قیام ِ پاکستان-ایک مس ایڈونچر؟ -شہزاداحمدرضی

کتابیں نہ پڑھنا ایک بہت بڑی سزا ہے۔ جو شخص کتب بینی جیسی عادت سے محروم ہے، وہ احساس اور شعور سے عاری ہے۔اسے گمراہ کرنا بیحد آسان ہوتا ہے۔کچھ عرصہ قبل تک وطن عزیز میں کتابیں پڑھی جاتی تھیں۔ اب صورتحال قدرے مختلف ہے۔ اب زیادہ وقت سوشل میڈیا کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔اور کتب بینی بہت کم ہوتی جارہی ہے۔بلاشبہ سوشل میڈیا جدید دور کی ایک اہم ایجاد ہے اور اس سے کنارہ کشی بھی ممکن نہیں لیکن صورتحال تب بگڑتی محسوس ہوتی ہے جب ہم اس پلیٹ فارم پر عقل کا دامن نہیں تھامتے۔ جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں اور اپنی پسند کے حقائق سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتے۔مطالعہ نہ ہونے کی وجہ سے ہم نرگسیت کے شکار لوگوں کے خیالات سے متاثر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔اصل حقائق تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔
پاکستان کے موجودہ معاشی و سیاسی اور معاشرتی حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ قنوطیت کا شکار طبقہ اس ملک کے قیام کو ہی غلط کہنا شروع ہوگیا ہے۔ بدقسمتی سے ہمار ے ہاں سوشل میڈیا پربھارت کے بارے مرغوبیت کے جذبات کافی زیادہ پائے جاتے ہیں کھلاڑی(بالخصوص کرکٹرز) اور شوبز وغیرہ سے تعلق رکھنے والے افرادتوکچھ زیادہ ہی بھارت کے گن گاتے نظر آتے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی اور پھر کچھ موجودہ کنفیوزڈ حالات ہمارے نوجوانوں کو وطن سے بدظن کر رہے ہیں۔اور اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر ایسے عناصر بھی بہت زیادہ سرگرم ہیں جو یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان قائداعظم ؒ جیسے لوگوں کی محض ضد تھی۔اور اگر پاکستان نہ بنتا تو آج مسلمان متحدہ ہندوستان(بلکہ اکھنڈ بھارت) میں زیادہ امن چین سے رہ رہے ہوتے بلکہ ایک بہت بڑی طاقت ہوتے۔ اس تقسیم نے مسلمانوں کو کمزور کردیا وغیرہ وغیرہ۔یہ پروپیگنڈہ حالیہ وقتوں میں کچھ زیادہ ہی جوش و خروش سے کھلم کھلا سوشل میڈیا پر کیا جارہا ہے۔

قیامِ پاکستان کے پس منظر میں بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اگر ہم تھوڑا سا وقت نکال کر ان کتابوں کا مطالعہ کرلیں تو حقیقت سے روشناس ہوسکتے ہیں۔

انگریزوں سے پہلے اس برصغیر کی حکمرانی مسلمانوں کے پاس تھی۔ مختلف خاندانوں نے یہاں حکومت کی لیکن اس میں سب سے زیادہ وقت مغلوں نے گزارا۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے رنگون جلاوطن ہونے کے بعد ہندوستان باقاعدہ طور پر تاج برطانیہ کے زیر سایہ آگیا اور ہم پر اس تاج کی ”برکات“ نچھاور ہونے لگیں۔ انگریزوں نے کانگریس بنائی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہندو بڑی غالب تعداد میں اس کے رکن بن گئے۔ مسلمان ابھی تک یہ حقیقت ماننے کو تیار نہیں تھے کہ وہ ہارے ہوئے جواری کی مانندہیں اور اپنا سب کچھ کھو چکے ہیں اور ان کے پاس اب بدیشی حکمرانوں کو ماننے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ کافی وقت لگا انھیں یہ سمجھنے میں۔ اس سے پہلے پہلے ہندو کانگریس کے پلیٹ فارم پر سیاسی طور پر متحرک ہوچکے تھے۔انگریزوں نے انگریزی کو سرکاری زبان کی حیثیت سے رائج کیا تھااور مسلمانوں کو انگریزی سیکھنے کے لیے آمادہ ہونے میں بھی کافی وقت لگا۔ معاشی طور پر بھی ہندو مسلمانوں سے کافی زیادہ مضبوط ہوچکے تھے۔ مسلمانوں کی جائیدادیں وغیرہ تو 1857ء کے حالات کا شکارہوگئیں۔ ملازمتوں میں بھی مسلمانوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ غرضیکہ مسلمان ہر لحاظ سے ہندؤوں سے پیچھے تھے اور ان کی یہ پسماندگی بڑھتی جارہی تھی۔ انگریزوں نے بھی دانستہ طور پر ان خطوں پر اپنی ”برکات“ کے نزول کو روکے رکھا یا مقدار کم رکھی جہاں مسلمان زیادہ تھے۔ اس کے علاوہ مسلمان سیاستدانوں کی ایک کثیر تعداد بھی کانگریس کی زلفوں کی اسیر تھی۔ مسلم لیگ تو ایک نیم مردہ جماعت تھی جب تک قائداعظمؒ نے اس کی صدارت سنبھال کر اس کو زندگی نہ بخش دی۔ ان حالات میں مسلمان ہندؤوں کا مقابلہ کیسے کرسکتے تھے؟ کیا مسلمان دوبارہ ہندوستان کے واحد حکمران بن سکتے تھے جب کہ ہندو اب پہلے والے ہندو نہیں رہے تھے اور جدید دنیا کے تقاضے بھی مکمل طور پر بدل چکے تھے۔ کیا مسلمان مستقبل قریب میں اتنی مؤثر طاقت بن سکتے تھے کہ وہ پورے خطے کی حکمرانی بزور طاقت حاصل کرلیتے جب کہ ان کے پاس نہ کوئی ایسی لیڈرشپ تھی جو ان کواس قابل بناتی؟ یہ اب وہ مسلمان نہیں رہے تھے جنھوں نے بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑائے تھے۔کسی مؤثر اور متفقہ قیادت کے فقدان نے مسلمانوں کوہر لحاظ سے پسماندہ بنادیا تھا دیہات کا مسلمان تو سراسر ہندوساہوکار کا غلام تھا۔اور ہماری سیاسی اور مذہبی قیادت کا تو یہ حال تھا کہ بہت سارے مسلمان لیڈر گاندھی کے ”چرنوں“ میں بیٹھنے کو ہی اپنے لیے اعزاز سمجھتے تھے۔سرحدی گاندھی کی اصطلاح اس حقیقت کی غماز ہے۔ اور تو اور مسلمانوں کی مذہبی قیادت (بالخصوص جمعیت علمائے ہند) تک کانگریس کی حلیف تھی۔ یہ وہی قیادت ہے جو نعرہ مارتی ہے کہ تقسیم نے مسلمانوں کو تقسیم کرکے کمزور کردیا۔

اور کیا ہندو قیادت مسلمانوں کے ساتھ شراکت اقتدار کے لیے آمادہ ہوجاتی؟ ہندؤوں کو جب بھی موقع ملا، انھوں نے مسلمانوں کو دبایا۔ اس کی واضح مثال 1937ء کی کانگریسی وزارتیں تھیں۔ اس دور میں کانگریس نے دل کھول کر مسلمانوں کی بیخ کنی کی۔ ہرممکنہ طریقے سے ہندوراج کی واضح شکل دکھائی۔ انگریزوں کے جانے کے بعدبرصغیر کا اقتدارواضح طور پر ہندؤوں کے حوالے ہونا تھا۔ اور ان کی بڑی نمائندہ جماعت کانگریس تھی۔کیا وہ مسلمانوں کے ساتھ شراکت اقتدار کرتی؟ یقیناً نہ کرتی تو پھر مسلمانوں کی پوزیشن کیا ہوتی؟ چلیں ہم فرض کرلیتے ہیں کہ کانگریس آمادہ ہو بھی جاتی تو کیا دوسری ہندو جماعتیں بھی آمادہ ہوتیں؟ گاندھی مذہبی وسیاسی جنونیت کاشکار ہوکر قتل ہوئے تھے۔ وہ مذہبی جنونی کیا مسلمانوں کو کوئی رعایت دیتے؟مسلمان اقلیت تھے اور انھیں اقلیت ہی رہنا تھا۔

یہ دونوں قومیں کبھی بھی برابری کی بنیادپراکٹھے نہیں رہ سکتی تھیں کیونکہ ان کے مذہبی خیالات ایک دوسرے سے مختلف ہی نہیں بلکہ متصادم بھی تھے۔یہ اس قدر متصادم تھے کہ  شاید ہی کہیں دو مذاہب اس قدر ایک دوسرے سے متصادم ہوں۔ دونوں میں سے ایک طبقے کو اپنے مذہب پر کمپرومائز کرنا پڑنا تھا اور لامحالہ یہ کمپرومائز مسلمانوں کو ہی کرنا پڑنا تھا کیونکہ وہ اقلیت تھے۔انتہا پسندہندو توکجا کانگریس جیسی نام نہاد لبرل جماعت نے بھی مسلمانوں کو ان کے عقائد و رسومات پر آزادی سے عمل پیرا نہیں ہونے دینا تھا جیسا کہ سب نے بعد میں دیکھا۔ بابری مسجد کی شہادت کا سانحہ کانگریس کے دور میں ہوا تھا۔اگر پاکستان نہ بنتا توخانہ جنگی کا شکار ہندوستان ایک مستقل اور مسلسل آتش فشاں بنا رہنا تھا۔

وہ طبقہ جو یہ کہتا ہے کہ پاکستان کا قیام نہ ہوتا تو مسلمان ایک طاقت ہوتے، کس دلیل پر یہ بات کرتا ہے؟ انگریزراج کے قیام سے لے کر اختتام تک مسلمانوں نے اپنی حفاظت کے لیے کیا کیا؟ اپنے سیاسی و معاشی حقوق کی حفاظت تک نہ کرسکے۔بنگال کی تقسیم ہو یا شہید گنج مسجد کا واقعہ ہویا کوئی اور سانحہ، مسلمان اور ان کی قیادت مکمل کوشش کے باوجود ناکام ہوتی رہی۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں پاکستان کے قیام کو غنیمت جاننا چاہیے۔ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ کیا عجب ہم کبھی جاگ جائیں اور ان عناصر کے چنگل سے خود کو آزاد کرلیں جنھوں نے ہمیں ذات پات،صوبائیت، اور لسانیت کی بھنگ پلاکر سلادیا ہے۔وہ طبقہ اس ملک کے وسائل کو لوٹ رہا ہے۔ جب ہم جاگ جائیں گے تو یہ ملک ضرور بدلے گا۔ ہم اس کے مستقبل سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں نرگسیت کے شکار اور بھارت کی زلفوں کے اسیر طبقے سے زیادہ مرغوب نہیں ہونا چاہیے۔ ہمسایوں سے اچھے تعلقات ضرور ہونے چاہیں لیکن ان سے متاثر ہوکر اپنے گھر کو برابھلا نہیں کہنا چاہیے۔پاکستان کا قیام کسی کی ضد کا نتیجہ نہیں تھا۔ یہ ضرورت تھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply