں کو یہ سہولت فراہم کرے گی کہ وہ اس ملک کی سرکاری جامعات میں اور بڑے پبلک جلسوں میں اپنے خیالات طالب علموں ، اساتذہ اور عام عوام کے سامنے پیش کرسکیں ؟ کیا وہ مذھب کو سرے سے رد کرنے اور ایتھیسٹ خیالات کے ڈاکٹر ڈکنز جیسے اسکالرز کو پاکستان کی کسی جامعہ میں بطور سرکاری مہمان بلاکر اپنے نظریات کے اظہار کا موقعہ فراہم کرے گی ؟ یا یہ حق صرف وہابی آئیڈیالوجی کے اسکالرز اور مبلغین کو حاصل ہے کہ وہ جامعات میں اپنے سوا باقی سب اسلامی فرقوں کو مشرک اور بدعتی ثابت کریں – گیتا، وید، اپنشد اور انجیل کو غیر معتبر قرار دیں – صوفی اسلام اور شیعی اسلام کو کفر و شرک و بدعت اور زندقہ قرار دیں؟
عامر ہاشم خاکوانی اور ان جیسی قبیل کے لوگ ڈاکٹر ذاکر کی تکفیر اور انھیں مسترد کرنے والوں پر انتہاپسند ہونے کا جب فتوا دیتے ہیں اور یہ اصرار کرتے ہیں کہ انھیں اسلام اور مسلمانوں کے عظیم اسکالرز اور محسن مان لیں وہ یہ مطالبہ ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسوں سے کیوں نہیں کرتے کہ وہ شیخ ابن عربی ، ہندوستان کے صوفیاء ، کبیر جیسے بھگت ، میرا بائی ، منصور حلاج ، سرمد شہید ، شاہ لطیف بھٹائی، گرو نانک اور ان کے ماننے والوں کی تکفیر کرنا بند کریں – ان کے پیروکاروں کی توحید کو شرک قرار دینا چھوڑ دیں – وہ غیر وہابی اسلامی دھاروں اور ان کے ثقافتی مظاہر کی توہین کرنا بند کریں – وہ پاکستان میں یک طرفہ وہابی – دیوبندی- جماعتی ریڈیکل اسلام کے بزور طاقت اور ریاستی سرپرستی میں فروغ دیے جانے کو اسلام کی عظیم خدمت قرار دیتے نہیں تھکتے لیکن اس تسلط اور سرپرستی کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو تکفیری اور فرقہ وارانہ قرار دینے میں ذرا دیر نہیں لگاتے – یہ نری دو رنگی اور منافقت ہے جس کا پردہ چاک کیا جانا بہت ضروری ہے – وہ دوسری صدی ھجری سے پھیلنے والی اسلام کی تعبیرات کو تو قرآن و سنت سے انحراف قرار دیتے نہیں تھکتے لیکن تیرھویں صدی عیسوی اور پھر اٹھارویں صدی عیسوی میں نمودار ہونے والی وہابی تعبیر کے عین اسلام ہونے پر اصرار کرتے ہیں –

نوٹ:یہ تحریر آزادیء اظہار رائے کے تحت شائع کی جارہی ہے۔مصنف کے خیالات سے ادارے کا اتفاق ضروری نہیں،
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں