سیلون کے ساحل ۔ہند کے میدان( باب نمبر6 )نویرا علیہ/سلمیٰ اعوان

امن کو دُنیا میں پھیلنے پھولنے دو

جب تم اسے دنیا میں پھیلانے کی کوشش کرتے ہو
تب نفرتیں تو کہیں منہ چھپا لیتی ہیں
اور محبت راج کرنے لگتی ہے
جب تم امن کو زندہ رکھنا چاہتے ہو
تب تم سفید فاختاؤں کو پرواز کی اجازت دیتے ہو
جب تم امن کا دروازہ کھولتے ہو
تب امن زندگیوں کو خوش آمدید کہتا ہے
جب تم امن کو پالیتے ہو
تب یہ تمہارے ساتھ رہنا شروع کردیتا ہے

سنہالی زبان میں امن کا یہ نغمہ ہمیں کیا سمجھ آنا تھا۔سری لنکا کے اِس مشہور اور مقبول شاعر روی Ravi Sathasivam کے بہت سے رومانی گیت ہم نے راستے میں سُنے اور اپنے گائیڈ سے سمجھے تھے۔اسے بھی اُسی کی زبان سے سمجھا تھا۔اِس پیغام دیتے نغمے نے ہمیں افسردہ کردیا تھا۔میرے ملک کی طرح دہشت گردی کا مارا ہوا ملک جو امن کیلئے ترس رہا ہے۔

ہم کینڈی سے نویرا علیہ جارہے تھے۔موسم کا مزاج گھڑی میں تولہ اور گھڑی میں ماشہ جیسا تھا۔ابھی دھوپ ہے ۔ذرا آگے گئے تو ننھی منی پھوار کا سلسلہ شروع ہوگیا۔مسٹر جسٹنن کا کہنا تھا کہ نویرا علیہ دنیا کی چند خوبصورت ترین جگہوں میں سے ایک ہے۔

گمپولاGampola کینڈی سے کوئی زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔یہاں مسجد کے پاس گاڑی رکی اور ہمارے گائیڈ نے کہا۔
‘‘اندر جائیے،دعا کیجیے۔یہاں عراق کے شہر کوفے کی ایک بہت برگزیدہ ہستی شیخ سید ولی اللہ جنہیں عرف عام میں بابا کوفی کہا جاتا ہے دفن ہیں۔’’

اندر گئے نفل پڑھے ۔پابندیاں یہاں بھی وہی تھیں۔مسجد کے اندرنہیں جانا۔مزار پر فاتحہ پڑھی اور اُس ہندو جوڑے کو پیار کیا جو یہاں دعا مانگنے کیلئے آیا تھا۔
زندگی کتنی سہل ہے ایسے معصوم لوگوں کیلئے جو تعصب سے  پاک ,دل کے سچے اور کھرے ہیں. جو دل کو خدا کا گھر سمجھتے ہیں اور مسجد ،مندر،گرجا اور معبد میں بے دھڑک جانا چاہتے ہیں۔کاش کوئی انہیں نہ روکے۔

گمپولا سے نویرا علیہ کی طرف مڑے ۔یہاں تو پٹ پٹیایاہوا پڑا تھا۔راستہ بلاک۔مٹی کرینوں سے اٹھائی جارہی تھی۔سڑک کو چوڑا کیا جارہا تھا۔اردگرد کے گھر بھی ماٹھے ماٹھے سے نظر آئے اور منظروں میں بھی رعنائی کم کم تھی۔شاید گردوغبار نے سارا حسن کیموفلاج کردیا تھا۔

Pussellwalla سے ٹی گارڈنز شروع ہوئے۔سڑک عمدہ، ماحول رعنائیوں سے لبریز اور موسم رومان پرور۔سبھی کچھ دل اور نظروں کو بھانے لگا۔سری لنکا کے یہ پہاڑی علاقے جزیرے کے تقریباً وسطی حصّے میں تین ہزار سے 8000ہزار فٹ کی بلندی کے گھیرے میں ہیں۔

چائے یہاں کب تھی پہلے۔ خیر سے بہت سے اور تحفوں کے ساتھ یہ بھی گوروں یعنی صرف انگریزوں کا تحفہ ہے۔ان کی کاوشوں نے گول دائروں میں گھومتی اِن پہاڑیوں کو کچھ ایسی مخملیں پوشاک پہنا دی کہ جسکی ڈیزائن داری میں شفاف آبشاریں اور ہرے بھرے بلندوبالا درختوں کی ایک دنیا شامل ہوئی۔ان سب نے خود کو نمایاں کرتے ہوئے اپنے ماحول کو وہ رعنائی دی کہ دیکھنے والوں کے قلب و نظر کیلئے جان فزا بن گئے۔

اِن ڈھلانوں پر چائے کے پتے چُننے والیاں دور سے ہمیں خوش رنگ تتلیوں کی طرح ہی نظرآئی تھیں۔سیڑھیوں کے راستوں سے کہیں کہیں اُترتے ہوئے آگے پیچھے یہ گل رنگ سے متحرک وجود کچھ ایسے ہی نظر آتے کہ جیسے کوئی پینٹ کیا ہوا منظر سامنے ہو۔

Kadclkithala میں کنارے پر بنے ہوٹل میں کھانا روایتی قسم کا تھا۔چاول،پاپڑسبزی،سموسے اور رول۔ہم نے سبھی چیزیں منگوائیں اور تھوڑا تھوڑا سب کو چکھا۔موسم اتنا خوبصورت ہورہا تھا۔ملگجے سے آسمان سے پھوار کسی مہارانی کی طرح دھیرے دھیرے اُترتی تھی۔

نویراعلیہNuwara Eliya قدرت کا ایک شاہکار،ایک حسین، ایک انمول تحفہ جو سری لنکا کو دیا گیا۔ مگر کیسی عجیب بات ہے کہ انگریزوں کو یہاں سے رخصت ہوئے بھی زمانہ گزرا۔مگر وادی میں داخل ہوتے ہی احساس ہوتا ہے جیسے کہیں غلطی تو نہیں ہوئی۔یہ تو لیک ڈسٹرکٹ Lake District کا علاقہ ہے۔وہی ٹوڈرTudor اور وہی گھروں کا وکٹورین سٹائل ۔یہاں وہاں بکھرے ہوئے تہذیبی نشان کچھ یاد دلاتے،کچھ سمجھاتے۔

اب سچی بات تو ہم ایشیائی لوگوں کو بڑی کڑوی گولی لگتی ہے۔تبّروں سے نوازتے ہیں انہیں۔لٹیرے ڈاکو جانے کیا کیا خطاب دیتے ہیں۔

‘‘ارے چلو اپنا گھر بھرا تو کچھ ہمیں بھی دیا پر یہ اپنے کیا کر رہے ہیں؟ہم غریبوں کے منہ سے روٹی کے ٹکڑے چھین کر اپنی آل اولادں کی سات پشتوں کا مستقبل محفوظ کررہے ہیں۔میرے ملک کے میدانی کیا پہاڑی علاقوں میں انگریزوں نے کہیں سنگلاخ چٹانوں کا سینہ چیر کر کہیں اونچے پہاڑوں میں سرنگیں کھود کر ریلوے ٹریک بنائے،لائنیں بچھائیں اور گاڑیاں چلائیں۔ہم نے کیا کیا ؟بنی بنائی چیزوں کو سنوارنے اور اُن میں مزید بہتری لانے کے انہیں بیچ کھانے لگے۔ریلوے کا خانہ خراب کردیا۔

وادی الوہی سکون میں ڈوبی ایک مسحور کن خوشبو سے مہک رہی تھی۔گاڑی مرکزی شاہراہ سے اولڈ بازار سٹریٹ میں داخل ہوئی۔سبزیوں کی دکانیں ہی حُسن و آرٹ کے شاہکاروں جیسی لگیں۔پیشکش میں ایک طریقہ ،سلیقہ،ترتیب اور حسن تھا۔

ہوٹل میں داخل ہوتے ہی احسا س ہوا جیسے یہ عظیم الشان سی بھاری بھرکم عمارت کچھ خاصے کی چیز ہے۔لکڑی کی چھت چاروں اطراف سے ڈھلان دیتی ہوئی۔ درمیانی حصّے میں گنبد تھا۔ آتش دان ایسے منفرد سے ،دیواریں کھانے کا کمرہ،رہائشی کمرے ، ٹی وی لاؤنج۔ پتہ چلا تھا کہ برٹش دور میں گورنر کا گھر تھا۔
واہ ری بے وفا دُنیا کیسے کیسے چولے پہنتی ہے تو

نویرا علیہ فطرت کا گھر ہے۔اِسے انسانی ہاتھوں نے جو سنوارا وہ تو اپنی جگہ مگریہاں خدا بولتا ہے۔بہت سویرے کی لمبی سیر میں لوگوں سے ملاقاتیں جنہیں انگریزی نہیں آتی تھی اور جن کی زبان سے میں ناآشنا تھی۔دیہاڑی دار مزدور لوگ جو اپنے کاموں پر جارہے تھے۔عورتیں بھی کہیں کہیں نظرآتی تھیں۔بچے سکولوں کیلئے بھاگ رہے تھے۔پیدل چلنے والوں کی بڑی تعداد ننگے پاؤں تھی۔سچی بات ہے وجہ جو بھی ہو پر یہ طبیعت پر گراں گزرتی تھی۔

ناشتے کے بعد شہر کی دو گھنٹے کی سیر کیلئے نکلے۔سارا شہر اپنی عمارات اور رکھ رکھاؤ کے حوالے سے قدیم شاہانہ عظمت کا حامل نظرآتا تھا۔سچی بات ہے شہر کا لینڈ مارک اس کے ہوٹلوں کا حُسن ہے جو ہیروں کی طرح جگمگاتے اور نظروں کو خیرہ کرتے ہیں۔ہل کلب ایک اور خوبصورت شاہکار ہے۔ہمیں پتہ چلا تھا کہ کلب میں کوئی فردنکٹائی کے بغیر داخل نہیں ہوسکتا۔اب کیا کہوں کہ غریبوں پر بڑی جگہوں کے دروازے کیسے بند کئے جاتے ہیں؟

ہم گاڑی میں بیٹھے گرینڈ ہوٹل کی عمارت دیکھتے اور سُنتے ہیں کہ یہ الزبتھ ین Elizabethan سٹائل ہے۔ہمیں تو ان کے گوتھک سٹائل سے بڑی آگاہی تھی مگر اب انواع و اقسام کا ذکر سُن رہے تھے۔پوسٹ آفس بھی بڑا منفرد تھا۔سُرخ اینٹوں کا بنا ہوا۔ پارکوں کی خوبصورتی اپنی جگہ متاثر کن تھی۔وکٹوریا پارک دیکھا اور پھر جاپان کے تعاون سے بناے جانے والے پارک کا بھی کوئی جواب نہ تھا ۔اتنا خوبصورت اور بچوں کیلئے ماڈرن تحفوں سے سجا ہوا۔گلف کلب، اینجلیکنAnglican چرچ اور سڑکوں کو سجاتے شاہ بلوط کے درخت ہکگالا Hakgala کا بوٹینیکلBotanicle گارڈن بھی مسٹر جسٹنن کی مہربانی سے دیکھ لیا جو شہر سے کوئی چھ میل کی مسافت پر ہے۔اتنا خوبصورت کہ روح تک سرشار ہوگئی۔

تو چند لمحوں کیلئے اُن کا ذکر خیر بھی ہوجائے کہ جنہوں نے نویرا علیہ کے فطری حسن کو اپنے ماہرانہ ہاتھوں اور دماغ سے رعنائی دی۔جسٹنن پریرا نے تاریخ کھول دی تھی۔ پہلی بسم اللہ کرنے والے اُن انگریز شکاریوں کی ایک ٹولی تھی جو کوئی 1819 کے لگ بھگ یہاں شکار کھیلنے آئی اور جنہوں نے یہاں ملٹری سینیٹورئم اور بہترین قسم کی تفریح گاہ بنوائی۔

دوسرا اوربڑا خراج سموئیل بیکر کو جاتا ہے جو سیاح تھا اورایک بڑا تحقیق کار۔اپنی نیل پر کی گئی تحقیقات اور انکشافات کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور تھا۔نویرا علیہ میں اُس نے دو ہفتے گزارے۔بہت متاثر ہوا اور ایک چھوٹا سا انگریزی گاؤں بنانے کی خواہش لے کر رُخصت ہوا۔دو سال بعد وارد ہوا۔ یہاں اُ س نے اپنی ایک دنیا آباد کی۔اسلحہ خانے سے لے کر دھوبی،نائی،موچی تک اُس نے یہاں آباد کئیے۔گھوڑا گاڑیاں ،سڑکیں،باغ اُن میں نئے نئے بوٹے سبزیاں چقندر،آلو،ٹماٹر،گوبھی،گائے،بھینسیں،مرغیاں،انسانی ضروریات کا کون سا ایسا پہلو تھا جو نظرانداز ہوا۔

جب داستان ختم ہوئی تو احساس ہوا کہ بستیاں بنانے والے بھی کیسے لوگ ہوتے ہیں۔غیرمعمولی اور آ ہنی عزم والے۔

آج کے پروگرام میں سری پاڈا (آدم پیک) پہنچنا تھا۔راستے میں چائے کے باغات دیکھنے اور چائے بننے کے مراحل کو دیکھنا تھا۔مجھے اِس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ میں نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں اپنے قیام کے دوران نواب سر سلیم اللہ کے بھانجے کے سلہٹ ٹی گارڈن پر پورا ہفتہ گزارا تھا۔ان سب مرحلوں سے میں آشنا تھی۔مگر سوال تو مہرالنساء کا تھا۔سو خاموش ہونا پڑا۔

راستہ کیا تھا ۔اب جنت تو دیکھی نہیں کہ اُسی سے تشبیہ دے سکتی ۔میں نے لفظوں میں اپنے احساسات کو ڈھالنا چاہا تو وہ بھی دم توڑتے نظرآئے۔میں بلوچستان اور شمالی علاقہ جات کے پہاڑوں اور اُن کی رعنائیوں ،ان کے دبدبے اور ہیبت کے طلسم سے آشنا سیاح ہوں۔مگر ان پستہ قامت بلندیوں کا حُسن بھی بڑا لرزہ خیز قسم کا تھا۔بہتوں کی صورت اٹھان اور پھیلاؤ لئیے ہوئے ۔پہلی اٹھان گویا کوئی تین ہزار کے ہیر پھیر میں چائے کے سرسبز رنگوں کی ہی ورائٹی میں دوسری ڈھلان دھیرے دھیرے کسی مست خرام نازنین کی طرح اپنے سینے پر چیڑاور صنوبر کے پیڑوں کو سجائے بانکپن سے اوپر چڑھتی تھی۔

ان منظروں میں چمکتے گھروں کی سُرخ چھتیں گویا سُرخ نگینوں کی طرح دِکھتی تھیں۔بادلوں کے لہراتے پُرے ایک دوسرے کو پچھاڑتے آگے پیچھے بھاگتے تھے کبھی کبھی ننھی منی سی پھوار نزاکتوں سے دھرتی اور اس کی چیزوں پر قدم دھرتی جیسے ڈرتی ہو کہ کوئی اُسے مغروری کا طعنہ نہ دے دے۔ چھوٹے چھوٹے موڑ ۔ہر موڑ نئے منظروں کا پیامبر ۔ کہیں تازہ سبزیوں کے چھوٹے چھوٹے کھوکھے رنگوں کی بہار کو یوں سجایا سنوارا ہو ا کہ صدقے واری ہونے کا دل چاہے۔

کہیں پہاڑوں کی صورت گری کچھ ایسی کہ جیسے سبز چادریں اوڑھے حالت آرام میں ہوں،جیسے خوابیدہ سے ہوں،جیسے گیان دھیان میں ڈوبے ہوئے اللہ سے لو لگائے رازونیاز کرتے ہوں۔ان کی ہر صورت ذہن میں نئی تشبیہیں اُبھارتی اور نئے خیالوں کو جنم دیتی تھی۔

چائے کے باغات کا سلسلہ فطرت کے کسی دلآویز شاہکار کی طرح آپ کا دل مٹھی میں بند کرلیتا ہے۔راستہ سانپ کی طرح بل کھاتا تھا اور پہاڑی علاقے کے سب لوازمات سے بھی لیس تھا۔داہنے ہاتھ گھاٹیاں تھیں پر انہیں دیکھ کر رگوں میں خوف سے سنسنی کی لہریں نہیں دوڑتی تھیں۔بائیں طرف پہاڑوں کی دیوار تھی پر ان میں جلال سے زیادہ جمال کی جھلک تھی۔

چائے بننے کے مرحلے میں سب سے اہم اور دلچسپ بات پتے کی سنہری مائل رنگت ،نوخیزی اور تازگی سے ہے ۔بعینہٰ جیسے ایک اوباش نواب گل چینی کیلئے نوخیز کلی کا مطالبہ کرتا ہے۔ہر پودے کی زندگی صرف چار سال تک ہوتی ہے۔لمبے چوڑے مرحلے جن میں پتوں کا توڑنا،وزن ہونا،مشینوں میں رولنگ ،عمل تکسید سے گزارنا،خشک کرنااور پھر انکی گریڈنگ کا مرحلہ۔

مزے کی بات نمبر ون چائے نمبر ون ملکوں کو جاتی ہے۔نمبر ۲ ایشیائی ملکوں کیلئے۔ اُن میں بھی درجہ بندیاں ۔اپنے پیٹرز برگ میں قیام کے دوران ہم ایک چھوٹے سے ہوٹل میں مقیم تھے جس کے کچن میں بیٹھ کر چائے خود ہی بنا لیتے تھے۔سری لنکا کی کمپنی کے ٹی بیگز اور خالص دودھ۔سچی بات ہے چائے پینے کا مزہ آجاتا تھا۔

سچ تو یہ ہے کہ نویرا علیہ سے آدم پیک تک کے راستے کی خوبصورتی کو گرفت میں لانا بہت مشکل تھا۔پہاڑیوں کی پہلو در پہلو لیٹی پستہ قامت ڈھلانوں پر بنے سُرخ زمین کے راستے جن پر بنی زگ زیگ کی طرح گھروں کو جاتی سیڑھیاں۔نوعمر لڑکیوں کے غول،آبشاریں،قدرتی کھوہیں،مندر گرجے اور کہیں کہیں مسجدوں کے مینار کہیں دعا کیلئے اٹھا کسی بوڑھے انسان اور درخت کے ہاتھ،کہیں سبزے کی صورت گری ایسی کہ جیسے کِسی نے بالوں کی مینڈھیاں کر رکھی ہوں۔
کٹھل کے درختوں نے مجھے ایک بار پھر ماضی میں دھکیل دیا تھا۔

ایک چھوٹے سے سکول سے نکلتے بچوں کا غول دیکھ کر میرے خوشی کے اظہار پر مسٹر جسٹنن نے کہا تھا۔‘‘بڑی جدّو جہد کرنی پڑی تھی اس کے لئیے۔ہمارے شاعر اور ادیب بہت فعال رہے ہیں۔ذ ہنی بیداری میں اُن کا بہت کردار رہا۔خراج پیش کرتے ہیں ہم انہیں ۔خیر سابقہ حکومتوں کو بھی یہ نقطہ سمجھ آگیا تھا۔تعلیم اور صحت اُن کی بھی ترجیحات رہیں۔ذرا سُنیے اِس نظم کو۔
ہمارے بچوں کو غلامی سے بچاؤ
اس زمین پر کچھ مکروہ صورت
ایسے بھی ہیں
جو ہمارے خوبصورت بچوں سے جبراً
مشقت کرواتے ہیں
وہ انکی روح مار دیتے ہیں
اُنکے چھوٹے چھوٹے سے ہاتھ
بڑے بڑے اوزار اٹھاتے ہیں
حالانکہ وہاں کتابیں ہونی چاہیں
وہ ان خبیث لوگوں کی باتیں سُنتے ہیں
اور انہیں استاد کہتے ہیں
یہ لفظ تو ان کے سکول ٹیچرز کیلئے ہے
روٹی کیلئے بچپن ہی سے تگ و دو
جو انہیں اپنے مستقبل کیلئے کرنی ہے
ایسا ہمارے خود غرض لیڈروں کی وجہ سے ہے
جو انہیں غلامی میں رکھنا چاہتے ہیں
آؤ اکٹھے ہوجائیں
اور اپنے بچوں کو
غلامی کے دوزخ سے بچائیں

سڑک کے کنارے چند بوڑھی عورتوں کو پیدل چلتے دیکھ کر میں نے جسٹنن سے انہیں لفٹ دینے کا کہا۔
‘‘ارے باپ رے باپ۔ نرم خوسا آدمی ترش روئی سے بولا۔ مر بھی جاؤں تو انہیں لفٹ نہ دوں۔یہ ہندو عورتیں تامل ہیں۔یہ تامل لوگوں کا علاقہ ہے ۔میں جانتا ہوں انہیں آگے اپنے قصبے Hatlonمیں جانا ہے۔گاڑی بھی خالی ہی ہے۔کوئی حرج نہیں تھا۔مگر کون جانتا ہے اِن میں کِس کے پاس خود کش دھماکہ خیز مواد ہے۔اِن لوگوں کا تو یہی وطیرہ ہے۔ لفٹ مانگو اور گاڑی بندے اڑا دو۔
ہائے اِس تیسری دنیا کے دہشت زدہ ملکوں کے المیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply