اکرم شیخ : صلح کُل کا مارگ لیا /عامر حسینی

زندگی میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سے آپ کا ہزاروں بار ملاقات کرکے بھی من بھی نہیں بھرتا۔ اور ان سے آپ بار بار ملنے کی تمنا کرتے ہیں ۔ ہر ملاقات پر اس شخصیت کے نئے بھید کھلتے ہیں ۔ زندگی کے بارے میں نئے زاویے دریافت ہوتے ہیں ۔ آپ آسمان اور زمین کے درمیان معلق ہونے کی بجائے مضبوطی سے پیر زمین پر جماتے ہیں اور سیر افلاک کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں میں اکرم شیخ کا شمار ہوتا تھا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے محترم حیدر جاوید سید کے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر بنے آفیشل پیج پر ان کے انتقال کی خبر سنی ۔ دل دکھ سے بھر گیا ۔
اکرم شیخ سے میرا پہلا تعارف نوے کی دہائی کے آخر میں تخلیقات لاہور کے دفتر میں لیاقت علی صاحب کے ہاں ہوا تھا جہاں ہمارے بہت سے سیئنر اور ہم عصر ساتھی جمع تھے ۔ اس کے بعد وہ کبھی مجھے سانجھ پبلیکیشںنز میں ملے تو کبھی فکشن ہاؤس میں تو کبھی نگارشات میں ، کبھی پنجابی ادبی بورڈ کے دفتر میں تو کبھی ادارہ ثقافت اسلامیہ میں ملتے۔ کئی ایک ادبی اور سیاسی تقریبات میں ہمارا ان سے میل میلاپ ہوجایا کرتا تھا۔ لیکن یہ ساری ملاقاتیں ذاتی دوستی اور بے تکلفی میں نہیں بدلی تھیں۔ ان سے ذاتی سطح پر تعلق حیدر جاوید سید کے توسط سے اس وقت بنا جب وہ ملتان سے دوبارہ شیخوپورہ شفٹ ہوئے اور پھر لاہور آگئے جہاں سے “دا فرنٹئیر پوسٹ” لاہور اور”روزنامہ میدان” لاہور کے اجراء کا منصوبہ رحمت شاہ آفریدی نے بنایا تھا۔ ان دنوں میرا قریب قریب ہر ہفتے ، دوہفتے بعد لاہور کا چکر لگتا اور اس قیام کے دوران شاہ جی دفتر جانے سے پہلے یا رات کو لاہور پریس کلب آجاتے اور اکرم شیخ بھی وہاں موجود ہوتے اور یوں ان سے گھنٹوں صحبت رہتی ۔ انھوں نے اپنی کئی کتابیں مجھے پڑھنے کو دیں۔

اکرم شیخ کا یہ آخری دور پنجابی زبان و ادب ، پنجاب کے صوفی شعراء اور پنجاب کے موسیقی سے وابستہ معروف گھرانوں پر تحقیق و ت تفتیش  کا دور تھا اور اس زمانے میں آئے روز صفی شاعر بلّھے  شاہ  کی زندگی کے احوال و آثار اور ان کی شاعری کی متنوع جہات کی کھوج لگانا ان کا جیسے جنون بن چکا تھا۔ ہماری ہر ملاقات میں کم و بیش بابا بلھّے کا تذکرہ ضرور ہوا۔ انھوں نے اس حوالے سے ہر مرتبہ کوئی نئی جہت دریافت کی ہوئی ہوتی ، کوئی نئی پرت کھولی ہوتی اور اس سے ان کے بلھے شاہ سے عشق اور لگاؤ کا اظہار ہوتا تھا۔ ان کے ہاں کبھی اس موضوع پر تکرار لفظی اور ایک طرح کے معنی کا صدور نہ ہوتا جس سے کہ آدمی اوب جاتا ہے اور بور ہونے لگتا ہے۔

وہ ترقی پسند خیالات کے مالک تھے ۔ ملائیت کے سخت خلاف تھے۔ اور لسانی شاؤنزم اور تعصب ان کے ہاں کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ ان کی پنجابی زبان سے محبت کا مطلب دوسری زبانوں سے نفرت یا گریز نہیں تھا اور نہ ہی وہ یہ دعویٰ  کیا کرتے تھے کہ دوسری زبانیں پنجابی کے مقابلے میں کمتر ہیں۔ وسیع المشربی اور صلح کُل ان کے ہاں سب سے مقدم راہ تھی – بابا بلھّے شاہ کو اسی لیے وہ اپنا مرشد قرار دیا کرتے تھے۔

وہ قصور کے گاؤں “للیانی ” کی جم پل تھے اور ان کا جنم 1948ء میں ہوا تھا ، پاکستان بننے کے کچھ ماہ بعد ۔ ان کے اندر جو ظلم، ناانصافی، اونچ نیچ، جات پات ، رنگ، نسل، زبان اور تفرقہ پرستی کے خلاف جو رجحان تھا اس کی جڑیں ان کی جنم بھومی میں پیوست تھیں ۔ ان کے ساتھ ہفت روزہ “زنجیر” لاہور میں کام کرنے والے طاہر اصغر اور روزنامہ دنیا لاہور کے ہفت روزہ میگزین میں کام کرنے والے صحافی سعید واثق سے بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے اپنی جنم بھومی کا کچھ جو تعارف کرایا تھا وہ میری بات کی تصدیق کرتا ہے:

[للیانی کا نام شاید اب مصطفی آباد رکھ دیا گیا ہے ۔یہ ضیاء الحق کی آمریت کے دنوں میں ہوا۔ پٹوار(اراضی کی پیمائش کا علم) کی تربیت کے لیے للیانی کے علاقے کا مشاہدہ ازبس ضروری سمجھا جاتاہے۔ پنجاب کا پٹوار سسٹم راجہ ٹوڈرمل نے ترتیب دیا تھا۔ زمینوں کا سرکاری ریکارڈ اکبر کے اس نورتن نے پہلی بار بنایا تھا۔ جسے بعدازاں انگریزوں نے مزید بہتر بنایا۔ فرید الدین بھٹی جو دْلا بھٹی کے والد تھے، اس نے اس پٹوار سسٹم کے خلاف بغاوت کی تھی۔ اسے پھانسی دے دی گئی۔ بعدازاں دْلا بھٹی نے بغاوت کا علم اٹھایا تھا۔ درحقیقت یہ منگولوں کی روایت تھی۔ چنگیز خان اور ہلاکو خان نے قبائلی نظام کو پروان چڑھایا۔ چنگیز خان سے پہلے کوئی خان نہیں تھا۔قصور کا دوسرا اہم قصبہ کھڈیاں اورتیسرا چونیاں ہے جہاں قدیم آبادیوں کے کھنڈرات آج بھی موجود ہیں۔ للیانی سکھوں کا قصبہ تھا۔ جہاں بھلر سکھ آباد تھے جو یہاں کے مالک بھی تھے۔ یہ ایک ٹبہ تھا، جس پر ایک مندر بنا ہوا تھا۔ روایت یہ ہے کہ ایک راجا جو زخمی حالت میں تھا، یہاں سے گزرا۔اس مندر کی ایک داسی نے اس راجا کی خدمت کی اور اس کے زخموں پر مرہم رکھا۔ اس داسی کا نام لالی تھا۔ راجا نے یہاں کی زمین کا بڑا حصہ لالی کو دے دیا۔ وہ لالی رانی ہو گئی۔ یہ قصبہ اسی کے نام کے حوالے سے للیانی ہو گیا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں رنجیت سنگھ کی بیوہ رانی جنداں اور انگریزوں کے درمیان 1857ء میں ایک معاہدہ بھی ہوا تھا۔
https://mag.dunya.com.pk/demo.php/interviews/4495/2022۔07۔31

انھوں نے 1964ء میں میٹرک کیا تھا۔ ان کا کتابوں سے رشتہ ایسے دوست احباب کی ترغیب سے شروع ہوا جو پڑھنے لکھنے سے شغف رکھتے تھے۔ اور پھر
‘ آنہ لائبریری’ سے کتابیں مستعار لیں اور وہیں انھوں نے اردو ادب کی کلاسیک، نیم کلاسیک روایات پر مبنی کتابیں پڑھنا شروع کیں۔ 70ء کی دہائی میں وہ حلقہ ارباب ذوق کے اجلاسوں میں آنے جانے لگے اور یہیں انھوں نے اپنے اندر چھپے شاعر اور کہانی کار کو دریافت کیا۔ پنجابی زبان و ادب سے اس دور میں ان کا رشتہ اتنا طاقتور نہیں تھا۔ 80ء کی دہائی میں انھیں پنجابی شعر و ادب کے اہم نام ‘اسیر عابد’ کی صحبت میسر آئی اور یہ صحبت انہیں پنجابی زبان و ادب سے آگاہی کی اس منزل پر لے گئی جہاں سے انھوں نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اسیر عابد دیوان غالب کے پنجابی ترجمے کے وہ زبردست مداح تھے اور ان کی زبانی اس منظوم پنجابی ترجمے کی تعریف سن کر ہی میں نے مجلس ترقی ادب لاہور سے چھپا وہ منظوم ترجمہ خرید کیا تھا۔
قطرے نوں موجاں جے نہر فنا ہووے – حدوں لنکھیاں ہویا درد دوا ہووے
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہوجانا – درد کا حد سے گورنا ہے دوا ہوجانا
ظلماں نوں وی ترس گئیاں آں رب سائیاں – ایڈا ویری کہیہ کوئی سجناں دا ہووے
اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اللہ اللہ – اس قدر دشمن ارباب وفا ہوجانا
اسیر عابد
وہ 1986ء میں قسمت آزمانے لاہور شہر وارد ہوئے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ ایک اخبار میں انھوں نے چار سو روپے ماہانہ پر پروف ریڈر کے طور پر ملازمت کی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اردو سے وہ روزی کماتے تھے اور پنجابی میں تخلیقی اظہار کیا کرتے تھے۔ کم وبیش 20 سال انہوں نے لاہور کے چھوٹے بڑے اخبارات، رسائل و جرائد سے وابستہ رہ کر روزی روٹی کمائی ، اپنے بچوں کو پڑھایا لکھایا۔

julia rana solicitors london

ایک بات میں شرح صدر سے کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے اپنا قلم کبھی برائے فروخت نہیں رکھا ۔ وہ صحافت ہو یا ادب ہو یا سیاست ہو اس میدان میں دھڑے مفاد پرست دھڑے بندیوں، لابیوں، گروہ بندیوں کا حصّہ نہیں بنے۔ انھوں نے اپنے آپ کو کسی حکمران یا اس حکمران کے ‘رتن’ کا غلام نہیں بنایا اور نہ وہ کسی دولتمند کی دہلیز پر سجدہ ریز ہوئے۔ بے روزگاری کے ماہ و سال میں بھی انھوں نے اپنے پندار کو ٹھیس نہیں پہنچنے دی۔ وہ ملامتی صوفی تھے اور بلھّے شاہ ان کا مرشد تھا ۔ تکریم انسانیت کے فلسفے کو انھوں نے اپنے قول اور فعل کے زریعے مجسم کیا اور ساری زندگی درویشی اور قناعت پرستی کے ساتھ گزار دی ۔ وہ سرخ رو ہوئے۔

انہیں اس بات کا گلہ تھا کہ پنجابی زبان خود پنجابی بولنے والوں کے گھروں میں اجنبی بن گئی اور اسے زبردستی گھر، بازار، اسکول، مدرسہ، کالج ، جامعہ اور کام کی جگہوں سے بے دخل کردیا گیا۔ پنجاب کے شہروں میں جوان ہونے والی نسل اپنی دھرتی سے اس لیے نہیں جڑ سکی کہ پنجابی زبان اس کے لیے اجنبی زبان بنادی گئی تھی اور پنجاب کی عوامی تاريخ پر حملہ آوروں ، قبضہ گیروں ، سامراجیوں اور نوآبادیاتی حاکموں نے سینکڑوں دبیز پردے ڈال دیے اور پاکستان کی گماشتہ سرمایہ دار، جاگیردار اور اس کی چاکری میں مصروف ملائیت نے اور اردو اخبارات کی رجعت پرستی نے بعد میں آنے والی نسلوں کے شعور کو پراگندا کردیا۔ پنجابی مزاحمتی ، ملامتی ، انقلابی اور باغی کردار تاريح ، نصاب کی کتابوں اور نام نہاد مین سٹریم اردو میڈیا سے غائب کردیے گئے۔

[بلھے شاہؒ محض ایک صوفی ہی نہیں دانشور، فلسفی، مورخ اور سماج کا ناقد بھی ہے۔ بلھے شاہؒ کو سمجھنے اور جاننے کے لیے اسے ایک عام صوفی نہیں سمجھنا چاہیے۔ بلھے شاہؒ ایک ایسی جادونگری ہے ، شہر طلسمات ہے جس کے کئی ایک دروازے ہیں اور اس میں ہر طرح کے آئینے رکھے ہوئے ہیں اور اس میں انسان اپنے کئی روپ دیکھتا ہے۔ وہ ایک جگت صوفی بن چکا ہے۔ بلھے شاہؒ پس ماندہ انسانیت کا صوفی ہے۔ صوفی ازم انسان سے ہوتا ہوا خدا کی طرف جاتاہے اور انسان میں ہی خدا تلاش کرتا ہے۔] [دوسرے ملامتی شاعر شاہ حسینؒ ہیں جو دنیا کے لہوولعب سے دور رہنے کے لیے نت نئے روپ اختیار کرتے ر ہے اور دنیا میں ہی رہتے رہے۔ دھتکارے ہوئے لوگوں سے ان کا تعلق ہے۔ شاہ حسینؒ سب کچھ تج کر صوفی ازم کی طرف آئے تھے۔] [پنجاب کی ساری رومانی داستانیں ’’مردشاہی‘‘ کی نمائندہ ہیں۔ جن میں عورت سے وفا کے تقاضے بھی ہوتے ہیں۔ انھیں معصوم اور مظلوم بھی قرار دیا جاتا ہے۔ بے وفائی کے الزام بھی عائد ہوتے ہیں سب لکھنے والے مرد ہیں۔ ان کے نظریے کا بنیادی ماخذ وہ عورت ہے جو فسادی بھی ہے اور اس کی وجہ سے جنت سے دیس نکالا بھی ہوا تھا۔ تلخ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ تمام داستانوں کے سرناویں عورت کے نام سے شروع ہوتے ہیں۔ ہیررانجھا، سوہنی مہینوال، سسی پنو، سہتی مراد، صرف ایک داستان ہے جس میں مرزا یعنی مرد کا نام سامنے آتا ہے اس میں تمام الزامات واضح طور پر عورت پر عائد ہوتے ہیں جو صریحاً زیادتی ہے کیونکہ اگر کہانی کا گہرائی میں مطالعہ کریں تو واضح طور پر سامنے آتا ہے۔] [وہ شاعر ،ادیب اور فنکار جو مروجہ روایتوں سے انکار کرے، جواپنی سوچ اور فکر کے لیے کوئی سمجھوتہ نہیں کرے، نظام کو قابل قبول بنانے کے لئے جدوجہد جاری رکھے ۔ منٹو ،فیض اور فراز ایسی شخصیات تھیں جو اپنے ملک، معاشرے اور لوگوں میں ہمیشہ اجنبی رہے۔ لیکن بقول فیض:
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد] اکرم شيخ کو سرخ سلام

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply