آج ہم بات کریں کے ”رازداری“ پر۔ کیوں کچھ لوگ بہت رازدار قسم کے ہوتے ہیں، کافی عرصہ ان کے ساتھ گزار لینے کے بعد بھی آپ ان کی زندگی کے کئی اہم پہلو سے ناآشنا رہتے ہیں، یہ کون لوگ ہوتے ہیں اور انکی کیا نفسیات ہوتی ہے؟
لیکن پہلے ”رازداری“ (سکریسی) اور ”خلوت“ (پرائیوسی) میں فرق جاننا ضروری ہے۔
پرائیوسی کو پسند کرنے والا انسان اپنے متعلق معلومات کو چھپاتا نہیں ہے، بلکہ اس کے متعلق معلوم سب کو ہوتا ہے لیکن وہ کسی کے ساتھ اپنی ذاتی معلومات بانٹنا نہیں چاہتا، مثال کے طور پر سوشل میڈیا پر اپنی ذاتی تصاویر کو زیادہ شیئر نہ کرنا، اپنی فیملی/ذاتی سرگرمیوں میں دوسروں کو شامل نہ کرنا (لیکن وہ سرگرمیاں چھپی ہوئی نہیں ہوتی) یا پھر دخل اندازی نہ کرنے دینا، ایسے لوگ باہر کی دنیا اور اپنی ذاتی زندگی کے درمیان ”حدود“ قائم کرتے ہیں۔
اس کے برعکس رازداری میں رہنے والا انسان جان بوجھ کر اپنی کچھ معلومات کو اپنے بہت ہی قریبی رشتوں سے چھپاتا ہے۔ اسکی زندگی کے کچھ پہلو یا سرگرمیاں اس کے قریبی لوگوں سے راز میں ہوتی ہیں۔
پرائیوسی میں رہنے والا انسان ایک صحت مند انسان ہوتا ہے، اور ہم سب کو آج کی اس جدید دنیا میں حدود قائم کرنی چاہیے۔ لیکن رازدار انسان ایک صحت مند انسان نہیں ہوتا۔
”برینے براؤن“ ایک بہت ہی مشہور امریکی پروفیسر ہیں اور انکی گہری تحقیق رہ چکی ہے ”شیم“ (شرمندگی) پر، وہ کہتی ہیں کہ شیم کے تین دوست ہوتے ہیں….
رازداری، خاموشی، تنقید (ججمنٹ)۔
جی ہاں! رازدارانہ رویہ کی تہہ میں بہت سارا ”شیم“ ہوتا ہے۔ کیونکہ آپ اپنی زندگی کے انہی پہلو، رویوں، معلومات، لت، احساسات، جذبات وغیرہ کو راز میں رکھتے ہیں جس سے منسلک آپ کے اندر شرمندگی ہوتی ہے۔ یہ شرمندگی بہت ممکن ہے کہ آپ کو والدین، معاشرہ یا زندگی کے تجربات سے ملی ہو، بہت ممکن ہے کہ بچپن میں ملنے والے ٹروما کی دین ہو۔
رازدارانہ رویے کو ”خوف“ سے بھی بہت پذیرائی ملتی ہے، جب آپ سے کوئی غلطی یا خطا ہوجائے، یا ایسی سرگرمی میں آپ شمولیت اختیار کریں جو قابلِ قبول نہیں تو ایسے میں ڈر اور غلطی پکڑے جانے کے بعد کا شیم، یہ دونوں مل ملا کر آپ کو کئی راز اپنے اندر دفن کردینے پر مجبور کرتے ہیں۔
لیکن کیا ان رازوں کو اپنے اندر رکھنے کی کوئی قیمت ہے جو آپ کو ادا کرنی پڑتی ہے؟؟؟
بہت بڑی قیمت ہے رازدار انسان ہونے کی!!!
آپ ہمیشہ اپنے رازوں کے بوجھ تلے دبے رہیں گے، جتنے گہرے اور تاریک راز ہونگے، اتنا ہی گہرا ٹروما، اتنی ہی شدت کی شرمندگی، اور وقت گزرنے کے ساتھ ڈپریشن میں دھنستے جائیں گے آپ۔ خفیہ انسان ہونا آپ کو اکیلے پن کا شکار بھی کرتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ”شرمندگی“ کے اس گول چکر کو کیسے توڑا جائے کہ آپ ایک رازدار انسان ہونے کے بوجھ سے باہر نکل آئیں۔
نشاندہی:
سب سے پہلے تو آپ کو نشاندہی کرنی ہے کہ کیا آپ ایک رازدار انسان ہیں، آپ کا اپنے متعلق معلومات کا اپنے پارٹنر یا لوگوں سے جان کر چھپانا کوئی فخریہ بات نہیں بلکہ آپ کے ٹروما اور شیم کی نشانی ہے۔ اس بات کی نشاندہی کرنا کہ آپ کو کچھ ایسے تجربات کا سامنا رہا ہے جس نے آپ کو خوف، شیم اور اکیلے پن میں دھنسا ہوا انسان بنا دیا۔
اثرات:
آپ کو ان محرکات (ٹریگر) پر غور کرنا ہے، ان واقعات حالات پر غور کرنا ہے جس کے اثرات کے زیرِ اثر آپ ایک رازدار انسان بن گئے۔ وہ اثرات اسکول میں بلنگ، والدین کی لاپرواہی، غربت، دقیانوسی معاشرے میں تربیت، ابیوز، تجربات، کچھ بھی ہوسکتا ہے جس نے آپ میں شرمندگی کے زہر کو بھرا اور یہی وجہ ہے کہ آپ دو زندگیاں جیتے ہیں، کئی مکھوٹے لگاتے ہیں، کیونکہ ہر مکھوٹا کسی نہ کسی کی امیدوں پر پورا اترنے کے لیے پہننا پڑتا ہے، کیونکہ آپ کی زندگی میں ایسے لوگوں کی کمی ہے جو آپ کو ویسے دیکھ سکیں جیسے آپ ہیں، جو آپ کی غلطیوں کو غلطی سمجھ کر بنا شیم کے آپ کو معاف کرسکیں۔
نام:
ہم جب بھی اپنے جذبات، احساسات، مسائل کو نام دیتے ہیں تو ہمارے دماغ کو جواب جان کر سکون ملتا ہے۔ آپ کو جب بھی اپنے جسم میں شیم یا کسی بھی منفی جذبہ کی بھنک پڑے تو اسے محسوس کرنے پر نام ضرور دیں۔
کہانی:
پروفیسر برینے براؤن کہتی ہیں کہ شیم کو رازداری کے ساتھ ساتھ ”خاموشی“ بھی بہت پسند ہے، آپ جب تک اپنی کہانی کو آواز نہیں دیتے تب تک آپ اس رویے سے باہر نہیں نکل سکتے۔ لیکن ہم اپنی کہانی وہیں شیئر کرتے ہیں جہاں بھروسہ، اعتماد، ججمنٹ کا ڈر نہ ہونا، سمجھے جانا، جذباتی طور پر پختہ لوگوں کا ساتھ ہونا….. یہ سب ہونا بہت ضروری ہے، آپ یونہی ہر کسی کے ساتھ اپنی کہانی یا گہرے احساسات نہیں شیئر کرسکتے۔ تھراپی یا گروپ تھراپی آپ کی مدد کرسکتی ہے اس معاملے ہیں۔
ہمارے یہاں گھروں میں جب بچوں کے ساتھ ابیوز ہو تو سب کو ”خاموش“ رہنے کے لیے کہا جاتا ہے، سب کو معلوم ہوتا ہے لیکن اس پر کوئی بات نہیں کرتا، بچہ اس رازدارانہ رویے کی وجہ سے خاموشی سے سارا شیم اپنے اندر سمولیتا ہے، یہی وہ بچے ہیں جو وقت کے ساتھ خاموشی اور رازداری میں ایک تاریک شخصیت بنا لیتے ہیں جو اکیلے پن کا شکار ہوتی ہے۔
میرے اب تک کے کیریئر میں لڑکیوں سے زیادہ سیکشول ابیوز کا شکار میں نے لڑکوں کو پایا ہے، لڑکیوں کو گھروں میں بند کرکے، چونکہ وہ لڑکیاں ہیں تبھی انکی حفاظت ہوتی ہے معاشرہ بھی نظر رکھتا ہے کہ کوئی غلط حرکت نہ ہونے پائے لڑکیوں کے ساتھ،البتہ لڑکوں کو نام نہاد آزادی ہوتی ہے کیونکہ معاشرے کے مطابق انکی تو عزت کا کوئی مسئلہ نہیں یا ان کے جسم کو ہاتھ لگانے کی کوئی حدود نہیں، جو چاہے جیسے چاہے بچے کو ہاتھ لگا لے کیونکہ وہ تو لڑکا ہے، تبھی چھوٹے لڑکوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنا آسان رہتا ہے لوگوں کے لیے چھوٹی لڑکیوں کی نسبت۔ کیونکہ چھوٹے لڑکوں کو ہاتھ لگانے پر لوگوں کا شک نہیں جاتا۔
اگر آپ لڑکے ہیں اور آپ کے ساتھ بچپن میں سیکشول ابیوز ہوا ہے تو اسے توجہ دیں، اس واقعے کو پراسس کریں، ذہن سب بھول جاتا ہے وقت کے ساتھ لیکن ”جسم“ ہر قسم کا چھونا یاد رکھتا ہے، جسم میں شیم رہ جاتا ہے۔
وہ معاشرہ/گھر/ذہن جہاں لوگوں کو راز رکھنے پر مجبور کیا جائے، انہیں خاموش رہنے کو کہا جائے، مسائل کو حل کرنے کی بجائے اس پر جہالت کے پردے ڈالے جائیں تو اس معاشرے میں رہنے والے لوگ بہت تاریک ہوجاتے ہیں، ایسا معاشرہ گل سڑ جاتا ہے اور ایسا ہی کچھ معاشرہ ہمارا بھی ہے!!
اس گلے سڑے معاشرے اور اپنے بیکار رشتہ داروں کے سامنے اپنی فضول اور نام نہاد عزت کے لیے اپنے بچوں کو شیم نہیں کیا کریں۔ مسائل پر ”گفتگو، بات چیت اور بحث“ کرنا سیکھیں۔
ایک بات یاد رکھیے گا کہ دنیا میں کچھ بھی راز نہیں، سب سامنے آتا ہے، چھپتا کچھ نہیں۔ زمین میں دھنسی ہوئی معدنیات ہوں یا اجڑے شہر، زلزلہ آنے پر سب سطح پر آشکار ہوجاتا ہے، دنیا میں کوئی راز نہیں اور کوئی رازدار نہیں، سب کچھ کھل کر سامنے آتا ہے۔ اس لیے اپنے رویوں، عادتوں اور سرگرمیوں پر غور کرکے اپنے شیم کو پراسس کرکے ایک نارمل اور پرائیوٹ انسان بننے کی جانب قدم بڑھائیں، راز کے بوجھ کو اپنے کندھوں سے اٹھا کر پھینک دیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں