سپریم کورٹ آف پاکستان کا بطورادارہ عزت کرنا ہم سب پاکستانیوں کی آئینی وقانونی ذمہ داری ہے اور جو افرادقانون و آئین کی پاسداری کرتے ہیں، ان کو عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔ جو ججز اور جسٹس قانون کے برعکس فیصلے دیتے ہیں ،عوام میں ان کا تاثر انتہائی خراب ہوتا ہے۔ اور جوقانون و آئین کے برعکس راستہ اپناتے ہیں، جب ان پر کوئی زور نہیں چلتا تو پھر ان کے لیے عوام طنزیہ الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک کلپ وائرل ہے جس میں جب موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اسلام آباد کے ایک ڈونٹس شاپ میں ہمراہ فیملی گئے، تو ڈونٹس شاپ کے ملازم شخص نے کہا، “لعنت ہو تم پر”۔ اسی پر اب جا بہ جاقاضی صاحب کیلئے “قاضی ڈونٹس” کا لفظ استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ اصطلاح طنزیہ اور مذاق کے طور پر استعمال کی گئی ہے، لیکن ان کی شخصیت کے ساتھ ایسا مذاق بالکل نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ وہ ادارے کے سربراہ کے طور پر کام سر انجام دے رہے ہیں۔
کیا کسی نے محسوس کیا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟اس پر کچھ غور کرتے ہیں۔ آپ سب کے علم میں ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ مذکورہ نے پی ٹی آئی سے بیٹ کا نشان چھین لیا؟ کیوں؟ مخصوص نشستوں پر دوغلی پالیسی اپنائی ،کیوں؟ پی ٹی آئی کے منحرف امیدواروں کیخلاف پٹیشنز کو نظرانداز کیا،کیوں؟ رجیم چینج آپریشن کےبعدآئینی مدت میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پر پٹیشن نہیں سنی، کیوں؟ حالیہ دنوں میں الیکشن میں پی ٹی آئی کی جیتی ہوئی نشستوں کو اپنے قلم کے زور سے مسترد کیا، کیوں؟ فارم 47 والوں کو ڈیل دے رہا ہے، کیوں؟ ٹربیونلز کو انتخابی نشستوں کے فیصلے کا اختیار نہیں دے رہا، کیوں؟اشتہاری ملزم نواز شریف اورآصف زرداری جوکہ نیب اور دیگر فوجداری مقدمات میں ملوث تھا، کا خیرمقدم کیا اور انہیں مقدمات سے استثنیٰ دیا، کیوں؟ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بار بارقانونی بے ضابطگیوں کے مرتکب ہونے کے باوجودبچا رہا ہے، کیوں؟ وہ ایک ایسے کیس میں توہین مذہب کا ذمہ دار ہے جہاں قادیانیوں کو کلین چٹ دی گئی۔ وہ مجوزہ غیر قانونی آئینی ترامیم کے بھی فائدہ اٹھانے والوں میں سے ہیں اور پورے جعلی نظام کے لیے پی ڈی ایم اور اسٹیبلشمنٹ کے ضامن بنے ہوئے ہیں۔ آرٹیکل 63A کی نظرثانی درخواست پر زور دے کر فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ کا راستہ ہموار کر رہے ہیں، کیوں؟اب پارلیمنٹ کے فلور پر انسانوں کے ضمیروں کی فروختگی کی منڈی لگے گی اور اب پھر اپنے ہی پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس میں سپریم کورٹ کی رولز اور آئین کے متصادم قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے موجودہ مبینہ جعلی مرکزی حکومت کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔کیوں؟ ایسا لگتا ہے کہ سپریم کورٹ اب بطور چیف جسٹس فائز عیسیٰ اسٹیبلشمنٹ کے مہرے اور ان کے ذاتی نوکرکے طور پر کام کر رہا ہے، کیوں؟ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کو زدوکوب کرنے اور دھمکیوں کے خلاف پٹیشن کی شنوائی کے لیے اقدامات نہیں اٹھا رہے، کیوں؟ پورے ملک خصوصاً پنجاب میں انسدادِ دہشت گردی کے ججز کو خفیہ ادارے ہراساں کر رہے ہیں، کیوں؟ کیوں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس صاحبان کے الیکشن ٹریبونل کے طور پر کام میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں۔ جسٹس شاہد کریم کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے سپریم کورٹ ٹرانسفر کیا، کیوں ؟کمشنر روالپنڈی لیاقت چٹھہ کے الیکشن دھاندلی کے واضح انکشافات کے باوجود سوموٹوایکشن نہیں لیا جارہا، کیوں؟ یہ چارج شیٹ اتنی لمبی ہو چکی ہے کہ اس کا اعادہ کرنا مشکل ہےاور چیف جسٹس پر الزام ہے کہ وہ پورے نظام کو گندہ کر رہے ہیں ۔
پاکستان کو معاشی اور سیاسی بحرانوں کا سامنا ہے۔ اب عدالتی طور پر بھی بحران سر اٹھا رہے ہیں۔ ججز کے آپس میں اختلافات اب کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ ایک نیا محاذ کھل چکا ہے۔
اس ملک میں قانون کی بالادستی اور آئینی حکمرانی کو مستحکم کرنے کے لیے ایک تحریک پیدا کرنی ہوگی، خاص طور پر جب سپریم کورٹ کے اعلیٰ منصب پر فائز جج غیر قانونی آئینی ترامیم کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ملک کی تمام پارٹیوں اور سماجی طور پر فعال شہریوں کو انصاف اور قانون کی حکمرانی کے دفاع میں متحد ہوکرکھڑا ہونا چاہیے۔

جہاں تک “جج ڈونٹس” کے طنزیہ الفاظ کے استعمال کا تعلق ہے، یہ ایک خاص موقع پر ایک شہری کی جانب سے ان کی دل کی آواز ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ الفاظ کے انتخاب میں احتیاط ضروری ہے کیونکہ ایک مہذب شہری کے طور پر قطعی اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور ایسے الفاظ کا استعمال مناسب نہیں۔ اگر کوئی ملکی آئین اور قانون کو تہہ و بالا کرے، پورے نظام انصاف کو گدلا کرے، لیکن کہیں بھی اس کے خلاف آواز اٹھانا اور ہرزہ سرائی کرنا اسٹیبلشمنٹ اور پی ڈی ایم کی حکومت کو بُری لگتی ہے۔ ان پر آوازیں کسنا سنگین جرم ہے۔ خاص کر قاضی کو ڈونٹس سے تشبیہ دینا سراسر قاضی کی شخصیت کے خلاف ہے۔لہذا ایسا کرنا بالکل بھی مناسب نہیں اس لئے ہمیں آئینی مسائل کو سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے اور اپنے مقصد پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں